ہنزہ نیوز اردو

اجتماعی تعلیمی اداروں کی ضرورت

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[/author][author image=”http://urdu.hunzanews.com/wp-content/uploads/2016/02/1.jpg” ]پروفیسرراحت شاہ[/author]

انسان اگر نیکی کا ادارہ کرے تو سب سے پہلے اپنی ذات کو تربیت کرنے لگتا ہے اور اپنے خیالات میں خلوص اور لوگوں سے محبت کرنے کی حکمت عملی بناتا ہے اور اس اپنی تمام حکمت عملی کو تقویت دینے کیلئے وہ علم کا ہی سہارا لیتا ہے کیوں کہ علم انسان کے اندر اعتماد، خلوص، لوگوں سے محبت، عاجزی غرض ہر وہ اچھی صفت پیدا کرتی ہے جس سے انسان معاشرے کے ایک فعال رکن بن جاتا ہے اور ہر اس برائی سے روک لیتی ہے جس سے معاشرے میں عناد، بغض،تعصب اور دیگر معاشرتی تعفن پھیل جاتا ہے۔
لیکن گلگت بلتستان کے مختلف حدود اربعہ کے تناظر میں تعلیم کا کردار کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئے گی کہ علاقے میں رائج نظام تعلیم جس مایوس کن انداز میں ہماری قوم کو ایک ناامید مستقبل کی طرف لے کرجارہا ہے اورجس کے نتیجے میں آج کے اس بیمار تعلیمی ڈھانچے میں پڑھنے والے نام نہاد پڑھے لکھے نوجوان اپنی بنیادی فرائض سے غافل علم ہی کے ذریعے اپنے اندر نفرتیں اور تعصب پھیلانے کا سبب بنتے جارہے ہیں جہاں علم اور مقصد ایک اجتماعی سوچ دینا ہوتا ہے وہاں کل یہ نوجوان ہمارے قوم کو متضاد راستوں پر رہنمائی کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ 
گلگت بلتستان ایک غیر صنعتی اور غیر زرعی علاقہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا تمام تر توجہ تعلیم پر ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق گلگت بلتستان میں خواندگی کی شرع 85فیصد تک پہنچ گیا ہے اور معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اس بیمار تعلیمی ڈھانچے کا حصہ بنتا چلا جارہا ہے ۔
گزشتہ20سالوں کے دوران گلگت بلتستان میں تعلیم کا جس انداز میں استحصال ہوا ہے اس کا احاطہ زیر نظر مضمون میں ممکن نہیں البتہ فرقہ وارانہ بنیاد پر جس انداز میں گلگت بلتستان میں گزشتہ دو عشروں میں تعلیم کا بٹوارہ ہوا ہے اس پر فل وقت غور کرکے اقدامات نہ کئے گئے اور معصوم طالب علموں کو مخصوص مکاتب فکر کی اثر سے باہر نکال کر ایک اجتماعی سوچ دینے کی کوشش نہ کی گئی تو پھر کل کا ہمار ا قومی مستقبل بہت اندوہناک ہوگاکیوں کہ تعلیم کے شعبے میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے اثرات مثبت یا منفی دونوں صورتوں میں عشروں بعد نظر آتی ہے ۔
موجودہ صورتحال میں گلگت شہر اور اس کے مضافات میں تینوں مکاتب فکر کے لوگوں نے اپنے اپنے تعلیمی ادارے کھولے ہیں جہاں پر سائنسی مضامین کی تعلیم بھی مخصوص فرقہ وارانہ سوچ کے مطابق دی جاتی ہے۔
جیسے کہ عنوان بالا میں ذکر ہوا ہے کہ علم انسان کے اندر موجود سوچ کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور یوں جو بچے ان مخصوص سوچ کے حامل اداروں سے فارغ ہوکر کل ریاستی اور سماجی ذمہ داریاں سنبھالیں گے تو ان کے اندر کوئی مشترکہ سوچ نہیں ہوگی اور نہ ہی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہوگی کیوں کہ غیر محسوس انداز جس طرح سے فرقہ وارانہ بنیاد پر قائم ادارے ان بچوں کو ایک دوسرے سے دور کرتے چلے جاتے ہیں اور تعلیم ہی کے نام پر روشنی پھیلانے کے بجائے نفرتیں پھیلائی جارہی ہیں۔
ایسے میں کل یہ پڑھے لکھے نوجوان ایک مشترکہ فورم پر بیٹھ کر ریاستی مفاد میں کام کرنے کے بجائے اپنے مخصوص گروہ اور فرقے کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آئیں گے جس کے کم و بیش علامات دفاتر میں آج بھی محسوس کئے جاتے ہیں اور یوں ایک غیر متوازن سوسائٹی وجود میں آنے کے آثار نمایاں ہوتے ہیں ۔
لہٰذا حکام بالا سے اپیل ہے کہ موجودہ فرقہ وارانہ بنیاد پر قائم تعلیمی ادارے بالعموم اور پرائیویٹ اداروں کیلئے بالخصوص کوئی ایسی حکمت عملی تیار کرے جس کے ذریعے علاقے کے تمام طلباء کو ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے اور بچوں کی معاشرتی روابط جوکہ گزشتہ کئی عرصوں سے منقطع ہیں کو دوبارہ مثبت انداز میں آگے بڑھایا جاسکے تاکہ طلباء کا ایک دوسرے کیلئے خلوص محبت اور مثبت خیالات جنم لے سکے۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ