ہنزہ نیوز اردو

اے کشتہ ستم تیری غیرت کوکیا ہوا

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

پچھلے کئی دنوں سے قبلہ اول میں اسرائیلی بربریت کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح مظلوم فلسطینیوں پر قیامت ٹوٹ رہی ہے۔ صدیوں سے مسلمان مسجداقصی کی حرمت وعظمت کی حفاظت کی خاطراپنی جانیں وقف کرتے آئے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں، لیکن نئی بات یہ ہے کہ آج دنیا بھر کے مسلمان خاموشی کی چادر تانے تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ رمضان کے اس مقدس مہینے میں مسلمانوں پر نماز پڑھنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور انہیں تراویح سے روکا جا رہا ہے ،زور زبردستی انہیں گھسیٹ کرصفوں سے باہر لا کر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،آنسو گیس کی شیلنگ اور گولیوں کی بوچھاڑ کی پرواہ کیے بغیر حق پر مرمٹنے والے رب کائنات کے آگے سربہ سجود ہیں ۔عورتیں قبلہ اول کی حفاظت کی خاطر اپنے خون کا نظرانہ دے رہی ہیں ۔گزشتہ تین دنوں کے دوران تین سو نہتے فلسطینی شہید کئے گئے،انہیں بے دردی سے گھسیٹا اور مارا جارہا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلامی دنیا سے اُف تک کی اواز سنائی نہیں دے رہی ، سوائے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان کے، انہوں نے اسرائیلی بربریت کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ باقی مسلمانوں کے جسم میں موجود امت محمدی کا پرجوش خون شاید جم گیا ہے ۔انہیں اسرائیل کے ساتھ اپنی تجارت اور سفارتکاری کو فروغ دینے کے مقابلے میں فلسطینی مسلمانوں کی یہ قربانی کوئی بڑی بات نظر نہیں آ رہی۔ ان کے خیال میں حالات کیسے بھی ہوں  اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں کسی قسم کی دراڑ نہیں آنی چاہئیے ،گویا یہ صرف فلسطینیوں کا مسلہ ہے ،جس کا سامنا انہیں خود کرنا ہے اور اس کا حل بھی خود ہی نکالنا ہو گا ۔ایک ارب ستاون کروڑ مسلمانوں کی یہ خاموشی بہت بڑا سوالیہ نشان جو ہمارے دلوں کی چیر رہا ہے۔ کیوں ہماری زبانیں گُنُگ ہو گئی ہیں ؟ کیوں ہمارا خون جوش نہیں مار رہا ؟ ہمارے دست وبازو کیوں اپاہچ ہو گئے ہیں ؟ کیا ہم ایمان کے اس کمزور درجے پر بھی نہیں ہیں کہ باطل کو باطل کہنے کی طاقت بھی سلب ہو گئی؟ کیا ہماری رگوں میں وہ خون موجود نہیں تھا جو مظلوموں کی پکار پر ظالموں پر بجلی بن کر گر جاتا تھا؟ ہماری تلوار کی کاٹ سے باطل کے وجود پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا ۔ کہاں گئے ہمارے مسلمانی کے دعوے؟ کیا صرف نماز پڑھنا روزے رکھنااور تسبیح رولنا ہی ایمان ہے ؟مظلوموں کے حق میں بولنے اور ان کا ساتھ دینے کی ریت کیا دم توڑ گئی ہے؟   اس ظلم کے خلاف اور مسجد اقصی کے تقدس کی پامالی کے خلاف کوئی جلسہ کوئی جلوس،کوئی مذمتی قرار داد سامنے نہیں آئی ۔کسی نے اسرائیل کا بائیکاٹ نہیں کیا ،کوئی آواز فلسطینیوں کے حق میں سنائی کیوں  نہیں دے رہی؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔   شاید اس لیے کہ عمر بن خطاب کا زمانہ گزر گیا جو مظلوم کے خون کے ایک قطرے کے بدلے ظالم کے خون کا سمندر بہا دیتے۔  خالدً بن ولید موجود نہیں جس کی تلوار اسرائیل پر زلزلہ بن کر نازل ہو جاتی۔ کوئی طارق بن زیاد ،کوئی محمد بن قاسم، کوئی حجاج بن یوسف بے گناہ فلسطینیوں کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے موجود نہیں ۔ان کا مقابلہ غاصب اسرائیلی فوج سے ،اس کے طاقتور اسلحے اور مشین گنوں کی گھن گرج سے ہے ۔انہیں صرف جذبہ ایمانی کے سہارے صہیونی طاقت سے لڑنا ہے۔ کوئی اور مسلمان ملک ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں کیونکہ انہیں اپنے مفادات کے سامنے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ۔ پچھلے پچھتر سالوں سے ظلم و جبر کے آگے ڈٹ جانے کی مثال جو انہوں نے پیش کی ہے آئیندہ بھی کرتے رہیں گے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اسلام سے محبت کے دعوے دار اپنی غیرت کا سودا کیے بیٹھے ہیں۔                                                                                                                  ۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ