[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/08/sharaf-uddin.jpg” ]محمد شراف الدین فریاد[/author]
گزشتہ ایام مقامی اخبار ات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ گلگت بلتستان قانون سازاسمبلی میں قائد حزب اختلاف حاجی شاہ بیگ نے اپنے اپوزیشن اراکین سے مشاورت کے بعد موجود ہ ایم ڈی نیٹکو کو تبدیل کرنے اور نئے ایم ڈی کے لیے دلفراز خان نامی شخص کی تعیناتی کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت کو سفارشات بھیج دی ہیں ۔پھر اگلے روز ہی اخبارات میں اپوزیشن لیڈر حاجی شاہ بیگ صاحب کا یہ وضاحتی بیان سامنے آیا کہ اس حوالے سے اُنہوں نے کوئی اخباری بیان جاری نہیں کیا ہے ۔ اُنہوں نے ایم ڈی نیٹکو کی تبدیلی ، نئی تعیناتی اور نامزدگی کے حوالے سے کسی بھی قسم کی مشاورت سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لیٹر پیڈ کے غلط استعمال اور جعلی دستخط کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اُنہوں نے دلفراز خان کو ایم ڈی نیٹکو بنانے کے لیے حکومتی اور اپوزیشن ممبران سے مشاورت پر مبنی قرار داد کو ان کے لیٹر پیڈ پر لکھ کر جاری کرنے کی اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ان سے منسوب قرار داد کی تردید بھی کیں ۔ اسی روز کے اخبار میں ہی گلگت بلتستان کے سینئر صحافی ایمان شاہ صاحب کا ایک مضمون پڑھنے کو ملا جس میں اُنہوں نے اس خبر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دلفراز خان نامی شخص اپوزیشن لیڈر حاجی شاہ بیگ کے ترجمان کے طور پر کام کرتے رہے ہیں جن کی خبریں مقامی اخبارات میں تواتر کے ساتھ صفحہ اول پر شائع ہوتی رہیں اور اخبارات اپوزیشن لیڈر کے حوالے سے اس لیے نمایاں مقام دیتے رہے کہ ان کی نامزدگی اپوزیشن لیڈر نے کی تھی ۔ چند ماہ بعد دلفراز خان کو متحدہ اپوزیشن کا ترجمان بھی بنایا گیا تھا اور تمام اپوزیشن ممبران کی تائید سے ہی وہ متحدہ اپوزیشن کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ اپوزیشن لیڈر کے ترجمان سے لیکر متحدہ اپوزیشن کے ترجمان کے طور پر ان کی کارکردگی اچھی رہی یا بری وہ اس حوالے سے کوئی رائے نہیں دے سکتے البتہ اس تمام عرصے میں کسی ایک بھی اپوزیشن رکن کی جانب سے مذکورہ شخص کی ترجمانی کو چیلنج نہیں کیا گیا ۔ گزشتہ بدھ کی شام دلفراز خان ان کے دفتر میں آگئے اور کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے دیگر اپوزیشن ممبران سے مشاورت کے بعد مجھے (دلفراز خان) کو ایم ڈی نیٹکو کے عہدے کے لیے نامزد کرلیا ہے ۔ ثبوت کے طور پر اُنہوں نے ہاتھ سے لکھا گیا قرار داد نما خط دکھایا ۔ میں نے خط کی کاپی اپنے پاس رکھ لی اور متحدہ اپوزیشن کے ترجمان کی جانب سے ماضی میں دی گئی خبروں میں سے ایک خبر کے طور پر اپنے اخبار کے صفحہ اول میں جگہ دی اور جمعرات کے روز حاجی شاہ بیگ صاحب نے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور اس خبر کی تردید کرتے ہوئے سخت برہمی کا اظہا ر بھی کیا ۔
قارئین کرام ! یہ تھے سینئر صحانی ایمان شاہ کے الفاظ جن پر سب کو حیرت ہوئی ہوگی۔۔۔؟ اور اب میں یہ بتاتا ہوں کہ یہ دلفراز نامی شخص کون ہے ۔۔۔؟ اور یہ سن کر آپ کو حیرت نہیں بلکہ ہنسی آئے گی کہ میں اور میرے ایک ساتھی سینئر صحافی اسرار الدین اسرار ؔ بھی مذکورہ شخص کے دھوکہ دہی کا نشانہ بن چکے ہیں اور ہمیں آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ہمارے ساتھ اتنا بڑا فراڈ کرنے کا مقصدکیا تھا۔۔۔؟ یہ 2014 ء کے ان دنوں کی بات ہے کہ ابھی ابھی گلگت بلتستان میں نگراں حکومت کا سیٹ اپ بن رہا تھا نگراں وزیر اعلیٰ شیر جہان میر صاحب اپنے عہدے کا حلف اُٹھا چکے تھے اور آگے نگراں کابینہ کا چناؤ عمل میں آنا ابھی باقی تھا مقامی اخبارات میں متوقع نگراں وزیر اطلاعات کے طور پر موصوف کا نام بھی آرہا تھا اور میرے ساتھی سینئر صحافی اسرار الدین اسرار ؔ بھی نگراں کابینہ میں شمولیت کی دوڑ میں شامل تھے ۔ انہی دنوں میں یہی دلفراز خان نامی شخص موصوف کے پاس آگیا میں( دلفراز خان) ایک اخبار لارہا ہوں جس کے لیے آپ اور اسرار صاحب کی خدمات درکار ہیں ۔ میں نے کہا کہ اخبار لانا آسان بات نہیں ہے اس کے لیے کروڑوں روپے درکار ہوتے ہیں وہ کیسے پوری کروگے۔۔؟آگے سے جواب ملا اس کے لیے آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہم نے اس کا بندوبست کرلیاہے ۔ پھر اس نے ایک معروف مقامی عالم دین (جس کا نام لینا میں مناسب نہیں سمجھتا) کا نام بھی لیا کہ اس عمل میں وہ بھی میرا پارٹنر ہے ۔ بعدازاں اُنہوں نے اس عالم دین سے میری ملاقات بھی کرادی ۔ مولانا صاحب نے بھی کہا کہ دلفراز خان جو کہتا ہے اس پر یقین رکھو اور بسم اللہ کرکے کام شروع کرو ۔ میں نے عالم دین صاحب کی باتوں پر یقین کرتے ہوئے کام کرنے کی حامی بھرلی ۔ پھر اس کے بعد مجھے ایک اخبار کا سودا کرنے کا تارگٹ دیا گیا میں نے وہ تارگٹ بھی پورا کیا اور اخبار کا 50 لاکھ روپے پر سودا طے کرایا ۔ اخبار مالک کو تین ماہ بعد 50 لاکھ روپے دینے کا سودا کیا گیا تھا جس کے بعد میں نے اسرار الدین اسرارؔ صاحب سے بھی بات کرکے مذکورہ ٹیم کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار کرایا ۔ موصوف کو مذکورہ اخبار کا ایڈیٹر جبکہ اسرار الدین صاحب مینجنگ ایڈیٹر بنایا گیا ۔ کشروٹ میں پی ایم ایل (ن) سکریٹریٹ کے سامنے مذکورہ اخبار کا دفتر قائم کیا گیا اور اخبار کی تمام ٹیکنیکل اسٹاف سے لیکر رپورٹنگ ٹیم تک ترتیب دیکر حافظ حفیظ الرحمٰن صاحب (موجودہ وزیر اعلیٰ) سے دفتر کا افتتاح کرایا گیا ۔ جب تمام عمل مکمل ہوگیا تو اخبار پرنٹنگ کا مرحلہ آگیا ۔ پہلے اور دوسرے روز ایک مقامی پرنٹنگ پریس میں اخبار پرنٹ ہوا تیسرے روز پرنٹنگ پریس کا مینجر دفتر آگیا اور کہا کہ دو دنوں کی پے منٹ کرو تو تیسرا شمارہ پرنٹ کرتے ہیں ورنہ نہیں کیونکہ ہم نے آگے بھی حساب دینا ہے دو دنوں کے صرف 4 ہزار بنتے تھے وہ دینے کے لیے مذکورہ اخبار کے مالک دلفرازخان کے پاس پیسے نہیں تھے بہرحال موصوف نے اسے اتفاقی مسلہ قرار دیکر خود اپنے جیب سے ادائیگی کردی اور تیسرا شمارہ بھی آگیا جب چوتھے شمارے کی باری آگئی تو وہ مینجر پھر دفتر حاضر ہوا اس وقت دلفراز خان دفتر میں موجود نہیں تھا، فون کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ مذکورہ عالم دین کے ہمراہ نگراں وزیر اعلیٰ سے ملنے گئے ہیں ۔ بہرحال اس دن مینجر کو ادائیگی نہیں ہوسکی اور اس نے چوتھا شمارہ پرنٹ نہیں کیا ۔ صبح دیکھا تو مارکیٹ میں چوتھا شمارہ آچکا تھا معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ شمارہ اُنہوں نے کسی اور پرنٹنگ پریس میں بطور اُدھار پرنٹ کرایا ہے ۔ یہ تمام منظر دیکھ کر موصوف نے دلفراز خان کو خیر باد کہہ دیا اور کہا کہ جب جیب میں پیسے ہی نہیں تو ہمیں عذاب میں کیوں ڈالتے ہو ۔۔۔؟میں نے مذکورہ اخبار سے اپنا نام بھی ہٹوایا اور اللہ حافظ کہہ دیا میرے ساتھ اسرارر بھائی بھی رخصت ہوگئے ۔ ہمارے جانے کے بعد اخبار کا پانچواں شمارہ پتہ نہیں کیسے پرنٹ کروایا جس کی سپر لیڈ خبر حافظ حفیظ الرحمٰن کے خلاف شائع کی گئی تھی اور حلقہ نمبر ۲ میں ان کی پوزیشن کمزور دکھا کر جعلی سروے کی گئی تھی ۔ اس خبر کو شائع کرنے کے بعد ایک مقامی رپورٹر جو نہ صرف حافظ حفیظ الرحمٰن کا نہ صرف مخالف تھا بلکہ موصوف اور اسرار الدین اسرار ؔ کے صحافتی سرگرمیوں کا بھی سخت خلاف تھا نے اسلام آباد میں موجود حافظ حفیظ الرحمٰن کو فون کرکے مذکورہ خبر کے بارے میں کہا جس کے بعد حفیظ صاحب نے فون پر مجھ سے سخت ناراضگی کا اظہار بھی کیا حالانکہ مذکورہ جعلی سروے کے موقع پر میں اور اسرار بھائی دونوں مذکورہ فراڈی شخص کے دفتر کو خیر باد کہہ چکے تھے ۔ بہرحال ہم دونوں نے اس اخبار کی اشاعت کو اپنے ہی خلاف ایک سازش سمجھا ۔ خیر اخبار کا چھٹا شمارہ بھی شائع ہوا اور ساتواں شمارہ شائع ہونے کی باری نہیں آسکی ۔ دو تین ہفتوں کے بعد معلوم ہوا کہ مذکورہ دلفراز نامی شخص نے دفتر کے لیے تمام کمپیوٹرز اور فرنیچر ز وغیرہ بھی اُدھار پر لائے تھے پیسے نہیں دے سکے تو مالکان نے اپنا اپنا سامان اُٹھا لیا 3 ماہ بعد مذکورہ اخبار کا مالک میرے پاس آگیا اور کہا کہ مجھے تین ماہ بعد 50 لاکھ روپے ادائیگی کا جو چیک دیا گیا ہے یہ جعلی ہے اور ان کے اکاونٹ میں صرف 140 روپے ہیں میں نے کہا معذرت بھائی ہماری وجہ سے آپ نے اتنا بڑا سودا کیا میں تو اس فراڈی کواخبار کے اشاعت ہونے کے چار رو ز بعد ہی چھوڑ چکا ہوں اور اب آپ خود اسے بات کریں بلکہ اس عالم دین سے ملیں جنہوں نے رقم کی ادائیگی کی ذمہ داری لی تھی ۔ بعد ازاں اس اخبار کے مالک نے ایک جرگہ میں بٹھا دی جرگہ کے معززین کے کہنے پر دلفراز خان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کی اور اپنا اخبار اُٹھالیا ۔
قارئین کرام ! آپ یقین کرلیں کہ آج تک ہم یہ جج نہیں کرسکے کہ اس عجیب و غریب شخص دلفراز خان کا اصل مقصدکیا تھا ۔۔۔؟اگر دلفراز خان کو نیم پاگل قرار دیا جائے تو اس عالم دین کو کیا کہیں جو خود کو بھی مذکورہ اخبار کا مالک قرار دیکر ہمیں اس کے ٹیم کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کیا تھا ۔۔۔؟ آج تین سال بعد اس شخص کا ایک اور فراڈ سامنے آگیا ہے۔اگر کسی جعلی سروے رپورٹ کے زریعے کسی مضبوط شخصیت کی پوزیشن تبدیلی نہیں ہوسکی تو یہ بھی ممکن نہیں کہ کسی کے جعلی دستخطوں اور جعلی قرار داد کے زریعے ایم ڈی نیٹکو تو کیا محکمہ نیٹکو میں گریڈون کی ملازمت بھی نہیں مل سکتی ہے ۔ جیب میں 50 روپے بھی نہ ہوں اور خرید و فروخت کی باتیں 50 لاکھ تک کی جائے تو ایسی حرکات کا اصل مقصد کیا ہوگا ۔۔۔؟اور ان تمام مقاصد کے آگے نہ جانے کون لوگ ہوتے ہیں ۔۔۔؟ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں ہماری چند خدشات ضرور ہوں گے مگر ہمیں آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان کے مقاصد کیا تھے اور ان کے عزائم کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔