ہنزہ نیوز اردو

بے لگام پاکستانی افسر شاہی گھوڑے

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

 

(تحریر: تہذیب حسین برچہ)

حالیہ دنوں عزت ماٰب(ہز ایکسلنسی)ڈی سی دیامر جناب سعد بن اسد صاپ کو ایک سائل کا کسی مسئلے پر توجہ مبذول کرنے کے لئے #helloDC کے ذریعے سے مخاطب ہونا ناگوار گزرا۔ایک لحاظ سے صاحب بہادر کو یہ گستاخی ناگوار گزرنا کوئی انہونی بات نہیں کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام کی شروع سے ہی یہ رَوش رہی ہے اور وہ مقامی آفیسران کی نسبت کسی بھی غیر مقامی آفیسر سے بہت جلد مرعوب ہوجاتے ہیں جس کی کڑی پولیٹیکل ایجنٹ سردار عالم خان(نائب تحصیلدار) کی گلگت آمد سے جا ملتی ہے جبکہ غیر مقامی آفیسرز کی خوشامد اور بے جا خدمت کو اپنا اولین فریضہ تصور کیا جاتا ہے۔اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور دیگر آفیسران خدا کی خاص مخلوق تصور کی جاتی ہے جبکہ خاکی وردی پر سٹار سجائے آفیسران تو خدا کی خاص چنیدہ ہستیاں تصور کی جاتی ہیں جبکہ انہی حضرات کو ہر دوشیزہ اپنے خوابوں کا شہزادہ تصور کرتی ہے۔اب اس صورت میں ڈی سی صاپ کا غصہ کرنا تو بنتا ہے جبکہ تاریخ کے اوراق کو اٹھا کر دیکھا جائے تو ماضی میں استعماری قوتوں کے زیرِ تسط رہنے والی ریاستوں میں استعماری اثرات کو آج بھی واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے برصغیر میں برٹش سول سروس جوائن کرنے والے جوانوں کو خاص طور پر باور کرایا جاتا کہ وہ حاکم ہیں اور محکوم قوم پر حکمرانی کے واسطے آئے ہیں ان کے دفاتر کی تزئین و آرائش اور بڑے بڑے میزوں پر براجماں برطانوی جھنڈا ریاست کی ہیبت کا عکاس ہوتا جو مقامی افراد پر رعب و دبدبہ قائم رکھنے کے لئے کافی ہوتا تھااسی طرح برطانوی سامراج کے انخلاء کے بعد آج بھی مقامی بیوروکریسی میں ان اثرات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے بڑی بڑی عالی شان گاڑیاں ،عمدہ تزئین و آرائش سے آراستہ دفاتر و محلات اور محافظوں کی فوج رعب و دبدبہ اور شان و شوکت میں اضافہ تو ضرور کرتے ہیں لیکن سائل اپنے چھوٹے سے چھوٹے کام کو حل کرانے کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔جبکہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ملکی خزانے کو گدھ کی طرح نوچ کھانے میں ملک کے بڑے بڑے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل یہی تعلیم یافتہ معزز حضرات پیش پیش ہوتے ہیں۔سرکاری افسر شاہی ایک لمحے کے لئے یہ بھی نہیں سوچتی کہ ریاست نے ان کو یہ تمام سہولتیں عوامی خدمت کے لئے فراہم کی ہیں لیکن عمدہ سوچ کی توقعات فکری لحاظ سے بلوغت کے درجے پر پہنچے معاشرے سے وابستہ کی جا سکتی ہیں جبکہ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ تعلیمی ادارے رنگی برنگی ڈگریاں تقسیم توکر رہی ہیں اور لوگ کسی نہ کسی طرح روزگار کے حصول میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں لیکن تعمیری سوچ اور اخلاقی تربیت کا سرے سے فقدان ہے اور ہم دورِ حاضر میں بھی تعلیم کے ذریعے فکری جمود کے بتوں کو پاش پاش کرنے سے قاصرنظرآتے ہیں
بقو ل آنس معین
اس دور میں کچھ اور ہیں سچائی کے معیار
یہ بات الگ زہر کی تاثیر وہی ہے۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ