لفظ تقوی وسیع مفہوم رکھتا ہے. ہمارے ہیں کچھ موٹے موٹے اعمال کرنے والوں کو متقی گردانا جاتا جبکہ انتہائی متقی ٹائپ لوگ بھی معاشرتی تقوی دار کا ٹائٹل سے محروم کیے جاتے.رمضان المبارک میں تفسیری مطالعہ اور فہم قرآن کا سلسلہ جاری ہے. تفیسر معارف القرآن
میں شیخ ادریس کاندھلوی نے تقوی پر جو بحث کی ہے اس کا مختصر مفہوم عرض کیے دیتا ہوں تاکہ تقوی کا خود ساختہ تصور سے اہل فہم کی جان چُھٹے.
تقوی کا پہلا مرتبہ یہی ہے کہ کفر سے تائب ہوکر اسلام اختیار کرنا اور عذاب دائمی کی مضرت سے خود کو بچانا.والزمہم کلمۃ التقوی سے یہی مراد ہے.آج کے دور میں یہ بھی غنیمت ہے. اربوں انسان اس سے بھی محروم ہیں. اللہ ان کو نعمت اسلام سے نوازے.
دوسرا درجہ یہ ہے کہ نفس کو ارتکاب کبائر اور اصرار علی الصغائر سے محفوظ رکھنا یعنی خود کو گناہ کبیرہ سے بچانا اور صغیرہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنا یعنی ان صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرنا.”ولوا ان اھل القرائ آمنوا واتقوا” سے یہی مراد ہے. اہل شریعت تقوی سے یہی مراد لیتے ہیں. حضرت عمر نے حضرت ابی بن کعب سے تقوی کی حقیقت دریافت کی تھی تو انہوں نے یہی فرمایا تھاکہ اللہ تعالی کی معصیت اور نافرمانی سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کرنا تقوی کہلاتا ہے. دامن بچا بچا کر چلنا. “ان اکرمکم عنداللہ اتقکم” سے یہی مقصود و مطلوب ہے.ہمیں تقوی کا یہی درجہ مل گیا تو نور علی نور ہوگا. اللہ اس کی توفیق دے.
تقوی کا اخری درجہ یہ ہے کہ مقتضائے شریعت مقتضائے طبیعت بن جائے اور قلب کو ہر اس چیز سے محفوظ کرنا جو اللہ تعالی سے غافل کرتی ہو، “اتقوا اللہ حق تقاتہ” سے یہی مراد ہے. آخری درجہ انتہائی اہم اور مشکل ہے. ایمان کا اعلی ترین درجہ ہے جو ہم جیسے کمزور لوگوں کے لیے ممکن نہیں.یہ انتہائی مستحسن درجہ ہے لیکن ہم جیسوں سے اللہ اس کا تقاضہ بھی نہیں کرتا.
جو لوگ اسلام میں نہیں، کفریہ عقائد رکھتے ہیں ان کے لیے یہی تقوی کے کہ وہ صدق دل سے اسلام قبول کریں اور جو لوگ پہلے سے مسلمان ہیں ان کو کبائر سے بچنا چاہیے جیسے
قتل کرنا
ظلم و جبر کرنا
غصب کرنا
حق دار کا حق کھانا
حقوق العباد سے غافل رہنا
کرپشن کرنا
والدین کی نافرمانی کرنا
جھوٹ بولنا
مصنوعی کساد بازاری پیدا کرنا
بیوی اور اولاد کے حقوق سے غافل ہونا
غرض کبیرہ گناہوں کی بڑی فہرست ہے ان سب سے بچنا اور صغیرہ گناہ ہوجانے پر افسوس کرنا اور ان پر مداومت اختیار نہ کرنا ہی تقوی کا دوسرا درجہ ہے.
اور ان دونوں (کبائر اور صغائر) پر اللہ سے معافی مانگنا اور مخلوق خدا سے ازالہ کرنا ہی تقوی کہلایا گا.. شریعت اسلام کا بھی ہم سے یہی تقاضہ ہے.. حقوق العباد کا بیڑہ غرق کرنے والے بڑے بڑے عبادت گزار بھی نہیں بخشے جائیں گے.. لہذا وہی تقوی معیار ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کیا ہے. وہ ہر گز مقصود نہیں جو ہمارے معاشرے میں رواج پا چکا ہے. اللہ ہم سب کو ان خودساختہ متقیان امت سے بچائے جو تقوی کی آڑ میں دوسروں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں اور سیدھا دوزخ پہنچا دیتے ہیں. اور اس تقوی کی توفیق دے جو حقیقی معنوں میں تقوی ہے.