ہنزہ نیوز اردو

بے پر پرندے

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/07/image311.jpg” ]سخی اکبر(ر)ریڈیو پاکستان[/author]

محترم قارئین، ہم گلگت بلتستان کے باشندے بالکل بے پر پرندوں کی طرح ہیں۔راقم نے گلگت بلتستان کے باسیوں کے بے پر ہونے کے بارے مین چند قدرتی، بین الاقوامی، غیر ملکی، ملکی اور خود ارض شمال میں رہنے والوں کی کوتاہیوں اور کمزوریوں سے پردہ اتھانے کی حقیر سی سعی کی ہے۔
زمانے کے تغیرات اور انقلابات سے واسطہ پڑے تو انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔بندہ عرصہ پچیس سال تک پنڈی اور اسلام آباد میں رہا ہے۔اس دوران1962 ؁ء میں ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن سے لے کر اب تک جتنی بھی غیر معمولی تبدیلیاں پاکستان میں رونما ہوئی ہیں۔سب کو قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے۔میرا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں ہے البتہ ہمدردیاں سو فیصد اس پارٹی کے ساتھ ہیں جو ملک و قوم کے مفاد میں کام کرے۔تیر نشانے پر ضرور لگتا ہے ۔ اگر میرے کالم میں تیر کسی کی کوتاہی پر لگے تو مجھے اپنا مخالف بالکل نہ سمجھے بلکہ اپنی اصلاح کرنے کی کوشش ضرور کرے۔معزز قارئین، بے پر پرندوں سے مراد ہے بے اختیار قوم۔جس قوم کے پاس عطا کردہ چند محدود اختیارات ہوں قومی معاملات میں حصہ دار نہ ہوں، اس قوم کی حیثیت بے پر پرندوں جیسی ہوتی ہے۔اگر ہم ان عوامل پر نظر ڈالیں جن کی وجہ سے ارض شمال کے باسی بے پر پرندوں کی مانند ہیں تو حقیقت آشکار ہوتی ہے۔قارئین کرام، سب سے پہلے ہمیں بے پر بنانے میں قدرتی عوامل کا بڑا عمل دخل ہے جس کی بنا پر ہم کبھی بھی پاکستان کے دوسرے صوبوں کے باسیوں کے ہم پلہ نہیں ہوسکتے۔اس ضمن میں چند قدرتی ھالات کا ذکر کرتا چلوں۔گلگت بلتستان کے موسمی حالات کو اگر دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ سرد موسم کی شدت کی وجہ سے بیشتر علاقوں یا اضلاع میں سات ماہ تک کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔ہم سال میں صرف پانچ مہینے کماتے ہیں اور سات مہینے بیٹھ کر کھاتے ہیں۔اندازہ کریں کمانے کے پانچ ماہ اور کھانے کے سات ماہ۔یہ فرق کیسے برابر ہو سکے گا۔ممکن ہی نہیں۔
دوسری بات، قدرتی طور پر ارض شمال ک موسمی حالات کی وجہ سے زرعی اجناس میں وہ اشیاء پیدا نہیں ہوتیں ہیں جن سے کارخانے چلیں اور ہماری افرادی قوت کھپ سکے۔مثلاََ گنا، کپاس اور خام مال جس سے کارخانے چلیں اور بیروزگاری کم ہو۔دوسری جانب جو میوہ جات ارض شمال میں پیدا ہوتے ہین ان کے بارے میں عرض ہے کہ ہمیں اس طرف توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔ہم نے آج تک اپنے میوہ جات کو صرف اور صرف گھریلو استعمال کی حد تک رکھا ہے۔اپنے میوہ جات کو کمرشل مقاصد میں استعمال کرنا گوارا نہیں کیا ہے۔ہمیں اس طرف توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔اسطرح ہم بیروزگاری پر کسی حد تک قابو پاسکتے ہیں۔ہماری نظریں صرف سرکاری ملازمت پر لگی ہوئی ہیں حکومت سب کو ملازمت تو نہیں دے سکتی ہمیں اپنے وسائل سے بھی استفادہ کرنے کی سعی کرنی چاہئے۔جہاں تک بین الاقوامی طور پر ارض شمال کے باسیوں کو بے پر بنائے رکھنے کی بات ہے اس سلسلے میں دنیا کے مختلف مملکتوں اور قوموں کے اپنے الگ الگ مفادات اور مقاصد وابسطہ ہیں۔پس پردہ ان مقاصد اور مفادات کی وجہ سے اقوام متحدہ بھی کشمیر کا مسلہ حل کرنے سے قاصر ہے۔ارض شمال کے غیور عوام اپنے اسلاف کی نادانستہ غلطیوں اور کوتاہیوں کا خمیازہ بے پر پرندوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
لمحوں میں خطا کی تھی صدیوں تک سزا پائی۔
ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم اپنے ہر معاملے کو بین الاقوامی سوچ سے ہم آہنگ اور اس کے مطابق اپنے معاملات کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ورنہ ہم قیامت تک بے پر ہی رہیں گے۔
اگر ہم گلگت بلتستان کے عوام کا بے اختیار ہونے کا معاملہ غیر ملکی اور غیر قوموں کے تناظر میں پر کھیں تو یہ بات عام فہم ہے کہ شمالی خطہ اپنے محل وقوع کی وجہ سے پوری دنیا کیلئے اہمیت کا حامل ہے۔ارض شمال کے باسی اگر باختیار ہوئے یعنی اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کے قابل ہوئے تو یہ بات غیر ملکوں اور غیر قوموں کے مفاد کے خلاف ہوگی۔لہٰذا غیر ملک اور غیر قومیں اپنے اپنے مفادات کے خاطر گلگت بلتستان کو بے اختیار رکھنا چاہتی ہیں جو کہ ان کے مفاد میں ہے۔
جہاں تک گلگت بلتستان اور پاکستان کے دوسرے صوبوں کے عوام کا تعلق ہے تو خطہ شمال کے رہنے والے اپنے آپ کو پہلے پاکستانی اور پھر گلگتی سمجھتے ہیں۔بالکل اسی طرح پاکستانی عوام بھی گلگت بلتستان کے عوام کو اپنا بھائی تصور کرتے ہیں۔جن کا مرنا جینا ایک ساتھ ہے۔البتہ چند بین الاقوامی مجبوری کا ادراک کرنا ہوگا اور وفاق کے ساتھ ہر معاملہ بین الاقوامی باریکیوں کے زاؤیوں کے مطابق نبھانا ہوگا۔اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہم اپنا وجود قائم نہ رکھ سکیں گے۔
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
ہم ہمیشہ کیلئے بے پر ہیں رہیں گے
آخر میں ارض شمال کے باسیوں سے یہ گزارش کرونگا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ جائز تعاون کرکے علاقے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ضرور ادا کریں(والسلام)

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ