جذام ایک بیماری کا نام ہے جو خون کے بگاڑ سے پیدا ہوتی ہے اور ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیاں وغیرہ گرِادیتی ہے،یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کے جراثیم پھیلنے کے سبب دوسرا شخص بھی اس بیماری سے متاثر ہو سکتاہے۔اس کے مریض کا جسم رفتہ رفتہ گلنے لگتا ہے اور اس سے جسم پر جو زخم نمودار ہوتا ہے،اس سے پیپ پڑ جاتی ہے نیز مریض کا گوشت گویا جگہ جگہ سے جھڑنے لگتا ہے۔
لے کے تعبیر شفا بے آسروں کے خواب کی
آگئی بن کر تمنا ہر دل بے تاب کی
ایسے لوگوں کی مدد کے لئے اللہ نے ایک مسیحاء ڈاکٹر رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ کی شکل میں بھیجا، جو جرمن کے شہرلیپزک میں 9۔ ستمبر 1929ء کو پیدا ہوئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم عروج پر تھی کہ رتھ فاؤ کے بھائی شدید بیمار تھے ان کا علاج ممکن تھا لیکن طبی سہولیات کی عدم دستیابی ان کی علاج میں بڑی دشواری بن رہی تھی،اس دوران روتھ فاؤ نے اپنے ضمیر سے یہ وعدہ کی کہ وہ اس قسم کی بیماریوں کی علاج معالجے کی خاطر جو امراض قابل علاج ہیں اور ان بیماریوں جن کے سبب انسانی زندگی مفلوج ہو کے رہ گئی ہے ایک ڈاکٹر بن کر ان مریضوں کی خدمت کی بجا آوری کروں گی۔ جن کا ایمان اور ارادے مضبوط ہوتے ہے اللہ ان کی ضرور سنتا ہے ان کی خواہش کے مطابق انہوں نے میڈیکل کی تعلیم 1950ء میں مکمل کر لی اور خود کو عیسائی تنظیم ڈاٹرز آف دی ہارٹ میری کی سماجی تنظیم سے منسلک ہوگئی اور مذکورہ مرض میں مبتلا افراد کی تلاش کے سلسلے میں بھارت جانے کے لئے تیار ہوگئی مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ان کو بھارت کا ویزہ نہیں ملاتو اپنے ایک حبیب نے مشورہ دیا کہ آپ پاکستان جائیں وہاں سے آپ کو آسانی سے بھارت کے لئے ویزہ ملے گی۔اپنے حبیب کی اس نصیحت پر عمل کرکے پاکستان پہنچ گئی اور ایک مقامی ہوٹل میں قیام کی جہاں ان کی ملاقات ایک پاکستانی خاتون ڈاکٹر سے ہوئی، ان سے باتوں باتوں میں جذام کی بیماری کے حوالے سے بات ہوئی اور بھارت جانے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے کہا کہ جذام کے مریض پاکستان میں بھی ہے۔ آپ ان کا علاج کیوں نہیں کرتی؟۔رتھ فاؤ نے ان مریضوں سے ملاقات کی خواہش ظاہر کردی نیز ان سے ملنے کے بعد انہوں نے بھارت جانے کا ارادہ ترک کردی اور پاکستان میں ہی قیام کرنے کا ارادہ کرلیااور اپریل 1962ء میں انہوں نے کراچی میں جذام کے مریضوں کے علاج کے لئے ایک طبی مرکز قائم کیاجو میری لپروسی سینٹر کے نام سے معروف ہے۔کافی مدت تک انہوں نے کراچی اور اس کے گرد نواح میں موجود جذام کے مریضوں کی طبی خدمات سر انجام دی، ڈاکٹر رتھ فاؤ نے بڑی تگ و دو کے بعدانہوں نے پاکستان کے شمالی حصے کے دور افتادہ علاقے غذر میں اس قسم کی جذام کے مریضوں کی حالت زار کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، یہاں غذر میں ایک بچی جذام کی مریضہ تھی۔قارئین اکرام! جیساس کہ آپ کے علم میں ہے کہ یہ مرض وبائی ہے یعنی ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں پھیلنے والی ہے وہاں کے لوگوں نے اس مریضہ کو گنجان آبادی سے دور ایک عارضی گھر بنا کر وہاں روٹی مہیا کی جاتی تھی۔ڈاکٹرروتھ فاؤ نے اس خاتون کو اپنی آنکھوں سے دیکھی اور مرض کے بارے میں ان سے یہ دریافت کی کہ یہ کب اور کیسی آپ کو لگ گئی تھی؟مریضہ نے اپنی یاداشت کے تحت کچھ معلومات دی۔ان سے ملاقات کے اگلے ہفتے سے باضابطہ طور پر عالمی ادارہء صحت (ڈبلیو ایچ او)کی خدمات بھی حاصل کرکے اس مریضہ کی جذام سے مکمل صحت یابی تک اپنی کوششیں پرقرار رکھی اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ انہیں غذر سے منتقل کرکے گلگت لائی گئی اور شادی کے بندھن میں جوڈ دی گئی۔طویل مدت تک جذام کی مرض میں مبتلا مرد و خواتین کے علاج معالجے کو جاری رکھ کر اس جرمن خاتون ڈاکٹر نے اپنے مذہبی پیشوا حضرت عیسیٰ ؑ کی جو کہ اپنے دور کے پیغمبر کے علاوہ مذکورہ مرض کے حکیم و طبیب تھے کی نقش و قدم کو چومی جو کہ آنے والے نسلوں کے لئے مشل راہ کی کردار ادا کی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممتاز شخصیات نے انہیں ان کی زندگی کی سنہری دور کو آنے والی نسلوں کے لئے اپنی مثال آپ مانا جاتا ہے، ان کی تگ و دو محنت کی خاطر عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو 1996ء میں ایشیا ء کا پہلا لیپروسی فری ملک قرار دیا۔ اس وقت ملک میں قائم 260 لیپروسی ڈائگنوس سنٹرز میں لیپروسی ٹیکنیشنزاپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔حکومت پاکستان نے 1979ء میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کو پاکستان کا جذام کے خاتمے کے لئے وفاقی مشیر بنایااور 1988ء میں پاکستان کی شہریت دیدی گئی۔اس مقصد کے لئے اس نے اپنی جوانی سے لے کر بڑھاپے تک (عمر بزرگی) سب کچھ نچھاور کردی۔ یقینااللہ اس کو اسکی کی جزااسے ضرور دے گا۔ڈاکٹر رتھ فاؤ کی گرانقدر خدمات پر حکومت پاکستان،جرمنی اور متعدد عالمی اداروں نے انہیں اعزازات سے نوازاجن میں نشان قائد اعظم،ہلال پاکستان،ہلال امتیاز، جرمنی کا آرڈر آف میرٹ اورمتعدد دیگر اعزازات شامل ہے۔آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ انہیں پاکستان کی مدر ٹریسا بھی کہا جاتاہے۔اس عظیم ڈاکٹر کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہونے والے ڈاکٹروں میں سے ایک ڈاکٹر بشارت حسین لیپروسی ٹیکنیشن نے ان کا نقش قدم چوما جس طرح آنجہانی ڈاکٹر رتھ فاؤ نے ترقی پزیر ایک ملک (پاکستان) میں مذکورہ مرض کی سِدباب کے لئے اپنی پوری حیات کو مصروف عمل رکھی اسی طرح گلگت بلتستان بلخصوص ضلع ہنزہ و نگر ٹی بی کنٹرول کیلئے انہوں نے اپنے آبائی اور ہمسایہ ضلع میں جذام اور تب دق کی روک تھام کے لئے اپنی بھرپور محنت کو جاری رکھتے ہوئے وہ آج فخر محسوس کرنے کے حق بجانب ہے کہ ہنزہ و نگر میں تب دق کی شکایات نہ ہونے کے برابر ہے۔انہوں نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کے ساتھ موجودہ گلگت بلتستان میں گھر گھر محلہ محلہ گھوم پھر کر ان دو امراض کی نشاندہی میں اہم کردار ادا کیا۔ایسے حاجت مندوں کو جو چھت سے محروم تھے ڈاکٹر روتھ فاؤ کی عالمی ادارہء صحت کے حکام سے مالی مدد حاصل کر کے گھروں کو تعمیر کروائے۔اگر ہم روتھ فاؤ کی نقش قدم پر چلنے والوں میں صفحۂ اوّل پر ڈاکٹر بشارت حسین کو شامل نہ کریں تو یہ میری (شاہدہ درویش)قلمی خیانت ہوگی۔
بل آخر پچاسی سال کے عمر میں یہ محسن انسانیت آج ہیکے روز 10۔اگست 2017کو خالق حقیقی سے جا ملی۔حکومت پاکستان نے بعد از مرگ مکمل سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ان کی آخری رسومات ادا کی گئی۔
ان کی آخری رسومات سینٹ پیٹرک کیتھیڈرل میں ادا کی گئی، اور ان کی آخری تین خواہشات تھی ان کی خواہش تھی کہ ان کی وینٹی لیٹر پر علاج نہ کیا جائے، جب کہ ایک خواہش یہ بھی تھی کہ جسد خاکی اسپتال لایا جائے اور آخری خواہش تھی کہ ان کی لال جوڑے میں تدفین کی جائے۔ آنجہانی کی آخری وصیت کے احترام میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کو سرخ لباس میں تابوت میں لٹایا گیا اور اسی لباس میں ان کی تدفین کی گئی۔
صفحۂ تاریخ پر وہ حرف روشن کی طرح
حشر تک زندہ رہے کی دل کی دھڑکن کی طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔