ہنزہ نیوز اردو

دعا زہراء اور ہمارا معاشرہ

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی دعا زہرہ کے لیے کچھ دن پہلے بڑے فکر مند اور دعا گو تھے اور آ ج ایسی دعا کو برا بھلا کہا جارہا ہےہم کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور عقل کو فوقیت دی ہے پر انسان عقل کو ترک کر رہے ہیں ۔ والدین کے لئے انکے بچے ایک اساسہ ہوتے ہیں ماں باپ اپنے خون پسینہ ایک کر کے انکو بڑا کرتے ہیں اور اپنی ساری خوشیاں ان پے نچھاور کرتے ہیں یہی سوچ ہوتی ہے کہ بچے بڑے ہو کر ہمارے بوڑھاپے کا سہارا بنینگے ۔
آ ج کل کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں بچے والدین کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں انکا کہا نہں مان دہے ہیں جبکہ والدین ان کے لیے ہر ضرورت پوری کرتے ہیں یہ انسان کی زہنی بیماری ہے کہ ہمارے والدین اور ہمارے ذہنوں کا ملن نہں ہو پاتا جسکو ہم جنریشن گیپ کہتے ہیں۔ماں باپ کبھی غلط نہیں سوچتے اس لیے بچوں کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے احساسات کو سمجھے اور دوکھ یا چوٹ نہ پہنچائے کہ وہ برداشت کے قابل نہ ہو خاص کر اس وقت میں والدین پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ رویہ بہتر رکھے اور کوشش کریں کہ ایک دوستانہ ماحول پیدا کریں کہ وہ ہر بات بلا جھجک اپنے ماں باپ سے کریں ۔اس سے معاشرے کے آدھے مسئلے حل ہوسکتے ہیں۔ اور دعا زہرہ نے جو جانے انجانے میں قدم اٹھایا وہ کوئی اور نہ اٹھا سکے۔بعض کم ظرف افراد اب دعا زہراء پر سوالات اٹھا کر اس معاملے کو اٹھانے والوں اور اس کے والدین کا مذاق اڑانے لگے ہیں۔ بہت ہی حیرت ہے کہ ایک طرف ہمارا معاشرہ تعصب کا شکار ہوگیا ہے تو دوسری طرف ہم کسی بھی معاملے پر سنجیدہ ہونے کے بجائے اسے مزاح کی شکل دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام الناس میں شعور پیدا کرنے کیلئے ہر خاص و عام اپنا کردار ادا کرے۔ ایک قوم میں اگر اسی طرح تعصب پروان چھڑنے لگا تو دشمن کو اسے ختم کرنے کیلئے مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ قوم خود ہی اپنے آپ کو رفتہ رفتہ تباہ کر دے گی
مسلمان سے پہلے ہم انسان ہیں اور مسجد میں زہرہ ایک شیعہ نام کی وجہ سے بچی کا اغواہ ہونا اعلان نہیں ہوا ۔اگر دیکھا جائے تو افسوس کی بات ہے کہ ہم ہر وقت خود کو مسلمان اور دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں خواہ وہ جس بھی مذہب کے ہو ۔ ہمارے آ پس میں جو بھی مسئلہ ہو ہم اسیے مذہب کے ساتھ جوڈ دیتے ہیں جس سے اسلام کے وہ انمول اور اللہ کی ہدایت کا ہم توہینِ کرتے ہیں اسلام ایک خوبصورت دین ہے جس میں عورت کو خود مختار اور بہادر بنایا ہے جتنا کہ وہ اپنے فیصلے بھی خود کر سکتی ہے ۔لیکن افسوس اس بات پر ہوتی ہے کہ معاشرے میں جو بھی کوئی غلط کام کریں اور اس کا تعلق فردواحد سے ہو تو بھی ہم مذہب کو اس کا وجہ بنا کر بات کو بڑھاتے ہیں مذہب ہمیں انسانیت سکھاتی ہیں نہ کہ ایک دوسرے کو جانور سمجھے اور اپنے آ پ کو حرف کل قرار دے ۔مذہب ہمیں ایک دوسرے کے قریب لانے کا زریعہ ہے اللہ تعالیٰ قرآن میں بھی ارشاد فرماتا ہے کہ “ہم نے انسان کو قبیلوں میں تقسیم کیا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کو پہچان سکے جان سکے ۔
ہمارا معاشرہ جتنا بھی پڑا لکھا ہو ہم میں تنقید کا جو کیڑا ہے وہ نہیں نکال سکتے ہم لوگوں کو تو کھبی ٹھیک نہیں پر اپنے غلط کو بھی ٹھیک کہتے ہیں اسی وجہ سے اس ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوگی ہے اور ان سنہرے اصول کے ہوتے ہوئے ہم اسلام کے قانون کے اوپر نہیں چل رہے ہیں ۔
میرا خیال ہے اگر ہم تنقید کے بجاے خود کو صحیح کریں تو معاشرہ خود بہ خود ٹھیک ہوگا۔ رہی بات مذہب کی تو مزہب انسان اور اسکے رب کے درمیان کا تعلق ہے ایسے ہم اپنے مفادات یا دوسروں کے برایوں کے لیے استعمال نہیں کرسکتے خداراہ دوسروں کو کافر کہنا چھوڑ دے اور خود پہلے انسان پھر مسلمان بنے کی کوشش کریں ۔
اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
“خدا نے اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جن کو خیال اپنے حالت کے بدلنے کا”

مزید دریافت کریں۔

مضامین

کیا عورت کم عقل ہوتی ہے؟

ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ عورت کم عقل اور کم دین ہے، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ یہ