ہنزہ نیوز اردو

خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان لمحہ فکر

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

خود کشی کی رجہان اتنی کہ قلم اٹھانے پے مجبور وہ بھی ایسی موضوع جس کی اختیار اللہ نے دی ہی نہیں ہم کہتے ہیں کہ قسمت کی کھیل لیکن کچھ حصہ اللہ تعالیٰ نے ہمرے ہاتھ میں بھی رکھا ہے۔ کیا لگتا ہے کہ یہ اپنے ماں کے کلیجے کو چیر پھاڑنا تعلیم ہے ۔۔۔۔؟ ایسی کے لیے ہمارے ماں باپ بچپن سے خون پسینہ ایک کر کے ہماری تربیت کرتے ہیں کہ جب انکی کمر کمزور ہو تو انکا سہارا بنے کے بجائے انکی زندگی کو غموں اور آنسوؤں سے بھر دے ۔! یہ شکواہ ہے ان سے جو نہ مجھے سن سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں لیکن اپنے ماں باپ کی سسکیاں محسوس کر سکتے ہیں ۔پھر بھی وہ اپنے والدین کے جھولی غموں سے بھر کر گزر گئے اس راستے پر جہاں سے لوٹنے کا نام ونشان نہ ہو ۔کیوں کر رہے ہیں آ خر کار ہم کیوں! انصاف کی اس عدالت میں ناانصافی کر رہے ہیں ۔ان کے ساتھ جو ہم سے ہیں لگائے بےشمار امیدیں اور توقعات جو ہماری سانس سے جیتے ہیں انکا گلہ کیوں کھوٹ رہے ہیں ان امیدوں کا سرعام قتل کیوں کر رہے ہیں ۔ خودکشی ایک حرام چیز ہے جو شرک کی معانوع میں آ تا ہے ہم قدرت کو ٹھکراتے ہوئے قدرت کی فیصلوں کو چییلنج کرتے ہیں خودکشی پوری عالم انسانیت میں معمول بن چکی ہے ،لوگ کوئی عزت کی خاطر تو کوئی روٹی یا غیرت کی خاطر ۔ آ ج کل کوئی نشے میں مرتا ہے تو ،کوئی نشے کے لیے مرتا ہے ۔خداوند تعالیٰ نے ایک نظام ترتیب دی ہے جس طرح ایک سبز بہار درخت سے پھول جڑ جاتے ہیں ایسی طرح ہم سب نے اس فانی دنیا سے کوچ کر جانا ہے لیکن جب ہم اپنے زندگی سے اتنے تنگ آ تے ہیں کہ اپنے ہی جان لیتے ہیں ۔

صرف کچھ وقت سوچا جائے تو مجبوراً اس ماں کو بھول جاتے ہیں اور ان مجبوریوں کو خودکشی میں ظاہر کرتے ہیں ۔ماں کی زندگی ہی کیا ہوتی جسکی جوانی میں اپنے اس اولاد کو سولی پر لٹکتے دیکھے گی تو جسکے لیے ہر درکھ درد ،بھوک پیاس برداشت کر کے آنسوئوں کو اپنے اندر سمو کے خم مسکراتی ہے صدقے جاؤں ان ماں باپ پر ۔اپنے لیے بھی حرام سمجھ کے اولاد کی پرورش کرتی ہے وہ وہی درد برداشت کرتی ہے جو اپنے اولاد کو جنم دینے میں ہوتی ہے پیدائش سے بھڑھاپے تک انکی خیر خواہ ہوتی ہے اولاد جتنا بھی بڑا آفسر ہو بس ماں کے لیے بچہ ہی رہتا ہے ۔
کیوں نہیں سوچتے ہم اس عظیم الشان شخصیت کے بارے میں جسکو ماں بولتے ہیں وہ باپ جودن رات محنت مزدوری کرتا فقت اپنے بچوں کی صیح تعلیم و تربیت کے لیے جسکو اپنے اولاد کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر دل کو ٹھنڈک پہنچتی ہے اولاد کو کسی بھی چیز کی کمی محسوس ہونے نہں دیتا اپنے فرشتے جیسے باپ کی ہم فکر کیے بغیر زندگی کا چراغ گل کر دیتے ہیں ۔زندگی جو کی ایک طرف سے انمول تحفہ ہے اسکی قدر نہیں کرتے۔ آ خر کب تک اور کتنا ہم خود کو ختم کرینگے کبھی دریا کے سینے میں دفن ہوکے تو کبھی اپنا ہی گالہ کھوٹ کر ۔ناشکر ہیں ہم زندگی کا ۔ بس فقت چند وجہ ، امتحان میں کم نمبر لائے تو کیا ہوا ،نوکری نہ ملی تو کیا ہوا،تمہں وہ چیز نہ ملی تو کیا ہوا جس کی تمہیں تمنا کرتے ہو ،ان سب سے بڑ کر تمہارے زندگی ہے تمہاری زندگی ان کے لیے بھی جو تمہں چاہتے ہیں تمہارا ہونا جن کے لیے قیمتی ہے جنکا تم اساسہ ہو ۔بس ایک دل کی آ نکھ سے دنیا دیکھیں جو بہت وسیع اور خوبصورت ہے اور تمہاری زندگی جو عزیز ہے ۔۔۔۔۔کیوں کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا کیا سارے راستے بند ہوتے ہیں جو اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ارمانوں کا جنازہ نکالتے ہیں دنیا میں بے شمار آپشنز موجود ہوتے ہیں بس انسان خود با ہمت رہے اور خود سے محبت کریں۔اپنی زندگی کی اہمیت کو اجاگر کریں ۔
دنیا کی سب سے بڑی زبان احساس ہے ،احساس ہونی چاہیے کہ ہمارے جانے کے بعد کون سہارا بنے گا ہمارے والدین کا اور خاندان کا۔دنیا تو محبتوں کا میلا ہے ان دوستوں کے لیے احساس کریں جو ہر درکھ درد میں ساتھ ہوتے ہیں ، خودکشی ناانصافی ہے ان سب کے ساتھ جو ہم سے محبت کرتے ہیں ہم انکو نہ بھرنے والی ایک زخم دیتے ہیں ہماری جان جیسے بھی نکل جاتی ہے پر ہمارے والدین روز بہ روز مرتے ہیں ۔انکے لیے ہر لمحہ عذاب ہوتا ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو خودکشی صرف پھانسی کے پھندے کے معانوں میں نہں آ تا بلکہ آ ج کل کے نوجوان اتنی تیز رفتار سے گاڈیاں ،موٹر سائیکل چلاتے ہیں جس سے ناگہانی واقعات ہوتے ہیں یہ بھی والدین کے لئے باعث عزیت ہوتی ہے۔جس اولاد کو اپنے ہاتھوں سے پالپوس کر بڑا کیا ہو اور اسیے اپنے ہاتھوں سے زمین کے سینے کے حوالے کرنا ایک باپ کے لیے قیامت سے کم نہیں ۔فقت احساس ہی ہے جو ان سب سے روک سکتی ہے اور اپنے آپ سے محبت! جو زندگی خوبصورت بناتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس زندگی کو امانت دی ہے اور وہی برحق ہے .

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ