یہ دنیا بھی عجیب ہے کبھی اونٹ گزرتا ہے تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، پھر ایسا وقت آتا ہے کہ چونٹی گزرنے سے روکنے کے لئے بڑے بڑے ادارے حرکت میں آتے ہیں اور منصوبہ بندی کرنے والے ہاتھ پیر مارتے ہیں انجام ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہاتھی کو کوئی نہیں پوچھتا ہے بچاری چيونٹی کی سختی آتا ہے اس سے ملتا جلتا مسئلہ با باجان اور اس کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی ہو گی ہے، مندرجہ بالا سے قوم ملک کوئی نقصان نہیں پہنچا سکا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دوسرے شخصیات نے ملک کو دولخت کر کے چھوڑے، اور بعضوں نے خالصتان کے منصوبے کو دشمن کی حوصلہ کرکے ملک و قوم سے غداری کی گئی، پھر تیسرے شخصیت نے کارگل جنگ میں کامیابی کو نقصان میں تبدیل کر کے قوم و ملک کو نقصان پہنچایا اور مزے کی بات ہے کی یہ حضرت پاکستان کے سب سے اعلیٰ منصب پر فائز ہو گئے تھے ایک دفعہ نہی بلکہ تین تین دفعہ بر جمال ہوئے ہیں، میڈیا اطلاعات کے مطابق دشمن عناصر کے ساتھ ملاپ ہوا تھا لیکن انہوں نے کوئی مواد وغیرہ دشمن کے حوالے نہیں کیا تھا، اور جس شخص نے ان کو پھنسایا ہے اس کا نام عبد الرحمن نامی شخص ہے اور امید ہے کہ وہ بھی بچ جائے گا، کیونکہ پہلے والوں کی طرح مجرم ہے، پکے مجرم کو ملک کا بادشاہ یا وزیراعظم بنایا جاتا ہے اور کچھے مجرم کو جیل میں قید کیا جاتا ہے تاکہ عادی مجرم بن سکے، اسے کہتے ہیں انصاف، خدا کا خوف کریں اور ان کو آزاد کریں، راقم کے خیال میں گلگت بلتستاں کے بیوروکریٹ یا سیاست دانوں میں کوئی را کا نمائندہ ہے اور حساس علاقوں میں گڑبڑ پیدا کرنا چاہتا ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ اسیران کو جلد از جلد ریا کیا جائے تاکہ قوم اور ملک کو فائدہ پہنچے.
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ