بلدیاتی انتخابات کا اسٹیج سج چکا ہے۔ پاکستان کے کئی شہروں اور دیہات میں ڈراما ہوچکا۔ اب بہت سے دیگر شہروں اور دیہات سمیت کراچی میں رنگارنگی جاری ہے۔ گلیوں میں ویسے ہی تہوار کا سماں ہے جیسے پاکستان کے دوسرے شہروں میں تھا۔ پوسٹر، بینر، گانے، ترانے، جشن کا سا جشن ہے۔ آخر وہ ہو ہی گیا، جس کا سب کو یقین ہو چکا تھا کہ اب نہیں ہونا یعنی بلدیاتی انتخابات کا دنگل۔
انتخابات قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ہوں یا بلدیاتی سطح کے، جماعتی بنیادوں پر ہوں یا غیرجماعتی بنیادوں پر جیت کا جنون اس طرح فریقین کے سر پر سوار ہوتا ہے جسے خون کا سوار ہوجانا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اپنی شکست تسلیم کرنا آسان نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بلدیاتی انتخابات ملک کی ترقی اور عام آدمی کی زندگی کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرکے قوم کو ایک روشن مستقبل دینا مقصود ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جب نچلی سطح پر منتخب نمائندوں کو اختیارات ملیں گے تو وہ اپنے علاقے کے عوام کی بہتری کے لیے کام کریں گے۔ لیکن جو صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات نہ ہونے دینے کی سر توڑ کوششیں کر چکی ہوں ان سے یہ امید لگانا عبث ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کی جھولی میں ہنسی خوشی اختیارات ڈال دیں گی۔ بہ ہر حال، شہری مسائل کی اس وقت جو صورت حال ہے اس میں ان اداروں کا وجود میں آجانا بھی غنیمت ہے۔
عوام کے بنیادی مسائل کچھ نہ کچھ حل ہونے کی نوید سناتے پنجاب اور سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دو مراحل مکمل ہوچکے ہیں اور تیسرا مرحلہ پانچ دسمبر کو اختتام پذیر ہوگا۔ ختم ہونے والے دو مرحلے ہماری سیاست اور معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کے عناصر کی تصویر پیش کرگئے۔ پنجاب اور سندھ کے مختلف اضلاع میں ہونے والے ان بلدیاتی انتخابات کے دوران لڑائی جھگڑوں میں سات افراد ہلاک ہوگئے، جب کہ فائرنگ کے مختلف واقعات میں درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔
یہ سب ہونے کے بعد جو پارٹی یا امیدوار جیتا اس کے لیے جشن منائے گئے باجے گاجوں میں ماتم کی وہ آوازیں دب کر رہ گئیں جو جنازے اٹھتے وقت کہرام مچارہی تھیں۔ کسی کے باپ کا جنازہ اٹھا تو کسی کے بھائی کا، کہیں سہاگ اجڑے تو کہیں جوان بیٹے کی لاش سے لپٹ کر ماں روتی رہی، لیکن جیت کے ترانوں، ڈھول کی تھاپ اور مٹھائیوں کی مٹھاس نے ماتم کے کڑوے ذائقے کو بھلا دیا۔
میں سوچتی ہوں لوگ اپنے لیڈروں کے کو خوش کرنے اور پارٹی سے وفاداری کی خاطر اپنی قیمتی جانوں کی بھی فکر نہیں کرتے۔ انھیں اپنے کنبے کی فکر نہیں ہوتی کہ ان کی تکلیف سے پورا خاندان متاثر ہوگا۔ انھیں فکر ہوتی ہے تو بس اپنے ان راہ نماؤں کی جو ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتے۔
اور نام سے واقف ہوں تب بھی جیت کے جشن میں کسے ہوش رہا کہ اپنے کارکنان کے گھروں میں جاکر پرسہ کرلیں یا زخمیوں کی عیادت میں اپنا تھوڑا سے وقت لگادیں۔ لیکن نہیں صاحب ان راہ نماؤں کا وقت بہت قیمتی ہے۔ یہ اس وقت کو ضائع نہیں کرسکتے۔ ان کا وقت کسی کی قیمتی جان سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔
ہائے میرے وطن کے معصوم لوگ۔ تبدیلی کی خواہش نے ان کو اندھا کر دیا ہے، جہاں امید کی ایک کرن نظر آتی ہے اس طرف یہ معصوم عوام ننگے پاؤں دوڑے چلے جاتے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے دوران ہونے والے تشدد کے ان سب واقعات میں جو سب سے ہولناک واقعہ رونما ہوا وہ کچھ یوں ہے کہ بیٹا مسلم لیگ ن کو ووٹ دینا چاہتا تھا اور باب تحریک انصاف کے حق میں تھا۔ بحث سے بات شروع ہوئی اور بیٹے نے جوشِ جوانی میں باپ کو گولی ماردی۔ باپ کو اپنی نظروں کے سامنے دم توڑتا دیکھ کر جوان خون کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ حواس باختہ نوجوان بیٹا گناہ کے احساس میں چور چور رو رہا تھا۔ اسے اس بات کا شدید احساس تھا کہ دنیا کی کوئی عدالت اسے اس کے گناہ کی سزا نہیں دے سکتی، کیوں کہ جرم اتنا سنگین تھا کہ اگر سزا مل بھی جاتی تب بھی اس کی روح اس سزا سے مطمئن نہ ہوتی۔ اس نے اپنا گناہ خدا کی عدالت میں پیش کرنے کا سوچا۔ سو وہی ہتھیار جس سے اپنے باپ کی زندگی ختم کی تھی، اٹھایا اور اپنے آپ کو نشانہ بناتے ہوئے خودکُشی کرلی۔ اپنی سزا کا انتخاب کرنے والا یہ نوجوان نہ جانے خدا کی عدالت میں کس فیصلے کا مستحق قرار پائے گا۔ لیکن گھر سے نکلنے والے دو جنازے ایسے تھے جیسے زمین کے دو حصے ہو گئے ہوں اور قیامت گزر کر اپنی تباہی کے قصے سنا رہی ہو۔ استغفراللہ۔
ان تحریک انصاف کے شیدائی اور مسلم لیگ ن کے جانثار ان، باپ بیٹے میں سے نہ کسی کا نام مسلم لیگ ن کے راہ نما جانتے ہوں گے اور نہ ہی تحریک انصاف کے راہ نما لیکن اپنی پارٹی سے وفاداری ا ن کارکنان کے لیے اتنی اہم تھی کہ جان لینے اور جان دینے سے پیچھے نہیں ہٹے۔
سیاست پر بات کرنا اور سیاسی جماعت سے وابستگی قوموں اور افراد کے باشعور ہونے کی علامت اور معاشرے کے جمہوری ہونے کا اظہار ہے۔ لیکن جمہوریت کا سبق اس وابستگی پر ختم نہیں ہوجاتا، جمہوریت تو نام ہی ہے اختلاف رائے برداشت کرنے اور شکست تسلیم کرنے کا۔ لیکن ہمارا سیاسی شعور، شخصیات اور جماعتوں کی اندھی حمایت اور غلامی کی حد تک وفاداری نبھانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ صحیح غلط کی پہچان نہ ہو، جھوٹ سچ میں امتیاز کی صلاحیت نہ ہو تو تعصب، عدم برداشت اور شکست کو کسی قیمت پر تسلیم نہ کرنے ہی کے رویے جنم لیتے ہیں۔ ایسے میں انتخابات ان رویوں کی سرخ اور سیاہ رنگوں سے بنی خوف ناک تصویر بن کر سامنے آتے ہیں، جن میں انتخابی ضابطہ اخلاق کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، جعلی ووٹ کاسٹ کیے جاتے ہیں، اسلحے کی نمائش ہوتی ہے، تصادم ہوتے ہیں، جانیں جاتی ہیں، اسلحے کے زور پر ووٹ کاسٹ کروائے جاتے ہیں اور کہیں کہیں پولیس بھی جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سارے عمل میں فریق بن جاتی ہے۔ یہ سب مناظر جس فلم کے ہوتے ہیں اسے جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔
کراچی میں ابھی الیکشن کا مرحلہ طے ہونا باقی ہے۔ دو کروڑ سے زیادہ آبادی کا یہ شہر پہلے ہی امن وامان کی خراب صورت ِحال کے باعث لہولہو ہے۔ ایسے میں ذرا سی بھی بدمزگی تشددپسند اور جرائم پیشہ افراد کو اپنی کارروائی کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ بچپن سے ایک سبق میرے بڑوں نے مجھے سکھایا ہے کہ لوگ تو آپ کو توڑنا ہی چاہتے ہیں آپ کیوں اپنے گھرکو توڑیں اور اپنے آپ کو برباد کریں! چناں چہ عوام اور سیاسی کارکنوں کو سوچنا ہوگا کہ سیاسی حمایت اور وفا کے تقاضے نبھاتے ہوئے وہ انسانیت کے تقاضے فراموش نہ کریں۔ یہ گلی محلوں کے بسنے والے، جو عوام اور کارکن کے مرتبے سے آگے نہیں بڑھ پاتے، ایک ہی کنبے کے افراد ہیں، سو انھیں بڑی بڑی کوٹھیوں میں زندگی کرتے راہ نماؤں کے لیے اپنے گلی محلوں کو میدان جنگ اور مقتل نہیں بنانا چاہیے۔ انھیں یہ دیکھ کر ہی عقل آجانی چاہیے کہ اونچی حویلیوں کے مکین سیاست داں ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور لفظوں کے گولہ باری کرنے کے باوجود کس طرح دسترخوانوں پر ایک ساتھ موج اُڑاتے نظر آتے ہیں۔ اپنے اپنے راہ نماؤں کے پیچھے آنکھیں بند کرکے چلنے والے عوام اور کارکن جمہوری اقدار سے نہیں تو کم ازکم ان لیڈروں کے اس دوغلے پن ہی سے برداشت کا سبق سیکھ لیں۔