ہنزہ نیوز اردو

بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات اور ہماری زمہ داریاں

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے، یہاں روڈ انفراسٹرکچر، زرائع مواصلات، زرائع آمد و رفت سمیت دیگر وسائل کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، پاکستان میں ایک بڑا طبقہ آمد و رفت کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ بشمول ٹرین، بسوں اور ویگنوں پر انحصار کرتا ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق پاکستان میں سال 2018-2019 میں پیش آنے والے کل 10770حادثات کے نتیجے میں پانچ ہزار نو سو بتیس افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور زخمی ہونے والے افراد کی تعداد تقریبا 13ہزار کے قریب ہے۔ یاد رہے کہ گلگت بلتستان میں ہونے والے سڑک حادثات کے حوالے سے کوئی مستند ڈیٹا ادارہ شماریات کی ویب سائٹ پر دستیاب نہیں۔ اگرچہ مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا کے توسط سے ہمیں آئے روز کے مطابق سڑکوں پر ہونے والے حادثات اور کئی افرادکے موت کے منہ میں جانے کا علم ہوتا ہے۔سڑکوں پر تیز رفتاری، بے ہنگم ٹریفک، ناقص گاڑیاں اور ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی بناء پر شاہراہیں موت کا کنواں بن چکی ہیں۔گلگت بلتستان میں بھی آئے روز ہونے والے حادثات اور نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی اموات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ کہیں نا کہیں ہم سے کوئی بڑی کوتاہی سرزد ہورہی ہے۔ گلگت بلتستان میں خصوصا شاہراہ قراقرم پر اگست اور ستمبر کے مہینوں میں کئی ٹریفک حادثات کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔کئی گھروں کے چراغ بجھ چکے ہیں مگر نہ معاشرے سے کوئی آواز اٹھ رہی ہے نہ ہی کسی حکومتی ادارے کی اس جانب کوئی مثبت پیش رفت دیکھنے میں آرہی ہے۔یہ سطور پڑھتے ہوئے شاید کئی قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ حادثات کی روک تھام کس طرح کی جائے۔ تو آئیے سب سے پہلے ان وجوہات پر روشنی ڈالتے ہیں جن کے سبب آئے روز حادثات ہو رہے ہیں، بعد ازاں ہم ان کے تدارک کی بابت بھی بات کریں گے۔ ٹریفک حادثات کی بڑی وجوہات میں سے ایک گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے کی مہارت میں فقدان بھی ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد خصوصا نو عمر افراد بغیر کسی ٹریننگ اور اجازت کے گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلاتے ہیں، ناتجربہ کاری کے سبب یہ افراد نا صرف اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں بلکہ کسی اور کی قیمتی جان کے ضیاع کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ حکومت کی زمہ داری ہے کہ شاہراہوں پر لائسنس، ہیلمٹ اور دیگر لوازمات کی موجودگی کی تصدیق کرے اور بغیر لائسنس اور ہیلمٹ کے شاہراہوں پر سفر کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزاء دی جائے۔
قوانین کی موجودگی مگر عمل درآمد نا ہونے کی وجہ سے ہونے والی قانون شکنی کا نتیجہ قیمتی جانوں کی ضیاع کی صورت میں سامنے آرہا ہے، جس کا زمہ دار نا صرف شہری بلکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس، سی پیک پٹرولنگ کرنے والے ادارے سختی سے شاہراہوں پر قوانین کے نفاز کو ممکن بنائے۔
ناتجربہ کاری، سیٹ بیلٹ کا استعمال نہ کرنا، غلط پارکنگ، نوعمر بچوں کو اگلے سیٹ پر بٹھانا اورموبائل فون کا استعمال سمیت تیز رفتار ڈرائیونگ شاہراہوں پر حادثات کا اہم سبب ہیں۔گلگت بلتستان میں سفر کا ایک اہم زریعے بسیں اور ویگنیں ہیں، ان کے ڈرائیورز کو اکثربغیر وقفے کے لمبی مسافتوں پر ڈرائیونگ کرتے دیکھا گیا ہے، جس کے باعث اکثر ہلاکت خیز حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ پنڈی گلگت روڈ،سکردوگلگت شاہراہ، استور روڈ، غذر روڈ پرپبلک ٹرانسپورٹ کے بڑے اور خونی حادثات ہوتے رہتے ہیں، اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ حادثہ ہونے کے فوری بعد بیانات کی حد تک گاڑیوں کی فٹنس، ڈرائیورز کی صلاحیت، روڈز کی صورت حال وغیرہ زیر بحث آتے ہیں مگر ان مسائل کے حل کے لیے کوئی بھی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا جاتا جس کے سبب یہ حادثات دوبارہ کئی گھرانوں کے چراغ گل کرنے کا سبب بنتے رہتے ہیں۔ دنیا کے اکثرممالک میں کسی بھی گاڑی کو ”فٹنس ٹیسٹ سرٹیفکیٹ” کے بغیر ٹرمینل سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں یہ نظام صرف برائے نام ہے۔ ملک بھرمیں دھواں چھوڑتی اور شور مچاتی ہزاروں گاڑیاں سڑکوں اور قومی شاہراہوں پر دوڑتی نظرآتی ہیں اور یہی گاڑیاں روزانہ درجنوں شہریوں کوخاک وخوں میں غلطاں کردیتی ہیں۔ گلگت بلتستان کے پہاڑی راستوں پر بغیر فٹنس سرٹیفیکیٹ کے دوڑنے والی یہ گاڑیاں موت بانٹنے والی مشینیں بن چکی ہیں، اس سلسلے میں محکمہ ایکسائز گلگت بلتستان کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ مکمل سختی سے کام لیتے ہوئے گاڑیوں خصوصاپبلک ٹرانسپورٹ کی فٹنس کو گاہے بگاہے چیک کرتے رہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فٹنس سرٹیفکیٹ اور روٹ پرمٹ کے بغیرچلنے والی گاڑیوں اور کمپنیوں کی رجسٹریشن بھی منسوخ کروائی جائے اور شہری کسی بھی گاڑی میں سوار ہونے سے قبل یہ جان لیں کہ اس گاڑی کے پاس فٹنس سرٹیفکیٹ اور روٹ پرمٹ ہے یا نہیں۔
نیشنل ہائی وے ٹریفک سیفٹی ایڈمنسٹریشن  امریکا کی رپورٹ کے مطابق گاڑیوں کے کل ایکسیڈینٹ میں سے تقریباً 25 فیصد ایکسیڈینٹ دوران ِ ڈرائیونگ موبائل فون کے استعمال کی وجہ سے ہوتے ہیں، ٹریفک قوانین لاگو کرنے والے پولیس افسران کی ذمہ داری ہے کہ ڈرائیور کو دورانِ ڈرائیونگ ہاتھ میں موبائل فون پکڑے دیکھ لیں تو اُس کا فوری طور پر چالان کر دیں تاکہ وہ دوبارہ اس قسم کی غلطی نہ کرے۔ گلگت بلتستان میں حالیہ دنوں میں موٹر سائیکل حادثات کی شرح میں بھی خطرناک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان حادثات کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو سب بڑی وجہ تیز رفتاری، غیر محتاط رویہ اور ہیلمٹ کا استعمال نا کرنا موٹر سائیکل سواروں کی اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ موٹر سائیکل سوار نہ صرف اپنی جان کے درپے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے شاہراہوں پر دوسروں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگ جاتی ہیں۔ دو پہیوں کی سواری کو نہایت تیز رفتاری سے چلانا کہاں کی عقل مندی ہے۔ میں یہاں موٹر سائیکل چلانے والے نو عمر لڑکوں اور ان کے والدین سے گزار ش کروں گا کہ اول ہیلمٹ کا استعمال ہر صورت یقینی بنائیں۔ ان حادثات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ زخمیوں کی ایک بڑی تعداد سر پر چوٹ لگنے کے باعث زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوتے ہیں، گلگت بلتستان میں ایسی چوٹوں کے علاج کا بندوبست نہ ہونے کے سبب ان کی جان بچانے میں ڈاکٹروں کو کڑی مشکل کا سامنا رہتا ہے۔ خدارا ہیلمٹ ضرور پہنیں۔ دوسری احتیاط تیز رفتاری سے گریز ہے۔ کسی بھی مشکل صورت حال میں کم رفتار کے ساتھ حادثے سے بچا جا سکتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو بے شک سمجھاتے بھی ہیں مگر آج کل کے نوجوانوں کو یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ مہلک حادثات کے نتیجے میں برپا ہونے والی قیامت کا سامنا ان کے بوڑھے والدین کو کرنا پڑتا ہے، اس لئے خدا کے واسطے بے احتیاطی سے اجتناب کریں تاکہ اس بے احتیاطی کی سزاء ان کے والدین کو نہ ملے۔ میں اپنی یوتھ سے گزارش کروں گا کہ وہ گاڑی اور موٹر سائیکل چلاتے ہوئے زمہ داری کا ثبوت دیں، اپنی جان کے علاوہ دوسروں کی زندگیوں کی حفاظت کو بھی یقینی بنائیں۔ سول سوسائٹی، این جی اوز اور سرکاری اداروں کی بھی اس سلسلے میں زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں مثبت شعور اجاگر کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں تاکہ قیمتی زندگیاں بچائی جا سکیں۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

کیا عورت کم عقل ہوتی ہے؟

ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ عورت کم عقل اور کم دین ہے، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ یہ