ہنزہ نیوز اردو

بلوچستان اور جال پھیلاتا بھارت

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.com/wp-content/uploads/2015/04/11150176_852333084827693_5684341531789167618_n.jpg” ]ثناء غوری[/author]
جاٹ اور تیلی کا وہ لطیفہ آپ نے یقیناً سُن رکھا ہوگا کہ ایک تیلی نے جاٹ سے کہا،”جاٹ رے جاٹ تیرے سر پہ کھاٹ“ بے چارے جاٹ کو جواب میں کچھ نہ سوجھا مگر بدلہ تو لینا تھا، اس لیے بولا ”تیلی رے تیلی تیرے سر پہ کولہو۔“ اب قافیہ ملے نہ ملے ملانے کی ناکام کوشش کرکے بدلہ تو لینا ہے۔ ایسی ہی کوشش میں بھارت دن رات مصروف ہے۔ بھارتی سرکار مقبوضہ کشمیر کا قافیہ بلوچستان سے ملانے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔ یوں تو یہ کوششیں مدت سے جاری ہیں مگر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں کھل کر اپنے عزائم اور ارادوں کا اظہار کردیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کی مذکورہ تقریر ایک جنونی انتہاپسند کی بڑبڑ نہیں تھی، بل کہ درحقیقت دھڑلے سے دیا جانے والا پالیسی بیان تھا، جس پر بھارت کی حکومت اور ادارے تن دہی سے عمل پیرا ہیں۔ ایک خبر کے مطابق کالعدم بلوچ ری پبلکن پارٹٰی کے سربراہ برہمداغ بگٹی اور ان کے سرکردہ ساتھیوں کو بھارت کی شہریت دینے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ دہلی کے مکار ذہنوں کی سازش کے تحت بھارتی پاسپورٹ ملنے کے بعد برہمداغ بگٹی پوری دنیا میں پاکستان کے خلاف مہم چلاسکیں گے۔ بھارت نے یہ فیصلہ سوئٹزرلینڈ کی حکومت کی جانب سے برہمداغ بگٹی اور ان کے ساتھیوں سے کی پناہ کی درخواست مسترد ہونے اور بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ سے طویل مذاکرات کے بعد کیا ہے۔ ظاہر ہے ان مذاکرات میں طے کردہ شرائط پاکستان دشمنی ہی پر مبنی ہوں گی۔ بھارتی ویزا ملنے کے بعد برہمداغ بگٹی پوری آزادی کے ساتھ مختلف ممالک کے دورے کرسکیں گے اور وہاں جاکر پاکستان مخالف پروپیگنڈا کر سکیں گے۔ 
ایک اور خبر کے مطابق بھارت کے سرکاری نشریاتی ادارے آل انڈیا ریڈیو بلوچی زبان کی ایک ملٹی میڈیا ویب سائٹ اور موبائل ایپلی کیشن لاؤنچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ آل انڈیا ریڈیو کا کہنا ہے کہ اُس کے اس اقدام کا تعلق وزیراعظم نریندرمودی کے حالیہ بیانات سے نہیں ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ سب نریندرسرکار کی حکمت عملی کے عین مطابق کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ آل انڈیا ریڈیو پہلے ہی شارٹ ویو پر بلوچی زبان میں ایک گھنٹے کا پروگرام نشر کرتا ہے۔ 
اس حقیقت سے بھارتی بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ کشمیر اور بلوچستان کا کوئی موازنہ نہیں۔ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے، جب کہ بلوچستان پاکستان کا تسلیم شدہ حصہ۔ بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس میں ہماری غلطیوں اور پاکستان کے رقبے کے اعتبار سے اس سب سے بڑے صوبے کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی دخل ہے، لیکن صورت حال کو بگاڑنے میں بیرونی ہاتھ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ نریندر مودی کے بیان اور بھارتی جاسوس کی گرفتاری کے بعد اب اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں رہ گیا کہ یہ بیرونی ہاتھ کس کا ہے۔ 
بھارت بلوچستان بدامنی کی فضا پیدا کر کے اور اسے بڑھاوا دے کر دو مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایک تو اس کی کوشش ہے کہ پاکستان بلوچستان کی صورت حال میں اس قدر الجھ جائے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بھارتی فوج کی طرف سے ہونے والا ظلم اس کے لیے ثانوی حیثیت اختیار کرلے۔ دہلی سرکار خواہش ہے کہ کسی بھی عالمی فورم پر جب مقبوضہ کشمیر کی بات ہو تو اقوام عالم کے سامنے بلوچستان کو پیش کرکے پاکستان کی سبکی کی جائے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ گوادر پورٹ نہ بننے پائے، سی پیک کا منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوجائے اور پاکستان بلوچستان کے قیمتی قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھا کر اپنی معیشت کو مضبوط نہ کرسکے۔
دہلی کی بلوچستان کے حوالے سے مکروہ حکمت عملی صرف پاکستان کو مشکلات سے دوچار کرنے اور ہمارے ملک میں انتشار پھیلانے کے مقاصد تک محدود ہے۔ بھارتیوں کے بلوچستان کے عوام سے کوئی ہم دردی ہے نہ ہی وہ ان علیحدگی پسندوں کے خیرخواہ ہیں جو بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کو کم زور کرنے اور نام نہاد آزاد ریاست قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ بھارت جانتا ہے کہ خطے میں کسی بھی ملک میں ٹوٹ پھوٹ اور نئی ریاست کے قیام سے خود بھارت میں جاری علیحدگی کی تحریکوں کو تقویت ملے گی اور ایسا ہوا تو بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔ اس حوالے سے بھارتی وزارت خارجہ کے سابق سیکرٹری وویک کاٹجو کا کہنا ہے، ”اس سے اصل مسئلے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی اور زمینی سطح پر کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا، البتہ اس سے بلوچ قوم پرستی کے کاز کو تقویت مل سکتی ہے اور بلوچستان میں بھارت کے خیرسگالی کے جذبات پیدا ہوں گے۔ یہ بہر حال ایک اچھی پیش رفت ہے۔“
دوسری طرف سابق خارجہ سیکرٹری شیام سرن کا کہنا ہے، ”پاکستان کو جو پیغام دیا گیا ہے وہ بالکل واضح ہے۔ ہم اسے اس کے گھر میں ہی زک پہنچا سکتے ہیں۔“ 
بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کی ناپاک خواہش رکھنے والوں کو بھی اس حقیقت پر غور کرنا ہوگا کہ بھارت کے ہاتھوں میں کھیل کر وہ پاکستان کو نقصان تو پہنچا سکتے ہیں، خود کچھ مراعات حاصل کرسکتے ہیں، لیکن جہاں تک ان کے نام نہاد کاز کا تعلق ہے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
یہ امر حیرت انگیز ہے کہ بھارت کی جانب سے بلوچستان کے حوالے سے مسلسل اشتعال انگیزیوں اور بلوچستان میں مداخلت کے ثبوت سامنے آنے کے باوجود ہماری حکومت عالمی سطح پر بھارتی کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کرتی نظر نہیں آرہی۔ چلیے حکومت رہی ایک طرف، ان سیاسی جماعتوں کو کیا ہوا ہے جو بیرون ملک ایک دوسرے کے خلاف اور حکومت کے خلاف احتجاج کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں، بیرون ملک مقیم پاکستانی بھارت کی اس دہشت گردی کے خلاف مختلف ممالک میں مظاہرے کرکے مودی سرکار کا سیاہ چہرہ دنیا کے سامنے لاسکتے ہیں۔ جن خبروں کا اس کالم میں ذکر کیا گیا ہے وہ صاف بتارہی ہیں کہ بھارت اپنے اہداف کی طرف پوری سنجیدگی سے اور بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے، لیکن ہماری حکومت، سیاسی جماعتیں اور عوام آنے والے خطرات سے بے خبر اپنی اپنی مصروفیات میں مگن ہیں۔
 
 
Attachments area
 
 
 
 
 

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ