ہنزہ نیوز اردو

اپنا ووٹ جذبات سے نہیں شعور کیساتھ دیجئے گا

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

بہت ہوگئی مہرباں آتے آتے یقیناً مایوسی کفر ہے اللہ اپنے مستحق حقدار بندوں کیساتھ ہمیشہ سے رہتا ہے بس وقت کی آزامائش سے گزارتا ہے جنکا کوئی نہیں ہوتا ان کا رب انہیں تنہا نہیں چھوڑتا۔ پاکستان وہ ملک ہے جہاں انتخابات کی کامیابی کیلئے اخلاقیات و تہذیب دفن کردی جاتی ہیں ہمارے دوست صحافیوں مجھ ناچیز سے کہیں زیادہ بہتر جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ٹھہرے پانی سے بہتے پانی کا وضو بہتر رہتا ہے آپ اس بات کو یوں سمجھ لیجئے کہ مورثی معاملات کبھی بھی سودمند نہیں رہتے۔ سالہا سال اقتدار میں رہنے والے گر مستحقین اور جائز حقدار کے حقوق کو نہ سمجھ سکیں تو انہیں مزید باری دینا خود پر ظلم کے مترادف ہوگا۔ جب سرپرست اور ذمہ دار بنتے ہیں تو ان منتخب سرپرست اور ذمہ داروں کو اپنی ذمہ داریاں عدل و انصاف سچ و حق پر متعین کرنی چاہئے لیکن نتیجہ میرے صحافی دوستوں کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے۔ ہر بار کی طرح عادتاً دلاسے وعدے اور بیانات سے مزید ممبران کو گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔ عملی اقدام کیلئے کہنا نہیں پڑتا بلکہ عملی اقدام خود نظر آتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں حقائق اور سچائی کو۔ اس ماہ کراچی پریس کلب میں سالانہ انتخابات ہونے جارہے ہیں یہ ہر ممبر کی ذمہداری بنتی ہے کہ وہ ہر امیدوار کو ہر پہلو سے جانچے پرکھے اور مشاہدے کے بعد فیصلہ کرے نہ میری نہ تیری باتوں میں آکر اپنے قیمتی ووٹ کو ضائع کرے۔ سب سے پہلے یہ جانے کہ کیا کراچی پریس کلب اپنے صحافیوں کے مسائل کے ادراک میں کس قدر سنجیدہ رہا۔ کیا بیروزگار و کم تنخواہ دار ممبران کی حکومتی گرانٹس سے بیماری میں مالی مدد کی۔ کیا بیروزگار و کم تنخواہ دار صحافیوں کے بچوں کی تعلیم کو جاری رکھنے کیلئے تعلیمی فنڈ قائم کیا گیا اور اگر کیا تو کس کسوٹی پر امداد کی گئی۔ کیا بیروزگار صحافیوں کے معاشی قتل پر ابتک سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائر کی۔ کیا نئے ممبران کیلئے پلاٹ کے حصول کیلئے درخواست جمع کرائی۔ کیا کلب ممبران کی ہیلتھ انشورنس کارڈ کیلئے اقدامات کیئے۔ کیا کراچی پریس کلب میں ہیلتھ کلینک کو دوبارہ فحال کیا۔ کیا ایمرجنسی کی صورت میں کراچی پریس کلب کی ایمبولیس کا اہتمام کیا۔ مانا کہ کینٹین آفس اور واش روم کو از سر نو آباد کے چیئرمین محسن شیخانی پاکستان اسٹاک ایکچینج کے روئے رواں عقیل کریم ڈھیڈھی کی نظر عنایت کے طفیل مزکورہ کام شروع کیئے گئے جس پر تمام ممبران ان صاحبان کا شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن اس سے براہ راست بیروزگار و کم تنخواہ دار صحافی کی زندگی پر کیا موثر اثر پڑیگا۔ ان امور کا ہونا ایک جانب بہتر تو ہے مگر اس سے کہیں زیادہ متاثر صحافیوں کی داد رسی اور مشکلات سے نکالنا انتہائی ضروری تھا جو آج تک عملی طور پر نظر نہ آئے۔ ہمارے پیٹ بھرے چند ذمہداران دوست شائد سفید پوش عزت نفس رکھنے والے صحافیوں کی مجبوریوں اور ضروریات کو نہیں سمجھ سکے سمجھتے تو بہتر تھا اگر آپ کچھ نہ کرسکیں تو کم از کم دوسروں کو نہ روکیں کیونکہ کراچی پریس کلب کسی سیاسی جماعت کے ماتحت نہیں اور نہ ہونی چاہئے البتہ تمام سیاسی جماعتیں اور رہنما ہمارے کیلئے انتہائی قابلِ احترام تو ہیں مگر ان کی ہدایات کے ہم پابند نہیں کیونکہ کراچی پریس کلب صحافیوں کا ہے یہاں کے فیصلے اور لائحہ عمل کرنے کا یہیں کے صحافیوں کا حق ہے۔ کراچی پریس کلب اپنے فیصلوں میں ہم پینل کیساتھ ساتھ مخالف پینل کو بھی شامل کرتا رہے تاکہ کسی بھی فیصلے اور عمل کو آخری شکل دینے سے قبل مشاورت کی جاسکے تاکہ سو فیصد نتیجہ بہتر برآمد ہوسکے آج تک ایسا ہوا نہیں لیکن مستقبل میں امید کی جاسکتی ہے۔ آخر میں ایک بار پھر کراچی پریس کلب کے ووٹرز سے کہوں گا کہ خدارا اپنا ووٹ جذبات سے نہیں شعور کیساتھ دیجئے گا

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ