ہنزہ نیوز اردو

بروغل کی سیر۔ قسط 2

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/08/IMG-20170828-WA0001.jpg” ]شکورخان ایڈووکیٹ[/author]

 

ہم نےمیدان نما برف زار پرقدم رکھا اس لمحےمطلع صاف، دھوپ چمک رہی تھی گو کے آوارہ بادل تیزی سے چکر کاٹ رہے تھے، دیکھتےہی دیکھتےگھنگور گھٹائیں چھا گئیں، ابر ہمارے اور سورج کے بیچ حائل ہو گئے، خوفناک آوازوں کےساتھ جکھڑ چلنےلگی، برف کے نیچے دب جانے یا آن دیکھےدراڑ میں گر جانے کے خوف سے دل بیٹھا جا رہا تھا۔البتہ اس جگہ دور دور تک دراڑ نظر نہ آئی۔ واقفان حال نےمہم جوئی سےقبل جو محل وقو ہمیں بتایا تھا اس کے مطابق اس جگہ کا نام قلندر گم تھا جوبذات خود خوفناک نام تھا۔ قلندر اس بزرگ یا درویش کو کہتےہیں جو دنیا داری چھوڑ کر اللہ کی راہ پہ چل نکلا ہو۔ کہتےہیں کہ ماضی کے کسی دور میں قلندردرکوت سے بروغل جاتے ہوے راستہ بٹھک کر سردی کی شدت اور برف کی سختی کےآگے جان ہارگیا تھا، جس کی لاش بھی نہ مل سکی۔
گلیشئیر کی خوفناکی کے سامنےقلندرانہ جلال بےبسی کی تصویر بن کرگٹھنےٹیکنے پر مجبور ہوا ، ہم دورجدید کے گناہگار کس کھیت کی مولی تھے۔ کیا معلوم یہ سروں کے اوپر تیزی سےاڑتی پلٹتی گٹھائیں، یہ برف اڑاتی باد صرصرہمیں شکار کرنےکی خوشیاں منا رہی ہو۔ جان بچانےکےلئےہمیں یہاں سےتیزی سےنکلنا تھا لیکن اس سےقبل سمت کا تعین ضروری تھا۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ قلندرگم کےمقام سےشمال مغربی جانب دو درے ہیں دائیں یعنی قدرےشمالی درہ طویل مسافت کےبعد وادی بروغل کے شمالی حدود سے ملتا ہےجبکہ بائیں ہاتھ والا درہ بروغل کے جنوبی گاؤں چکار سے جا ملتا ہے۔ شمال کی طرف نظر دوڑائی تو دو کی بجائے تین درے نظر آئے۔ دائیں ہاتھ والا درہ بہت زیادہ برفانی اور قدرےڈھلوان تھا۔ قیاص یہ کہتا تھا کہ قاتل درہ یہی ہے جس میں داخل ہونے کے بعد قلندر ہمیشہ کےلئے گم ہوا، نہ وہ بروغل پہنچا نہ واپس آیا۔ ان خدشات کےپیش نظر ہم نےدائیں اور درمیانی دروں کو ترک کرکےبائیں جانب واقع تیسرے کا انتخاب کیا اور تیزی سے آگےبڑھے۔ آندھی اورطوفان برف اڑائے جارہی تھی۔ نیچی پرواز کرتی بدلیوں کی وجہ سےدم گٹھتا ہوا سا محسوس ہونے لگا۔ سردست برفانی تھپیڑوں کوسہتے ہوے بھی تیزی سےدورنکلنا چاہ رہےتھےتاکہ جانیں بچائی جاسکے۔
اچانک بادل ٹکڑوں میں بٹنے لگے، بکھرنے لگے،ہم نےحیرت سےدیکھا بادل عجلت کے ساتھ مختلف سمتوں میں رواں دواں تھے۔ باد صرصربھی برفانی چوٹیوں میں کہیں گم ہوگئی، ابر نے پہاڑیوں کی اوٹ میں پناہ لےلیا، سورج کی کرنیں ایک بار پھر سے بکھر گئی تھیں۔ حیران تھے ہم قدرت کا یہ تماشا دیکھ کر، ابھی کیا تھا اور ابھی کیا ہوگیا۔ ہم نےسکھ کا سانس لیا اور عام رفتار سےآگےبڑھنےلگے۔
پہاڑ زیادہ بلند نہ تھے وجہ یہ تھی کہ ہم خود سطح سمندر سے15 ہزار فٹ سےزیادہ بلندی پر تھے۔ دائیں ہاتھ والےپہاڑ نسبتا کم بلند لیکن آری کے دا نتوں کی طرح نوکیلےجبکہ بائیں ہاتھ کےپہاڑی سلسلےکی چوٹیاں جو وادی بروغل اوردولنگ نالہ درکوت کوایک دوسرے سےجدا کرتی ہے، زیادہ بلند تھیں۔ گلیشئیر کے دراڑوں میں گرنے کا خوف باقی تھا۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کےبعد پہلی بار بہت ہی چھوٹا سا درز نظر آیا جس کی چوڑائی دو انچ سےزیادہ نہ تھی، اسےدیکھ کر بےساختہ ہنسی چھڑ گئی، ہم تو کیا اس میں چڑیا بھی نہیں سما سکتی تھی لیکن جوں جوں آگےبڑھےکئی چوڑی دراڑیں راہ میں حائل ہوگئیں، بعض کوپھلانگ کرپارکیا اور کچھ چار پانچ فٹ اور اس سےبھی زیادہ چوڑی تھیں جن کے پارجانے کےلئےدور جانا پڑتا تھا کیونکہ بہت زیادہ چوڑے شگاف بھی کچھ فاصلے پر جاکرتنگ ہوتے ہوتے بالاخر مندمل ہوگئے تھےیعنی آپس میں مل گئے تھے۔
دھوپ کی حدت سےگلیشئیر کا اوپری حصہ پگل کرپانی رواں تھا۔ جابجا گلیشئر کا شفاف دلکش پانی ڈھلوانوں سے نشیب کی جانب بہہ رہا تھا۔۔ ان پانیوں سے چھوٹی چھوٹی نیلی اورسبز جھیلیں بن گئ تھیں۔ پانی ان ننی منی جھیلوں کو لبالب بھرنے کےبعد اوپر سے اورفلو ہوکرگلیشئر کے سخت برف سےراستہ بناتا ہوا بڑی تندی و تیزی سےنیچےبہہ کر آبشار کی شکل میں غارنما شگافوں میں گررہا تھا، ان شگافوں سےنامانوس خوفناک آوازیں آرہی تھی۔ مختلف سمتوں سے بھی ایسی آوازیں آرہی تھیں۔
ہائی الٹیٹیوٹ اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہمارے کان بند ہوگئےتھے۔ سورج کی تمازت کی وجہ سےگلیشئر کے اوپری سطح کی چند انچ برف پگل رہی تھی جس کی وجہ سے جوتےگیلےہورہےتھے۔ تاحدنگاہ برف زار پر نیلی پیلی چھوٹی چھوٹی لکیریں بنی تھیں، یہ دراصل دراڑیں تھیں جو کم چوڑی ہونے کی وجہ سےبرف میں چھپ گئ تھیں۔
گلیشئر پر خشک جگہ نہ تھی، برف پگل رہی تھی اس لئےسستانے کےلئے بیٹھ کرہم اپنے کپڑے گیلے کرنا نہیں چاہ رہےتھے۔ نو گھنٹےچلنےکےبعدبالاخر ہم نے خوشکی پرقدم رکھا۔ خوشکی پرکیا ! روڑوں، سنگریزوں اورپتھروں پر قدم رکھا۔ ہرسائز کے کروڑوں پتھر بکھرے پڑے ہیں۔ انسانوں کی طرح کسی بھی پتھر کا رنگ سائز، شکل دوسرے پتھر سےنہیں ملتی۔ یہ پتھر تخیلات کوموسیقی کےدھنوں کی طرف لے گئے۔ موسیقی کےتخلیق کاروں نے بھی کیسی کیسی دھنیں بنائی ہیں۔ دھن کی تخلیق بلکل نئ ہو وہ سدا بہار ہو جاتی ہے اگر دوسرے کی نقل ہو مہینوں بھی نہیں چلتی۔ موسیقار نقل کی بجائےتخلیقی صلاحیتوں سےکام لےکر ان پتھروں کی طرح نئ سے نئ دھنیں تخلیق کریں تو وہ چند ماہ میں ماند نہیں پڑے گی بلکہ تخلیقی شاہکار بن کر سدا بہار رہیں گی۔ ان پتھروں کی طرح جو گو کہ اربوں کی تعداد میں ہیں لیکن شکلیں جدا جدا رکھتی ہیں۔
کوئی گھنٹہ بھر پتھروں پر چلنےکےبعد انسانی قدموں کے نشان نظر آنےلگےمزید ایک گھنٹےکی مسافت کے بعد دور جنوب میں ہریالی یعنی کھیت اورآبادی کےآثار نظر آئے ، یہ بروغل کی پہلی آبادی تھی جسےہم دیکھ رہے تھے، درکوت گلیشئرپیچھے چھوڑ کر گویا بروغل میں داخل ہوچکےتھے۔ پتھریلےراستے کی وجہ سےرفتاردھیمی تھی لیکن موقعہ سےفائدہ اٹھا کر علی مدد بائی اور میں طرح طرح کے موضوعات پر گفتگو کر رہے تھے۔ سہ پہر کا وقت تھا ہم نےبھی چیکار کےکھیتوں کی پگڈنڈیوں پرقدم رکھا۔ ادھر کی زمین ڈھلوانی تھی، کھیتوں میں گندم، جو اورمٹر کی نئ نئ فصل اگی تھی۔
بھوک ستانےلگی، ادھر نہ کوئی جاننےوالا تھا نہ کسی کے نام ہمارےپاس سفارشی چٹھی تھی۔ لیکن ایک بات طےتھی کہ اس دیہات میں ہم نے کسی نہ کسی کسان کا مہمان بننا تھا۔ دو تین گھروں کےبےحد قریب پہنچ کرہمارے پاؤں رک گئے۔ کیا خود داری پاؤں کی زنجیر بنی تھی ؟ بروشو قوم کی آنا پرستی نےبےدھڑک آتش نمرود میں کودنے سے روکے رکھا تھا ؟ لیکن نہیں۔ اس قسم کی خود داری ہمارے مسئلے کا حل نہ تھا۔ پردیس میں بےخودی اور مصلحت سے کام لینا تھا جسے ہم اچھی طرح جانتے تھے۔
علی مدد بائی چاہ رہا تھا کہ میں کسی کا دروازہ کھٹکھٹاؤں اور وہ آنجان بن کر احتیاطا ذرا فاصلہ رکھ کے کھڑا رہے اور رخ کسی اور جانب کرکے کن اکھیوں سےنظارہ کریں کہ دروازہ کھٹکھٹانے کےنتیجے میں اندر سےنمودار ہونے والی ممکنہ عفریت میری کیا درگت بناتی ہے۔ اگر معاملہ بگڑتا دیکھےتو اپنی صفائی پیش کرتے ہوےجھٹ سے بولےکہ اس ناہنجار، گستاخ کےساتھ میرا کوئی تعلق نہیں، تم جانو اور یہ، میں تو چلا کہتا ہوا زناٹے سے آگےبڑھے۔ نہیں اگراندر سے آنے والا مجھےبچھڑا بھائی جان کربانہیں پھیلاتا ہوا مجھ سے بےاختیار لپٹ جائے تو وہ اک دم سامنے آکر کہےکہ اسےتو میں نے تمہاری طرف بھیجاہے۔
دوسری جانب میرے خیالات بھی بائی سے مختلف نہ تھے، چاہ رہا تھا کہ اندر کی مخلوق کا سامنا وہ کریں اگرکچھ اچھا ہوجائےتو آگےبڑھ کرجتاؤں کہ معارکہ سرکرنے میں وہ اکیلا نہیں میں بھی شانہ بشانہ موجود تھا، البتہ پیش آمادہ صورتحال کےپیش نظر، بہ تقاضائے مصلحت، وقتی طورپر چند قدم پیچھے کھسک گیا تھا، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
ہم بلی کےگلے میں گھنٹی کون باندھےوالی صورتحال سےابھی گزر ہی رہےتھے کہ اچانک ساتھ والےگھرکا دروازہ کھلا اور ایک شخص اندر سےنمودار ہوکر ہماری طرف بڑھا۔ میانہ قد،بیضوی چہرا، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، چہرے پر تجسس اوردوستانہ تاثرات ، قریب آکر وخی میں کچھ کہا، جواب نہ پا کرٹوٹی پھوٹی اردو میں ہمارا تعارف پوچھا، بائی نے بھی اسی کی مانند الٹی سیدھی اردو میں اپنا اور میرا تعارف کرایا۔ یہاں علی مدد بائی کےبارے میں مختصر کچھ بتاتا چلوں، موصوف کا تعلق ہویلتی،یاسن سےہیں، یہ بائی کےنام سےمشہور ہیں۔ نہ صرف تعلیم یافتہ بلکہ وسعی مطالعہ کا حامل ہیں۔ یاسن سےتعلق رکھنےوالے آویلین اردو شاعر، 80 اور 90 کی دھائی میں گلگت بلتستان کے لیول پرمنعقد ہونےوالےمشاعروں میں اپنا ہی کلام سنانےاورگانے والے یاسن کے پہلے گلوکار، ترقی پسند دانشور، قوم پرست اور سب سےبڑھ کر ایک ملنسار، خوش اخلاق انسان جن کی زندگی پر کتاب نہیں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، ان کی شخصیت گو کہ ہشت پہلو ہے جس پرروشنی ڈالنےکےلئےالگ سے لکھنےکی ضرورت ہے۔ آجکل زیادہ ترگوشہ نشینی کی زندگی گزار رہےہیں، ایک اوردلچسپ بات ! وہ یہ کہ موصوف مبائل نہیں رکھتے۔ لےجی، اب اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔
بڑی خوش دلی سےاس شخص نے گھر چلنےکی دعوت دی جسےہم نےبلاتامل قبول کیا اور اس کےساتھ چل دئے۔ رہائشی خانہ کےساتھ چھوٹا سا برآمدہ تھا جس میں بستر بچھا تھا ہم نےوہی پہ دراز ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ میزبان نے اندرون خانہ چلنے کو کہا لیکن ہم نے معزرت کرلی۔ بید کی لاٹھیاں فرش پررکھ لیں، بھاری بھرکم بیگز کو کاندھوں سےاتارا، جوتے جرابیں اتار کر ایک طرف رکھ دیں، رضائیوں کےساتھ ٹیک لگا کر ٹانگیں پھیلائیں کیونکہ طویل مسافت طےکرکےتھکن سےچور آئےتھے۔ ہم حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنےلگےجس دوران میزبان اندرون خانہ جا چکا تھا۔
تین بچے ہمارے پاس آکےبیٹھ گئے، بچوں کےساتھ ہم نے بہت ساری باتیں کیں لیکن کسی کی کوئی بات کسی کے پلے نہیں پڑرہی تھی، بس مسکرائے جارہےتھے،کبھی کبھار ہنسی چھڑ جاتی کبھی ان کی کبھی ہماری۔ بچوں کو ہم نےبسکٹ اور ٹافیاں دیں جنہیں لےکربچےگھر کی جانب دوڑے۔ مرد واپس آکر ہمارےپاس بیٹھا اورہم نےاس کےساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو کا آغاز کر دیا۔
گفتگو کےدوران دو باتوں کا انکشاف ہوا، اسے نہ صرف بروشسکی کے بہت سارے الفاظ آتےتھےبلکہ چند جملےبھی بول سکتا تھا۔ پوچھنےپر بتایا کہ اس نے بچپن میں کچھ عرصہ یاسن میں گزارا ہے۔ مزید کہا کہ میرا تایا بھی یاسن گیا تھا لیکن واپس نہ آیا، آنےجانےوالوں سے ہمیں خبرملی تھی کہ وہ وہاں وفات پاچکا ہے۔ یہ سن کر میرے ذہن میں بجلی سی کوندی، کیونکہ میرے چچاذات ولایت خان مرحوم الماروف میجرکے گھربرق باد نامی وخی بابا رہا کرتا تھا، وہ چند سال قبل وفات پاچکا تھا، ہم بچےاسےبرق باد بپ کہہ کرپکارتےتھے ( بپ کے معنی بروشسکی زبان میں دادا کے ہیں)۔ مرحوم اونچےپائےکا کاریگرتھا، سیناپرونا، پوستین کےہینڈی کرافٹ تیار کرنا، چاقو، خنجراورتلوار کے دستےاورغلاف بنانا، خشک چمڑے کو خاص پراسس سےگزار کرقلیل ترین وقت میں نرم و ملائم کرنا، ان کےعلاوہ بھی بہت ساری ہنرمندیاں اسے آتی تھیں۔
بابا باقاعدگی سےافیم پیتا تھا، بھلے کیوں نہ پیتا آخر وہ بھی تو بروغل اورسرحد واخان کے کلچر کا حصہ تھا جہاں کی اکثریتی آبادی آج بھی افیم کی لت میں مبتلہ ہے۔ 1982 سےقبل یاسن میں منشیات پر پابندی نہ تھی۔ یہ ڈیکٹیٹرجنرل ضیاءالحق کا مارشل لائی دور تھا۔ پورے گنگت بلتستان میں اس کا طوطی بولتا تھا، غذر میں شاید کوئی گھرایسا ہو جہاں اس کی تصویر نہ لگی ہو۔ بوڑھے بابے بھی جگہ جگہ اس کی تصویر طلب کرتےپھرتےتھےخاص طور پر وہ تصویرجس میں لوگوں کی ننگی پیٹھ اورکمر پر کوڑے برسائےجارہےہیں اورجنرل ضیا‏ء موچھوں کو تاؤ دے رہا ہے۔
جون 1982 میں غذر میں افیم سمیت تمام منشیات پر پابندی کا علامیہ جاری ہوا اس کے ساتھ ہی پولیس کے سپاہی مقامی معتبرین کی معیت میں لوگوں کی کیاریوں میں گھس کر خشخاش کےڈنٹھل اکھاڑتے اورمالک کیاری کےپیٹھ پر لاد کرتھانہ لےجاتے وہاں اسےسرزنش اور آئیندہ کےلئےخبردار کرکے چھوڑ دیتے۔
برق باد بپ چند مرلےزرخیز زمین میں خشخاش کےبیج بوتا باقاعدگی سے پانی دیتا، زمین نرم کرتا، کھاد ڈالتا، بابا کی فصل تیزی سےبڑھتی، خشخاش کےڈوڈے جوبن پر ہوتےتوبابا شام ڈھلے نشترسے ڈوڈا پرہلکے چرکےلگاتا تو ڈوڈا سےدودھ کی طرح سفید گاڑھا مادہ قطرہ کی شکل میں بہہ کرڈوڈے کے اوپر ہی جم جاتا، رات کو سوکھ کرخشک ہو کر اصل افیم (آفیون) کی شکل اختیار کرتا صبح بابا جمے ہوے افیم محتیاط سے کھرج کر مخصوص بوتل میں جمع کرتا اور ہر ایک ڈوڈے پر نئےچرکے لگاتا، اس عمل کو دو تین بار دہرایا جاتا جس کےبعد ڈوڈا خشک ہو جاتا ۔ بابا اقیم کو تریاق کا نام دیتا تھا۔ وہ آسی کےپیڑے میں تھا ،کافی ضعیف ہوچکا تھا، ہیضے کی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی، تجہیز و تکفین میجر مرحوم کےگھر ہوئی جس میں راقم شریک تھا، ہمارے آبائی قبرستان کےپہلو میں مدفون ہوے۔ آسمان ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے۔
میں نےمیزبان سے پوچھا کہ اس کے تایا کا نام کیا تھا ؟ جواب آیا : برق باد ! تب میں نے اس کے تایا کی زندگی کےآخری ماہ و سال اور فوتگی کی رام کہانی سنا دی۔ سب جان کر میزبان مغموم ہوا، اس کےچہر ے پر تجسس اور بےچینی کےبھی اثرات د یکھے گ‏ئے آخیر میں کسی گہری سوچ نے جنم لیا جو اس کی آنکھوں سےنمایاں تھا، وہ ناخوش اور فکرمند دکھائی دینےلگا، یہاں تک کےخاصی پریشانی چہرے سے عیاں ہوگئی۔ میں اس کےخدشات بھانپ گیا۔ میں نےکہا : مرحوم آپ کا تایا اورمیرے خاندان کا فرد تھا، وہ ہمارا ‘بپ’ منہ بولا دادا تھا۔ زندگی کےکئ سال اس نے ہمارےساتھ گزار دئےاگرخدمت میں کچھ کمی رہ گئ تھی تو اللہ معافی دے۔ ہم سیلانی لوگ ہیں، بروغل دیکھنے کا شوق چرایا تو ادھر آ نکلے، آپ کی دھلیز سےگزر رہےتھے، مہربانی آپ کی ہمیں گھر لے آئے۔ یہ سن کر اس کی جان میں جان آئی ورنہ بےچارا سمجھ بیٹھا تھا کہ ہم بابا کی تجہیزوتکفین اور پرورش کے اخراجات وارثوں سےوصول کرنے آئے ہیں۔
میزبان اٹھ کر گھر چلاگیا تھوڑی دیر میں خاتون خانہ، سارے بچےاور میزبان خود ” دلدنگی” (گندم کی موٹی روٹی گرم راکھ میں دبا کر پکائی جاتی ہے) کے ساتھ مسکا تازہ، ملائی اور چائے لےکےآگئے۔ خاتون وخی زبان میں ہم سے مخاطب ہو کر کچھ بولتی رہی جس کا ترجمہ میزبان نے یوں کیا کہ وہ بابا کی خدمات کی وجہ سےہمارا شکریہ ادا کر رہی ہے۔ ہمیں بھوک کافی تھی کھانے کا بیشترحصہ چٹ کر گئے۔ تھکاوٹ جاتی رہی خود کو تازہ دم محسوس کیا، ہمارےبوٹ راستےکی مٹی اورگارے سےلت پت ہوگئےتھےان کی صفائی کرکےپالش کیا، میزبان سےرخصتی چاہ کرجوتےپہننےلگے۔ آول تو وہ راضی نہ ہوا کیونکہ بابا مرحوم کےحوالےسےبھی ایک تعلق سا پیدا ہو گیا تھا۔ ہم نےاس سےوعدہ کیا کہ واپسی پررات اس کے ہاں ٹھریں گے۔ اس نےبادل ناخواستہ اجازت دےدی اور رہنمائی کےلئےکافی دورتک چلا آیا۔
میزبان کو الودع کہنےکےبعد کچھ دور چل کرایک وسعی سرسبز میدان میں داخل ہوے۔ یہاں گھوڑے، گدھے چررہےتھے۔ کئ مرد اورعورتیں باربرداری میں مصروف تھیں۔ ان میں سےکئ مختلف مقامات سے سر سبز زمین کھود رہےتھے۔ گھاسیلی زمین سےٹکڑے کاٹ کاٹ کر جمع کررہےتھے، جگہ جگہ ان کےڈھیر نظر آہےتھے، یہ لوگ فطرت کے حسن کو داغدار کر رہےتھے، ہمیں ان کی یہ والی کارگزاری اچھی نہ لگی۔ یوں لگ رہاتھا کہ کسی حسین چہرے پر اچانک برص کے داغ نمودار ہو گئےہوں، ہم نےقریب جاکران لوگوں سےپوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ ایک شخص جو اردو جانتا تھا ہم سےمخاطب ہوکرکہا : نہ ان میدانوں میں درخت ہیں نہ پہاڑوں پرجنگل، آپ کے پاس جلانے کےلئےلکڑی ہے، ہمارےپاس لکڑی نام کی کوئی چیزنہیں۔ ٹال کی طرف اشارا کرکےکہا کہ ہمارےپاس ان کا زخیرہ ہےیا مویشی کے خشک کئےہوے گوبر، سال بھر ہم یہی جلاتے ہیں۔ یہ شخص کچھ دور تک ہماری رہنمائی کےلئےچلا، ہم جب میدان کےسرے تک پہنـچےتو سامنے کا نظارا بڑا دل فریب تھا، دور دورتک ٹیلہ نما سرسبز پہاڑیاں نیچے دور کہی سےبہتا ہوا دریا، عین نیچے دریا پر پل تھا۔ اس شخص نے بتایا کہ یہ دریائے بروغل ہے، یہ دریا قرمبر جھیل، چیئنتراور چاٹی بوئی گلیشئیرسےنکلتاہے، آگے جا کر دریائےچترال جبکہ اٹک کےمقام پر دریائےکابل کہلاتا ہے۔ ایک پہاڑی کی جانب اشارہ کرتےہوےبتایا کہ وہاں مشہور درہ “دروازہ” پاس ہے وہاں سےایک دن کی مسافت پر سرحد واخان کا گاؤں چلکھن واقع ہے، پامیر بھی اس طرف ہے،چاہو تو وہاں بھی جاسکتےہو، مسکرا کرہماری طرف دیکھا پھر کہا کہ اس وقت ادھر” شوراوی” یعنی روس موجرد ہے۔ ہم اس سے ہاتھ ملا کرآگےبڑھے۔ جاری ہے۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ