ہنزہ نیوز اردو

جج ویڈیو سکینڈل کا فیصلہ اور اہم سوالات۔۔۔؟

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

محمد شراف الدین فریادؔ
جمعہ کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ماتحت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو لیکس سے متعلق تین درخواست گزاروں کی طرف سے دائر کی گئی پٹیشن کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اس کیس کا متعلقہ فورم نہیں ہے کیونکہ اس ویڈیو کا تعلق اسلام آبادہائی کورٹ میں زیر التوا کیس سے ہے اور یہ مرحلہ ایسا نہیں ہے کہ عدالت عظمیٰ اس ویڈیو لیکس اور اس کے اثرات میں مداخلت کرلے۔ اٹارنی جنرل نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان جرائم اور بے قاعدگیوں کی مختلف فورمز میں تفتیش ہونی ہے جبکہ اف ای اےنے بھی ویڈیو سے متعلق تفتیش شروع کردی ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک نے اعتراف کرلیا ہے کہ ان کا ماضی مشکوک رہا جس کی وجہ سے وہ بلیک میل ہوتا رہا ہے۔ اس حوالے سےعدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایکشن لیتے ہوئے انہیں اہ اسے ڈیبنایا ہے اور توقع ہے کہ لاہور ہائی کورٹ ان کے خلاف کاروائی کرے گی۔ فیصلے میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری سے متعلق ایک ویڈیو ٹیب کا حوالہ بھی دیا گیا اور درخواست گزاروں کی طرف سے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعابھی مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا وہ ا س لیے کہ کوئی بھی عدالت کمیشن کی رائے تسلیم کرنے کا پابند نہیں ہے۔ جج ارشد ملک نے میاں محمد نواز شریف اور ان کے بیٹے سے ہونے والی ملاقاتوں کو تسلیم کرلیا ہے اور ان کے کردار سے ہزاروں ایماندار ججوں کے سر شرم سے جھک چکے ہیں۔قبل ازیں تین رکنی بنچ کی سماعت کے دوران بھی ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا تھا کہ میاں محمد نوازشریف کو دی گئی سزا کے خاتمے اور رہائی کے لیے مذکورہ ویڈیو فائدہ مند تب ہوگی جب کوئی درخواست دائر کی جائے گی۔ اس دوران بھی اُنہون نے کہا تھا کہ ارشد ملک کی وجہ سے ایماندار ججوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔کیا وفاقی حکومت نے جج ارشد ملک کو تحفظ دینے کے لیے اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔۔۔؟سیاسی تعلقات والے (ارشد ملک) کو پہلے جج لگایا گیا پھر اس کے بعد مقدمہ لیکر گئے۔ لگتا ہے کہ ویڈیو کے ساتھ کسی نے کھیل کھیلا ہے۔ دوران سماعت جب اف ای اےکے ذمہ دار آفیسر نے ویڈیو موجود نہ ہونے اور فرانزک رپورٹ ابھی تک تیار نہ ہونے کا کہا تو چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت ساری دنیاکے پاس ویڈیو موجود ہے اور اف ای اےکے پاس ویڈیو نہ ہونا تعجب کی بات ہے۔ اگر اصلی ویڈیو نہیں ہے تو اس کی کاپی کا فرانزک کرایا جاتا۔ جج ارشدملک کا ایک مشکوک ماضی رہا ہے جسے وہ خود تسلیم کرچکے ہیں۔ تحقیقات مکمل کرنے کے لیے تین ہفتوں کا وقت دیا گیا تھا۔ رپورٹ میں دو ویڈیوز کا معاملہ تھا۔ ایک ویڈیو وہ تھی جس کے ذریعے جج کو بلیک میل کیا گیا جبکہ دوسری ویڈیو وہ تھی جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا تھا کہ جج ارشد ملک کو ہر حال میں اپنے فیصلے کے بعد مذکورہ کیس کے کسی بھی ملزم سے نہیں ملنا چاہیے تھا اور نہ ہی ان کے گھر میں مہمان بننے کی ضرورت تھی۔ فرض کریں کہ مذکورہ کیس کے ملزمان کی طرف سے اگر انہیں (ارشد ملک) بلیک میل کیا بھیگیا تھا تو وہ اسےمتعلقہ حکام کے علم میں لاتے تاکہ اسی وقت انہیں عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا جاتا۔ ایسا کیوں نہیں کیا گیا جس سے سوالا ت جنم لیتے ہیں۔ بہرحال چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران جو ریمارکس دیے تھے انہی کے عین مطابق فیصلہ بھی آیا ہے۔اب عدالت کے حکم کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ ہی متعلقہ ویڈیوسے متعلق حتمی فیصلہ دینے کا مجاز ہے جہاں میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز کی اپیل زیر التوا ہے اور مذکورہ عدالت نے ہی عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے ایک روز قبل جج ارشد ملک کی 07 جولائی 2019؁ء کی پریس ریلیز اور 11 جولائی 2019؁ء کی بیان حلفی کو مس کنڈیکٹ قرار دیتے ہوئے انہیں عہدے سے معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔ فیصلہ تو آگیا مگر مذکورہ ویڈیو اصلی یا جعلی کا معاملہ اب تک لٹکا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے تو فیصلے میں کہا کہ اف ای اےاس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے لیکن تحقیقات کا عمل کب مکمل ہوگا اس کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ اب اسلام آباد ہائی کورٹ ہی اف ای اےکو ٹائم فریم دے گی۔ قارئین کرام! جب یہ ویڈیو سکینڈل سامنے آیا اور محترمہ مریم نواز صاحبہ نے مسلم لیگی قائدین کے ہمراہ پریس کانفرنس کی تو ایک دم حکومت کا یہ موقف سامنے آیا کہ یہ ویڈیوجعلی ہے جس کا حکومت فرانزک کرائے گی۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان بعد اذاں مکمل خاموش ہوگئی اور فرانزک سے متعلق سوالات کو بھی گول مول کرنے لگی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذکورہ ویڈیو جعلی نہیں ہے تب تو میاں شہباز شریف سمیت اہم لیگی لیڈر مریم صاحبہ کے ہمراہ بیٹھے تھے۔ اگر ویڈیو جعلی ہوتی تو حکومت ایسے اہم موقع کو کبھی ضائع ہونے نہ دیتی۔ رہی بات ویڈیو کی کاپی کی تو ماہرین نے یہ بھی بتایاہے کہ کیمرے کی کوئی بھی ویڈیو فلم ہو یا تصویر بذریعہ نیٹ یا کمپیوٹر ٹرانسفر ہونے سے ڈبلیکیٹ نہیں بنتی۔ البتہ اس کے مختلف کلپس جوڑنے سے جعلی ہوتی ہے جبکہ یہاں معاملہ ایسا نہیں ہے ویڈیو بنانے والا دستیاب نہ ہوتو اس کی کاپی بھی آسانی سے فرانزک ہوجاتی ہے اور لگتا ایسا ہے کہ حکومت نے اس کی خفیہ فرانزک کرائی ہے۔ اس لیے اس معاملے میں مکمل خاموش ہوچکی ہے۔ خیر ویڈیو میں مذکورہ جج نے اعتراف کرلیا ہے کہ ان کی اخلاق سے گری ہوئی ویڈیو دکھاکر بلیک میل کیا گیا اور وہ میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے پر مجبور ہوگئے اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب کے خلاف فیصلہ دینے کے بعد ان کے گھر جاکر ملاقات یا بیٹے سے ملنے کا کیا فائدہ تھا۔۔۔؟جن کی دنیا اُجڑ نی تھی وہ تو اُجڑ گئی ہاں البتہ یہ ممکن ہے کہ اپنی مجبوری اور بے بسی کے باعث غلطی کرنے کے بعد ضمیر مطمئن نہ ہونے پر معافی کے واسطے ملزمان سے ملا ہوگا۔ تاکہ ان کی آخرت بھی خراب نہ ہو۔ خیر جو بھی معاملہ ہے اسلام آباد ہائی کورٹ جب میاں صاحب کی اپیل کی سماعت کرے گی تو سامنے آئے گا اور ویڈیو کی اصلی ہونے کا فائدہ بادی النظر میاں محمد نواز شریف کو ہی مل سکتا ہے۔ یہاں چیف جسٹس صاحب نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ جج ارشد ملک اپنے ماضی کی وجہ سے بلیک میل ہوتا رہا ہے جس کے بعد کروڑوں پاکستانی عوام کے ذہنوں میں یہی سوال گھوم رہا ہے کہ ایک ویڈیو سکینڈل چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی بھی تو سامنے آچکی ہے جو ایک حکومتی مشیر کے نجی ٹی وی چینل سے نشر ہوئی تھی۔ جب جج ارشد ملک بلیک میل ہوسکتے ہیں تو کیاچیئرمین نیب بلیک میل نہیں ہوسکتے ہیں۔۔۔؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ چیئرمین نیب کی لیگ ہونے والی چھوٹی ویڈیو کے پیچھے کوئی بڑی ویڈیو بھی ہو مگر اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کی جاچکی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ویڈیو لیگ ہونے کے بعد چیئرمین نیب خود مستعفی ہوجاتے یا پھر انہیں کام سے روک دیا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا۔ ہماری عدلیہ کو اس کا بھی سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے تاکہ کوئی بے گناہ ظلم و جبر کا شکار نہ ہو۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ