[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/08/sharaf-uddin.jpg” ]محمد شراف الدین فریاد[/author]
گزشتہ روز گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اس وقت دلچسپ بنا جب اسمبلی ہذا کے رکن اورنگزیب ایڈوکیٹ نے گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی اور امن و عامہ کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو خراج تحسین سے متعلق قرار داد پیش کی اور کہا کہ یہ ایوان جناب محمد نواز شریف کے قانون و آئین کی پاسداری اور احترام سے کئے گئے اقدامات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ جس دلیری سے سابق وزیر اعظم نے ملک کو درپیش گھمبیر داخلی و خارجی چیلنجوں کا مقابلہ اور جس دور اندیشی کے ساتھ سیاسی نظام کو مفاہمت و یکجہتی اُصولوں کے ذریعے استحکام دیا اور اپنے چار سالہ دور حکومت میں ملک کے بڑے بڑے سیاسی مسائل، سلامتی کے سنگین خطرات اور معاشی دہشت گردی کے مسائل سے جس جوانمردی کے ساتھ نبردآزما رہے ان کامیابیوں کے لیے ان کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ بالخصوص گلگت بلتستا ن میں پائیدار امن کے قیام کیساتھ ساتھ ریکارڈ ترقیاتی منصوبوں کی منظوری پر ایوان میاں محمد نواز شریف کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔
جوں ہی اورنگزیب ایڈوکیٹ قرار داد پڑھ کر سناچکے تھے کہ پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی جاوید حسین کھڑے ہوگئے اور قرار داد کی مخالفت میں بولتے ہوئے کہا کہ جس شخص کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ کرپشن کے کیس میں نا اہلی کی سزا دے چکی ہے ان کے حق میں قرار دادیں لانا اور خراج تحسین پیش کرنا درست بات نہیں ہے ۔ اور یہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے کہ اس شخص کے لیے قانون و آئین کی پاسداری جیسے الفاظ کا چناؤ نہ کیا جائے ،ساتھ ہی تحریک اسلامی کے رکن اسمبلی محمد شفیع نے بھی قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی لیڈروں کی ہر بات پر خراج تحسین اور تشکر کی قرار دادیں لانا ہماری ذہنی غلامی کی عکاسی کرتا ہے ۔ اگر نواز شریف نے گلگت بلتستان کے لیے ترقیاتی پروجیکٹ دیدیا ہے تو یہ اس نے ہم پر کوئی احسان نہیں کیاہے یا ہمیں یہ خیرات میں نہیں دیا ہے اس قرار داد کی اپوزیشن کے تین اور ممبران نے بھی مخالفت کیں مگر جاوید حسین اور محمد شفیع کا مخالفانہ موقف اسمبلی میں زیر بحث رہا۔
ڈپٹی اسپیکر جعفراللہ خان نے جواباً کہا کہ ہماے قائد میاں محمد نواز شریف پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا ہے عدالت عظمیٰ نے انہیں اپنے ہی بیٹے سے 10 ہزار درہم وصول نہ کرنے پر سزا دی اور قائد محترم نے قانون �آئین کی پاسداری کے احترام میں خود کو وزیر اعظم کے عہدے سے الگ کردیا ۔ اُنہوں نے جاوید حسین کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص کی اپنی جماعت پیپلز پارٹی کرپشن سے بھری پڑی ہے اور خود یہ بھی تاریخ کا سب سے بڑا کرپٹ شخص ہے جن کی لوٹ مار کی اپنی ایک الگ داستان ہے ایسے شخص کو اینٹی کرپشن کے الفاظ زیب نہیں دیتے ۔صوبائی وزیر ڈاکٹر محمد اقبال نے کھڑے ہوکر کہا کہ میاں محمد نواز شریف کی دلیرانہ اور عوام دوست اقدامات کی مخالفت کرنے والوں سے میں پوچھتا ہوں کہ 2013 ء میں پاکستان کہاں پر کھڑا تھا اور آج 2017 ء میں پاکستان کی معاشی اور اقتصادی پوزیشن کیا ہے۔۔۔؟ اگر میاں محمد نوازشریف کی تعریف کرنا اور ان کے حق میں بولنا توہین عدالت ہے تو پھر زوالفقار علی بھٹوکو بھی قاتل قرار دیکر سزائے موت دی گئی تھی۔ انہیں شہید کیوں کہا جاتا ہے ۔۔۔؟ کیا یہ توہین عدالت نہیں ہے۔۔۔؟ پی پی پی والوں کو بھی تو کئی دفعہ اقتدار ملا ان لوگوں نے گلگت بلتستان کی ترقی اور امن و عامہ کے حوالے سے وہ اقدامات کیوں نہیں اُٹھائے جو قائد محترم میاں محمد نواز شریف نے اُٹھا یا ہے۔ کیا ہم بھول گئے کہ ایک زمانہ ایسا تھا کہ یہاں پر آگ و خون کا بازار گرم تھا اور ہم گلگت سے راولپنڈی کا سفر بھی نہیں کر پاتے تھے۔ اگران حالات کو ٹھیک کیا ہے ، بھائی کو بھائی سے ملادیا ہے اور گلگت بلتستان میں ترقی کا جال بچھایا ہے تو اس کا کریڈٹ قائد محترم میاں محمد نواز شریف کو ہی جاتا ہے برائے مہربانی ان کے احسانات کو فراموش نہ کیا جائے ۔ صوبائی وزیر ابراہیم ثنائی نے کہا کہ ہم قائد محترم میاں محمد نواز شریف کی احسانات کا بدلہ کبھی بھی نہیں چکا سکتے ہیں ۔ قائد محترم نے گلگت بلتستان کے عوام کے لیے جو دیا ہے وہ ہمارے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن کی کاوشوں اور قائدانہ صلاحیتوں کے باعث نصیب ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص میرے بندوں کے احسانات کا شکریہ ادا نہیں کرتا ہے تو گویا وہ میرا شکریہ ادا نہیں کرتا ہے ۔ رکن اسمبلی غلام حسین نے اس موقع پر مصر کے بادشاہ کی ایک مثال بھی دی اورکہا کہ پی پی پی والوں کے سابق دور حکومت میں یہاں پر ایک کلوٹ بھی نہیں بنا اور وہ آج نوازشریف کے ترقیاتی منصوبوں پر واویلا کررہے ہیں ، ترقی کا پہیہ جس تیزی سے چل رہا ہے تو یہ مسلم لیگ ” ن” کی حکومت اور میاں محمد نواز شریف کا مرہون منت ہے۔ اپوزیشن اراکین کیپٹن (ر) سکندر علی اور نواز خان ناجیؔ نے بھی قرار داد کی حمایت کی بلکہ کیپٹن (ر) سکندر علی نے یہاں تک کہا کہ میاں محمد نواز شریف سے ہمارے ہزار سیاسی اختلافات ہوں گے مگر ترقی اور امن و عامہ کے حوالے سے اُنہوں نے گلگت بلتستان میں جو اقدامات اُٹھائے ہیں وہ لائق تحسین ہیں میرے اپنے حلقے میں بھی ترقی کا عمل تیز ہوچکاہے۔10 ارب روپے کا 34 میگا واٹ ہائیڈرل پاور پراجیکٹ ہی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے اور کوئی بھی اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا ہے ۔ اپوزیشن لیڈر شاہ بیگ نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ میاں محمد نواز شریف وہ عظیم قومی لیڈر ہیں جنہوں نے ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کی سا لمیت کو مستحکم کیا گویا یہ کوئی آسان کام نہیں تھا ۔
بہر حال حکومت اور اپوزیشن اراکین اسمبلی کی دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت نے میاں محمد نواز شریف کے حق میں لائی گئی مذکورہ بالا قراردا د کی حمایت کیں اور قرار داد پاس ہوگئی جس کے بعد وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن نے کسی رکن اسمبلی کا نام لیے بغیر ایسے کھری کھری سنادی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پی پی پی کے رکن اسمبلی جاوید حسین کی حالت غیر ہوگئی بلکہ اس کی حالت ایسی ہوگئی جیسے زیادہ چربی کھانے پر بلی کی ہوتی ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جولوگ خود قانون کی دھجیاں اُڑانے کے ماہر ہوں وہ کسی کو قانون کا سبق کیسے پڑھا سکتے ہیں۔ جن کا دھندا ہی چوری کا ہو انہیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ کسی اور کو کرپٹ کہہ دیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ 18 کروڑ روپے نیشنل بنک کے لوٹنے والے اور سوست ڈرائی پورٹ کے 7 کروڑ روپے پر ڈاکہ ڈالنے والے ہمیں آئین و قانون کا درس دے رہے ہیں۔ میں آج بھی میاں محمد نواز شریف کو ملک کا وزیر اعظم مانتا ہوں جن کو سی پیک جیسے عظیم منصوبے شروع کرنے اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے پر ملک دشمن قوتوں نے دھرنا (۱) ، دھرنا (۲) جیسے سازشیں کیں ، پھر پانامہ کیس کی سازش سامنے آئی اور بات اقامہ پر ختم ہوگئی اور اپنے ہی بیٹے سے تنخواہ وصول نہ کرنے پر سزا ملی ۔ یہ کیا بات ہے کہ اس اقامہ کی کہانی کو کرپشن سے جوڑتے ہیں کرپشن تو وہ ہے جو کرپشن کرپشن کا رٹ لگانے والے ماضی میں اس کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ تنقید برائے اصلاح ہوتو ٹھیک ہے اسے ہم بھی اپنی اصلاح کے لیے درست سمجھیں گے ورنہ تنقید برائے تنقید یہ درست نہیں ہے ۔ بلاول علی زرداری نے جو اعلانات کئے ہیں جن میں شہید بھٹویونیورسٹی اور گلگت بلتستا ن والو ں کے لیے کراچی میں ایک ہزار کنال اراضی فراہم کرنے کے اعلانات شامل ہیں ۔ اگر وہ پورا کریں تو ہم ان کابھی شکریہ ادا کریں گے۔ میاں محمد نواز شریف نے گلگت بلتستان کے عوام کے لیے جوتاریخی منصوبے دیے ہیں ان کے اعتراف میں تنگ نظری کم تر ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔
قارئین کرام ! یہاں حکومت اور اپوزیشن اراکین کی طرف سے دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ ممبران کا میاں محمد نواز شریف کے حق میں قرار داد پاس ہوناکوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ اس حقیقت کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا ہے کہ جگلوٹ تا اسکردو 31 ارب روپے لاگت کا جو کشادہ روڈ تعمیر ہورہا ہے یہ میاں محمد نواز شریف کا منصوبہ ہے اس کے علاوہ شغر تھنگ میں 4 ارب 84 کروڑ37 لاکھ روپے لاگت کا ، 26 میگا واٹ پاور پراجیکٹ ، 2 ارب 90 کروڑکا 16 میگا واٹ نلتر پاورپراجیکٹ ، ایک ارب 32کروڑکا تھک چلاس پاور پراجیکٹ ، ایک ارب 58کروڑروپے کا حسن آباد ہنزہ پاور پراجیکٹ ، گلگت ہنزل کے مقام پر 6 ارب 24 کروڈ84 لاکھ روپے کا پاور پراجیکٹ ، ہرپوسکردو میں 34.5 میگا واٹ کا 9 ارب 52 کروڑ2 لاکھ روپے کا پاور پراجیکٹ ، کنوداس گلگت سے نلتر بالا تک 2 ارب 71 کروڑ 60 لاکھ روپے لاگت کا روڈکا منصوبہ ، گلگت میں میڈیکل کالج کے لیے2 ارب 70 کروڑکا منصوبہ ، عطا آباد جھیل میں سیاحتی مرکز کے لیے42 کروڑ 30 لاکھ روپے کا منصوبہ ، گلگت میں امراضی قلب کے لیے ایک ارب 51 کروڑ روپے کے ہسپتال کا منصوبہ ، ریجنل گرڈ اسٹیشن کے 25 ارب روپے سمیت 22 ارب روپے لاگت سے گلگت تا چترال روڑ کی تعمیر کی منظوری کا منصوبہ سمیت دیگر منصوبوں کی منظوری سابق وزیر میاں محمد نواز شریف نے ہی دی ہے ۔ اگر ان ترقیاتی منصوبوں کا موازنہ پاکستان کی 70 سالہ دور میں دیگر تمام حکمرانوں سے کیا جائے تو بھی تقریباً80% اضافہ دکھائی دیتا ہے۔جو کہ ایک ریکارڈ ہے اگر اس مہربانی پر ہمارے اراکین اسمبلی میاں محمد نواز شریف کو خراج تحسین پیش کرنے سے متعلق کوئی قرار داد لاتے ہیں تو اس میں کیا حر ج ہے کسی کی مہربانی پر ان کا شکریہ ادا کرنا کوئی غلامی ذہنیت نہیں ہوتی ۔مذکورہ اجلاس سے ایک روز پہلے کے اجلاس میں بھی جاوید حسین اور محمد شفیع نے ڈپٹی اسپیکر جعفراللہ خان صاحب کی طرف سے پیش کی گئی اظہار تشکر کی اس قرار داد کی بھی مخالفت کی جس میں اُنہوں نے گلگت میں خواتین کے لیے الگ یونیورسٹی کے قیام کی منظوری پر صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین کا شکریہ ادا کیا تھا ۔ اس قرار داد کی مخالفت کرنے سے پہلے جاوید حسین اور محمد شفیع کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ ہمارے علاقے میں علاقائی روایات اور اسلامی اقدار کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے تقریبا 90% خواتین مخلوط نظام تعلیم کے ماحول میں لڑکوں کے ساتھ اکھٹے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہوتی ہیں ۔ اور وہ اعلیٰ تعلیم سے محروم ہوتی ہیں ۔ خواتین کی الگ یونیورسٹی کے قیام سے ہماری ان 90% بہنوں کو بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر ہوں گے ۔ آخر اس کی بھی مخالفت۔۔۔۔۔؟
عوام قومی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی مخالفت پر کی جانے والی سیاست کو ہر گز پسند نہیں کریں گے ۔ ایسے اراکین اسمبلی کو ہم یہی مشورہ دے سکتے ہیں کہ وہ تنقید برائے تنقید کی سیاست نہ کرے یہ درست نہیں ہے ۔ اگر ہمارا کوئی قومی لیڈر کوئی اچھا اقدام اُٹھا لیتا ہے تو ہم اس کی حوصلہ افزائی کے لیے شکریہ اور خراج تحسین کے دو بول تو بول سکتے ہیں ۔ تنقید برائے تنقید کے بجائے تنقید برائے اصلاح کی سیاست ہوتواس سے ہمارے علاقے کی تعمیر و ترقی اور امن و عامہ میں مذید بہتری لائی جاسکتی ہے۔