گل نواز
” جو قوم محض کسی شخصیت کے بَل پر اُٹھتی ھے وہ اُس شخصیت کے ہٹتے ہی گِر بھی جاتی ہے ۔ اس کے قیام کو دوام اور اس کے اِرتقاء کو اِستمرار اگر کوئی چیز بخش سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اُس شخصیت کے سہارے اُٹھنے کے بعد وہ قوم کوئی ایسا نصب العین پا لے جس کی کشش ہمیشہ اُسے کھینچتی رہے، کوئی ایسا مقصدِ زندگی پا لے جس کے عشق میں وہ پیہم سرگرمِ عمل رہے اور کچھ ایسے اصول پا لے جن کی بنیاد پر وہ اپنی حیاتِ قومی کی عمارت مستحکم کر سکے ۔
شخصیتیں بہرحال فانی ہوتی ہیں ۔ اُن کے بَل پر قوم اُٹھ تو سکتی ہے مگر قائم نہیں رہ سکتی ۔ قائم رہنے کے لیے اسے ان چیزوں کی ضرورت ہے جن کی عُمر اشخاص و افراد کی عُمر سے زیادہ ہو ۔ جو مردانِ کار کی موت کے ساتھ مر نہ جائیں، بلکہ نسل در نسل اُن سے گرمی ، حرکت اور طاقت پاتی چلی جائے ۔ “
جیساکہ نام سے معلوم ہوتا ہیکہ تنظیم افراد کے کسی مشن پہ منظم ہونے کا نام ہے۔
تنظیمیں تین قسم کی ہوتی ہیں
مفاداتی تنظیم
جبری تنظیم
رضاکارانہ تنظیم
تانگیر قومی اتحاد ایک رضاکارانہ تنظیم تھی اسے اب رضاکارانہ تنظیم سے مفاداتی تنظیم بنایا گیا ہے اگر اس تنظیم کے قیام کا مقصد اقامتِ دین کی جدوجہد اور خدمتِ خلق تھا تو میں بغیر کسی کج فہمی کے بلاچوں بلاچوں و چرا یہ کہہ سکتا ہوں کہ بدلتے وقت کی پیروی کرتے ہوئے اب یہ تنظیم ان مقاصد سے قطعاً اتفاق نہیں کرتی۔
ایک رضاکارانہ تنظیم سے مفاداتی تنظیم کے سفر میں کیا کیا اہم تبدیلیاں لائی گئیں وہ درج ذیل ہیں۔
تانگیر قومی اتحاد کے کلیدی عہدوں پہ برائے نام چناؤ کے ذریعے اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر لوگوں کو لایا گیا۔اور عہدیداران اس تنظیم کو اپنی زاتی وراثت اور ترکہ سمجھنے لگے۔
یہ الگ بات ہیکہ جو لوگ واقعی مخلص اور فہم و فراست کے مالک تھے انہوں نے بغیر کسی لالچ کے دن رات اسے دوام بخشنے کی کوشش کی مگر آہستہ آہستہ اندرونی بدنظمی کی بدولت انکا دل بھر گیا اور وہ کنارہ کنارہ کش ہوتے گئے۔
جیسا کہ مفاداتی تنظیم میں ترقی کا ایک بنیادی اصول ہوتا ہیکہ کہ اپنے بوس کو کبھی غلط مت کہو بلکہ اسے ہمیشہ درست سمجھو، اسی اصول کو بنیاد بنا کر تنظیم کےچئیرمین کے لیے امامتِ معصومہ کا پُرفریب تصور گھڑا گیا اور یہ اچھوتا تصور متعارف کروایا گیا کہ چئیرمین کا محاسبہ نہیں ہو سکتا۔ ایسے جابرانہ تصورات نے جبری تنظیم والی خصوصیات بھی تنظیم میں شامل کر دیں کہ جہاں ایک کارکن یا عہدیدار کے پاس اپنا کوئی ارادہ یا مرضی نہیں رہتی۔ کم علم اور کم فہم لوگوں کی آراء کو سمجھ بوجھ رکھنے والوں کی آراء کی نسبت مقدم سمجھا جانے لگا۔
جن لوگوں کے معاشرتی اور سماجی سٹینڈر پر سوالیہ نشان تھے اُن لوگوں کو دانستہ طور پر عہدے اور ذمہ داریاں دی گئیں۔ وجہ یہ ہے کہ جو خود صحیح اور غلط میں تمیز نہیں کرسکے گا وہ امیر پر یا اپنے اوپر ذمہ داران کی غلطی پر آواز نہیں اٹھا سکے گا۔
اُس تنظیم کا مستقبل کیا ہو گا جس کی باگ ڈور اُن لوگوں کی اکثریت کے ہاتھ میں آچکی ہو جنہیں اصولی طور پر تنظیم سے باہر ہونا چاہئیے تھا۔ یقیناً چند گنے چنے نیک سیرت لوگ بھی ذمہ داریوں پر فائز ہیں لیکن وہ ان ذمہ داریوں پر اس لیے فائز ہیں کہ عہدیداران کو ان سادہ لوح افراد سے کوئی چیلنج یا خطرہ لاحق نہیں۔
ذیلی ذمہ داران اور کارکنان میں باقاعدہ یہ تصور اتارا گیا کہ آپ اپنے اوپر بیٹھے ذمہ داران پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کریں کہ وہ جو بھی کر رہے ہیں درست ہی کر رہے ہوں گے۔
تنظیم کے مالی معاملات میں استفسار پہ پابندی لگائی گئی اور فنڈنگ کے بارے میں سوال کرنے والے کے ارادوں کو شکوک و شبہات کی نظر سے سےدیکھا جانے لگا
چئیرمین کے ذاتی وفادار اُس کے غیر مشروط دفاع میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اپنے بوس یا تنظیم سے وفاداری جو اُس سے حاصل کیے گئے کسی مفاد کی وجہ سے ہو اُسے آرگنائزیشنل سائیکالوجی میں نارمیٹِو کمٹمنٹ کہتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ تانگیر قومی اتحاد اب ایک رضاکارانہ تنظیم سے مفاداتی تنظیم بن چکی ہے۔ ایک ایسی تنظیم کہ جس کے پیشِ نظر ایک خاص شخص کے مفادات کا تحفظ ہے۔ جو شخص بھی ان مفادات کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بنے اُسے دو سطحوں پر ہینڈل کیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے اسے منت سماجت کے ذریعے مناکر اپنے دام میں قید کیا جاتا ہے یا پھر اسے سائیڈ لائن پہ رکھ کر اس کی کردار کشی میں صفِ اول کا کردار ادا کیا جاتا ہے۔ اسے سلام کلام تک ترک کی جاتی ہے اور اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جیساکہ وہ غیرمسلم ہو۔
تعصب کے خاتمے کا نام نہاد نعرہ لگاکر تعصب کی باقاعدہ طور پر درسگاہیں بنائی گئیں ہیں۔ عوام کے سامنے میٹھے میٹھے نعرے لگاکر اندرونی طور پر شخصیت پرستی،عصبیت پرستی اور تفرقہ بازی پہ تمام تر توانائیاں صرف کی جاتی ہیں۔
ایک وقت تھا جب چند ذمہ داران تھے جنہوں نے رات کو رات اور دن کو دن کہے بغیر اس تنظیم کی شہرت کو چارچاند لگادیا تھا جنکی بدولت یہ تنظیم کراچی تا گلگت ہر تنظیم کیلئے ایک مثالی نمونہ تھی۔
مگر ایک زمانہ آیا کہ لوگ تسمہِ پاء کی طرح عہدوں پہ چڑھنے کیلئے ہر جائز و ناجائز حربے استعمال کرنے لگے تو بعید نہیں کہ تنظیم کا بٹوارہ ہونے کو ہے۔
اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے ذمہ داران اور سینئیر ساتھی اگر چاہیں تو وقت ایک دفعہ پھر کروٹ لے سکتا ہے مگر لوگوں کی ذہنیت سے اندازہ ہوتا ہیکہ اس تنظیم کا مستقبل تاریک ہی ہے۔
دعاگو ہوں کہ یہ لوگوں کے فلاح کا ذریعہ بن جائے اس سے پہلے کہ لوگ اسے بنیاد بناکر آپس میں دست و گریباں ہوجائیں۔ تنظیم اور جماعتیں اعلیٰ نصب العین کیلئے ہی قائم ہوتی ہیں. لیکن بعد میں آنے والے حواری اُس بلند نصب العین اور نظریہ کو چھوڑ کر کسی ایک ہی شخص کی ذات کو ہی نصب العین بنا لیتے ہیں.