ہنزہ نیوز اردو

اقوام متحدہ کی وجود کی کہانی

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

جنگ عظیم (اوّل)(۴۱۹۱ء ت۸۱۱نومبر ۸۱۹۱ء) کی تلخ یادیں ابھی زندہ تھیں۔ اس عالمگیر جنگ کی تباہ کاریوں اور مالی و جانی نقصانات سے دنیا کو بچا نے کی غرض سے ولایت کے ایک ہفتہ وار اخبار”لسنز“نے دنیا بھرکے ممتاز دانشوروں اور مدبرین اور کام نگاروں کو ایک مضمون تحریر کرنے کی دعوت دے دی گئی۔ جس کا عنوان تھا ”اگر میَں دنیا کا ڈکٹیٹر ہوتا تو“دنیابھر میں قیام امن کے لئے آپ کے پاس کیا تجاویز ہونگی؟ مضمون نگاروں کا یہ مقابلے میں کل ۲سو اہم شخصیات نے حصہ لیا اور اپنی اپنی تجاویز پیش کردیں۔ بہتر کالم نگاری کا یہ اعزاز اُس وقت کے اسماعیلی مسلمان برادری کے روحانی پیشوا رائیٹ آنریبل سر سلطان محمد شاہ آغاخان (سوئم) نے جیتا۔ اُنھوں نے دنیا بھر میں قیام امن کے لئے جو کچھ اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ان میں سے اہم نکات یہ تھے۔
”عالمی سطع پر قیام امن اور دنیا کو ایک اور جنگ سے بچانے کی خاطر ہمیں دنیا بھر کی تمام افواج کو کم کرنا پڑے گا۔ سمندری، بری اور دیگر افو اج اور بحری بیڑوں کو نا بود کر کے نیز تخفیف اسلحہ کے لئے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت پر میَں زور دوں گا خود مختار ممالک کیافواج کی مدد کے لئے نیم فوجی دستے قائم کروں گا۔ یہی دستے پولیس کی فرائض منصبی میں بھی مدد گار ہونے کے پا بند ہوگے۔ کسی بھی ملک نے جارحیت کی یا اس قسم کے حالات پیدا ہوئے تو طاقت کے استعمال کے لئے بین الاقوامی ادارے کی ذمہ داری ہو گی کہ جارحیت کے خاتمے اور انصاف کی فراہمی کے لئے طاقت کے استعمال کا حکم دیں۔ اس عالمی انجمن کی رکن ہر ایک آزاد مملکت (ریاست) ہوگی۔ اس عالمی ادارے کا تمام اراکین ممالک سال میں ایک بار تمام ممالک کے سر براہان یکجاء ہونگے اور اپنے اپنے ممالک کو درپیش مسائل سے عالمی ادارے کو باخبر کرینگے“۔
ان تجاویز پر مشتمل یہ کالم نومبر کے تیسرے ہفتے ۱۳۹۱ء کو منظر عام پر اوپر بیاں شدہ ہفتہ روزہ اخبار میں آئی۔
ان تجاویز کی تائیدسب سے پہلے بر طانیہ کے اُس وقت کے وزیر اعظم ”لائینڈر جارج“ نے کیا۔
اس کے بعد امریکہ کے سابق صدر ر وزویلٹ اور برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ولسٹن چرچل نے بھی آغاخان (سوئم) کی عالمی امن عامہ کے لئے تجاویز سے اتفاق کیانیز اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ اس انجمن کے قیام کے لئے عملی اقدامات کا آغاز کیا جائے۔ اس مصقصد کی حصول کی خاطر سان فرانسسکو میں ۵۲ اپریل تا ۵۲ جون۲۴۹۱ء کوایک اجلاس منعقد ہوئی۔
اس عالمی انجمن کے نام کی تجویز امریکہ کے سابق امریکی صدر ”روز ویلٹ“ نے ”یو نائیٹڈ نیشن“ کیا اور در اصل اقوام متحدہ کا خالق شمس الہمایوں سَرآغاخان تھے اس طرح ۴۲۔ اکتو بر ۵۴۹۱ء کو لندن میں اس وقت کے تمام تر آزاد ریاستوں کے سر براہان مملکت نے شرکت کر کے اس کا قیام عمل میں لا یا۔ اقوام متحدہ کے دستور (چارٹر) کو حتمی شکل دیدیا گیا۔ اس چارٹر کی چند اہم نکات مندرجہ ڈیل ہیں (۱) قوموں کی باہمی تنازعات کو حل کرنے کے لئے بین الاقوامی قوانین بنا نا، تنازعات کو اُن قوانین کے ذریعے حل کروانا او ر نیز ایسے اقدامات کرنا جو کہ جن سے امن کو لاحق خطرات اور جارحیت کو روکا جا سکے۔
(۲) آئیندہ نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچایا جائے گا۔
(۳) انسانوں کے بنیادی حقوق کے بارے میں یقین و احترام مکی فضاء قائم کرنا نیز رنگ نسل زبان، مذہب اور جنس کی بنیاد پر امتیازات کے بغیر انسانی حقوق کو تسلیم کروانا۔
(۴) بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے مثبت اقدا مات کرنا۔
(۵) باہمی آزادی و خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے اقوام عالم کے مابین اچھے تعلقات اور دوستی کا فروغ لیکن اقوام کو ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت سے روکنا۔
اقوام متحدہ کے سر براہ سیکریٹری جنرل ہوتا ہے جس کو دنیا کا غیر سر کاری وزیر اعظم بھی کہا جاتا ہے۔ ہر ایک براعظم کو اس عہدے کے لئے دس سال کا عرصہ دیا جا تا ہے۔ البتہ پانچ سال ایک سیکریٹری جنرل کے لئے مددّت دی جاتی ہے اور ایک دو مرتبہ اس عہدے کی طلب کے لئے جد و جہد کرسکتا ہے اس عظیم منصب پانے والے خوش نصیبوں میں سب سے پہلی ہستی ”سر گلیڈ ون جیب“ قائم مقام کے طور پر تھا جس کا تعلق بر طانیہ سے تھا۔ انھوں نے یہ منصب ۴۲۔ اکتوبر۵۴۹۱ء تا ۰۲ جنوری۶۴۹۱ء تک سنبھال لیا اس کے بعد ٹرے گولائی آئے جس کا تعلق ناروے سے تھا۔ اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل بنا جس نے ۲۔ فروری ۶۴۹۱ء سے لیکر۰۱۔ اپریل ۳۵۹۱ء تک اپنے فرائض منصبی سر انجام دیئے۔ اُن کا جانشین سوئڈن کے با شندے ڈایگ ہیمر شولڈ تھے۔ آپ۱۱۔ اپریل ۳۵۹۱ء دنیا کا غیر سر کاری وزیر اعظم بنے جو ایک سفارتی مشن کے دوران ایک فضائی حادثے میں ۷۱ ستمبر ۱۶ ۹۱ء کے روز جانبحق ہوئے۔ اقوم متحدہ کے چوتھے سیکریٹری جنرل برما(میانمار) سے تعلق رکھنے والے جنرل ایوتھانٹ کو قسمت نے یہ عہدہ دیدیا جو اس سے قبل اپنے ملک کے کمانڈر انچیف ریئے تھے۔ جنرل ایوتھانٹ نے یہ منصب۹۱ ستمبر ۱۶۹۱ء سے لیکر۱۳۔ دسمبر ۱۷۹۱ء سنبھال لیا ان کا جانشین آسٹریا کے ایک سیاستدان ڈاکٹر کرٹ والڈ ہیم تھے جو کہ یکم جنوری ۲۷۹۱ء سے دو بار یعنی یکم جنوری ۲۸۹۱ء تک خدمات سر انجام دیتے رہئے۔ کرٹ والڈ ہیم کے جانشین کے انتخاب کے لئے دو اہم شخصیات نے اپنی قسمت ازمائی کی۔ایک اقوام متحدہ میں سابق مہاجرین کے ہائی کمشنر ہز ہائینس پرنس صدر الدین جو کہ اس عالمی ادارے کے خالق ّغاخان (سوئم) کے فرزند اصغر تھے جب کہ دوسری شخصیت ڈاکٹر ہاوئیر پیریز ڈی کوہیار جو کہ اس سے قبل انڈر سیکریٹری جنرل رہ چکے تھے۔ امریکہ نے صدرالدین آ غاخان کو ویٹو کر کے یہ میدان پیریز ڈی کو ہیار کے لئے ہموار کر دیاور اس طرح دنیا کا غیر سر کاری وزیر اعظم بنا ان کا متعلق امریکی ریاست پیرو سے تھا اور یکم جنوری ۲۸۹۱ء سے لیکر ۱۳دسمبر۱۹۹۱ء تک اپنے منصب پر فائض رہئے۔ اقوام متحدہ کے ساتھوں سیکریٹری جنرل کے لئے تین امیدوار میدان میں اترے تھے جن میں اس؎ ادارے کے مہاجرین سے متعلق مہاجرین کے رابطہ آفیسر اور عراق و کویت کے درمیان سر حدی تنازعہ کے تصفیہ کار ی مشن کے سر براہ جو اس سے قبل مہاجرین کے ہائی کمشنر تھے ایک بار پھر صدر الدین آغاخان دوسرے نمبر پر تنزانیہ کے سابق وزیر اعظم سلیم احمد سلیم جبکہ تیسرے عالمی رہنما مصر کے سابق نائب وزیر اعظم ڈاکٹر بطروس غالی تھے پہلے کی طرح امریکہ نے صدر الدن کو ایران کی شہریت کے سبب اور چین نے سلیم احمد سلیم کو ویٹو کر دیا اور یہ منصب ڈاکٹر بطروس غالی کی قسمت میں گیا انھوں نے یہ عہدہ ۲۹۹۱ء سے لیکر ۶۹۹۱ء تک سنبھال لیا۔بطروس غالی کا جانشین انڈر سیکریٹری جنرل کوفی عنان جو اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلا سیاہ فام تھا اور بر اعظم افریقہ کے ملک گھانا سے کا شہری رہا۔ یکم جنوری ۷۹۹۱ء سے ۱۳۔ دسمبر ۶۰۰۲ء یعنی دو ادوار میں اس عہدے پر فائض ریئے۔ اب قسمت نے باری دی بانکی مون کو جو اُس وقت تک جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ تھے یکم جنوری ۷۰۰۲ء کو اس عہدے کو قبول کر کے حلف لیا اور دس برس تک اس عہدے پر رہنے کے بعد۱۳۔ دسمبر ۷۱۰۲ء کو سبکدوش ہوئے۔ بانکی مون کے بعد یکم جنوری۸۱۰۲۔ کو اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ہائی کمشنر اور اپنے ملک پُرتگال کے سابق وزیر اعظم انتینو گوترس سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ جو مو جودہ سیکریٹری جنرل ہیں۔
اقوام متحدہ کی تاکے لئے ریخ میں مستقبل قریب میں اس منصب کی طلب ایک خاتون نے بھی میدان میں اترنے کی خواہش کا اظہار کی ہے جس کا نام ہے”انجیلا مرکل“۔ اگر یہ خاتون اس منصب کے لئے منتخب ہوتیں تو ان کو پہلا خاتون دنیا کا غیر سر کاری وزیر اعظم ہونے کا اعزاز پائینگی۔
مو جودہ سیکرٹری جنرل انتینو نینو گوترس نے گزشتہ برس اپنے دورہ پاکستان کے دوران عالمی ادارے کی نا کامیوں کا تبسرہ کرتے ہوئے لاہور کی لمز یونیورسٹی کے طلبہ سے مخاطب ہو کر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ”اس وقت دنیا بھر کے ممالک کے درمیان عدم توزن ہے جس کی ایک مثال کل ممالک میں بسے صرف پانچ عالمی طاقتور ممالک کو ویٹو کا حق حاصل ہے اور باقی ماندہ محروم ہیں۔
اقوام متحدہ کی تا حال دوسری بڑی نا کامی کشمیر کا مسئلہ کے حل میں جو اس مذکور ادارے کے قیام سے تین برس پرانا ہے اب تک وہاں مکےء عوام کو آزادی سے بھارت کی ہٹ دھرمی کے سبب محروم رکھا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کی چھیاتر سالہ تاریخ میں جہاں اس کی کامیابیوں کا تذکرہ نہ کروں تو یہ قلمی خیانت ہوگی۔
جب ۱۷۹۱ء میں جنرل ایوتھانٹ اس کے سر براہ تھے اور پاک بھارت جنگ چھڑ گئی تومو جودہ ملک بنگلہ دیش میں پاکستان کے افواج پھنس گئے تو اوپر ذکر شدہ صدرلدین آغاخان جو پہلے بیاں کر چکا ہوں کہ مہاجرین کے ہائی کمشنر تھے نے پاک فوج کو واپس اپنے ملک کی واپسی کے لئے کلیدی کردار ادا کیا اس کا کریڈٹ پہلے جنرل ایوتھانٹ اور بعد ازاں صدرلدین آغاخان کو جا تا ہے اور ایک کامیابی کا تذ کرہ عراق کویت سر حدی تصفیہ کا ہے جس کا بھی اوپر بیاں ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ