وجودِ کائنات محبوبِ خدا صاحبِ قرآن حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت پر زرہ برابر بندۂ خدا چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم اسے رب اپنے انعامات سے سرفراز کرتا ہے وہ اپنے محبوب سے محبت کرنے والوں کو نہ فراموش کرتا ہے اور نہ ہی احسان کو رد کرتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الله کی محبت دیکھئے کہ خود بھی درود و سلام بھیجتا ہے اور اپنی مخلوقات کو بھی ادا کرنے کا حکم صادر فرماتا ہے یہاں واضع کرتا چلوں کہ غیر مسلموں کو دنیا میں ہی تمام انعامات عطا کردیئے جاتے ہیں جبکہ مسلمانوں بلخصوص امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں جہاں میں انعامات عطا کیئے جاتے ہیں۔ ناموسِ ریاست اور ختمِ نبوت کے مجاہدین کیلئے خاص الخاص انعامات رکھے گئے ہیں جو آج کے دورِ فتن دجالی زمانے میں بہت زیادہ اور اہمیت کے حامل انعامات ہیں۔ ختمِ نبوت کے ایک مجاہد کے انعام کا ذکر کرتا چلوں۔۔۔۔۔معزز قارئین!! ختم نبوت کے مجاہد حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ کی کاوشیں رب نے قبول فرمائیں!! آپ کا بیٹا آج شام تک کا مہمان ہے اس کا کوئی علاج نہیں ۔ ڈاکٹر کے یہ الفاظ سن کر مولانا رو پڑے اپنے بیٹے کو گھر لے آئے گھر میں کھڑے اپنے بیٹے کی تیمارداری کررہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی مولانا دروازے پر گئے باہر ایک بوڑھے شخص کو کھڑے پایا۔ حضرت نے سلام و دعا کے بعد پوچھا باباجی! خیریت سے آئے ہو؟ وہ کہنے لگا خیریت سے کہاں آیا ہوں! ہمارے علاقے میں ایک قادیانی مبلغ آیا ہوا ہے وہ لوگوں کو گمراہ کررہا ہے پوری امت گمراہ ہورہی ہے اور آپ گھر میں کھڑے ہیں مولانا نے جیسے ہی یہ بات سنی آپکی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے بیوی سے فرمایا بی بی! میرا بیگ کہاں ہے؟ بیوی نے بیگ اٹھا کردیا اور آپ بیگ ہاتھ میں پکڑے گھر سے روانہ ہونے لگے بیوی نے دامن پکڑ لیا اور کہنے لگی مولانا! آخری لمحات میں اپنے نوجوان بیٹے کو اس حالت میں چھوڑ کر جارہے ہو!! مولانا نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور روانہ ہونے لگے تو جاں بلب بیٹے نے کہا: ابا جان!! میں آج کا مہمان ہوں چند لمحے تو انتظار کر لیجئے میری روح نکل رہی ہے مجھے اس حال میں چھوڑ کر جارہے ہو؟ مولانا نے اپنے نوجوان بیٹے کو بوسہ دیا اور فرمایا: اے بیٹے! بات یہ ہے کہ میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خاطر جارہا ہوں کل قیامت کے دن حوضِ کوثر پر ہماری تمہاری ملاقات ہوجائیگی یہ فرمایا اور گھر سے روانہ ہوگئے بس اڈے پر پہنچے ابھی بس میں بیٹھے ہی تھے کہ چند لوگ دوڑے آئے اور کہنے لگے مولانا!! آپکا بیٹا فوت ہوچکا ہے اِسکا جنازہ پڑھاتے جائیں! مولانا نے آسمان کیطرف پھر نظریں اٹھائیں اور فرمانے لگے جنازہ پڑھانا فرضِ کفایہ ہے اور امت محمدیہ کو گمراہی سے بچانا فرضِ عین ہے فرضِ عین کو چھوڑ کر فرضِ کفایہ کی طرف نہیں جاسکتا پھر وہاں سے روانہ ہوگئے۔اْس علاقے میں پہنچے جہاں ملعون فاسد و فاجر موجود تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا کی وہ قادیانی مبلغ بھاگ گیا۔ مولانا تین دن کے بعد گھر واپس پہنچے
بیوی قدموں میں گرگئی اور رو کر کہنے لگی مولانا! جب آپ جارہے تھے تو بیٹا آپ کی راہ تکتا رہا اور کہتا رہا جب ابا جان واپس آئیں تو انھیں میرا سلام عرض کردینا مولانا نے جب یہ سنا تو فوراً اپنے بیٹے کی قبر پر گئے اور دعا مانگنے لگے اے اللہ! ختمِ نبوت کے وسیلے سے میرے بیٹے کی قبر کو جنت کا باغ بنادے۔ مولانا دعا مانگ کر گھر واپس آئے تو رات بیٹے کو خواب میں دیکھا بیٹے نے اپنے ابا سے ملاقات کی اور کہا کہ: ختمِ نبوت کے وسیلے سے اللہ تعالی نے میری قبر کو جنت کا باغ بنادیا ہے۔۔۔۔ماشاء الله سبحان الله۔۔۔۔۔۔ ایسے تھے ہیں اور انشاء الله رہیں گے ہمارے اکابرین جنہوں نے ناموسِ رسالت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا یہ جذبہ تا قیامت جاری و ساری رہیگا۔الله جل شأنه اپنی رحمت سے میری آپ کی اور امتِ محمدی کی مغفرت فرمائے۔آمین یا رب العالمین

مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ