[author image=”http://urdu.hunzanews.com/wp-content/uploads/2015/04/11150176_852333084827693_5684341531789167618_n.jpg” ]ثناء غوری[/author]
اس حقیقت سے کسے اختلاف ہوگا کہ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ مذہب، فرقہ، زبان، سیاست اور علاقائی حوالوں سے ہمارے وطن میں دہشت پھیلانے کا سلسلہ عرصہئ دراز سے جاری ہے، لیکن مذہب اور وہ بھی اسلام جیسے امن اور رحمت کے دین کا نام استعمال کرکے جس طرح ملک میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور کھیلی جارہی ہے، وہ بہ حیثیت پاکستانی اور مسلمان ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔
دہشت اور وحشت کے ہرکارے اپنی جہالت اور سفاکی کو مذہب کا لبادہ پہنا کر ہم پر اور ہمارے دین پر جو ستم ڈھارہے ہیں اس کی خون سے لکھی کہانیاں آرمی پبلک اسکول پشاور سے باچہ خان یونی ورسٹی چارسدہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اب تک یہ سمجھا اور کہا جاتا رہا کہ درندگی کی یہ یلغار اور وحشت کے یہ حملے ڈرون حملوں کا ردعمل، انتقام اور مذہب کے نام پر من مانے قوانین کے ساتھ ریاست پر قابض ہونے کی کوشش ہے، لیکن یہ سچ سامنے آہی گیا کہ دہشت گردی کی ان کارروائیوں کے پیچھے پاکستان کے دشمن ممالک کا ذہن، منصوبہ اور پیسہ کام کر رہا ہے۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے حال ہی میں اپنی زیرصدارت ہونے والی کورکمانڈرز کانفرنس میں یہ کہہ کر ہماری دشمن ایجنسیاں دہشت گردوں کو فنڈز فراہم کرتی ہیں، ایک بار پھر اس حقیقت کا واشگاف الفاظ میں اعلان کردیا ہے کہ ان دہشت گردوں کے پیچھے بیرونی قوتیں ہیں۔ یعنی مقصد صرف پاکستان کو غیرمستحکم کرنا اور معاشی و انتظامی بحران کا شکار رکھنا ہے۔ ملک کے اہم حلقوں کی جانب سے اس سے پہلے بھی اس امر کی نشان دہی کی جاتی رہی ہے کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر ہونے والی دہشت گردی ہو یا بلوچستان میں بدامنی، اس سے کے پیچھے بیرونی قوتیں اور ان کے وسائل ہیں، اس ایشو پر ملک میں بات ہونی چاہیے تھی اور اسے عالمی سطح پر بھرپور انداز میں اٹھایا جانا چاہیے تھا، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہ ہوسکا۔
ہو یہ رہا ہے کہ جس ملک پر دہشت گردی عذاب بن کر مسلط ہے، وہاں اس کے اصل اور بڑے سہولت کاروں کے خلاف ملک میں ہم آواز ہوکر صدائے احتجاج بلند کرنے اور اس ایشو کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے بہ جائے ہمارے حکم رانوں اور سیاست دانوں کی توجہ دوسرے مسائل اور معاملات پر ہے۔
کوئی کسی ادارے کی نجکاری کو ملک کی سالمیت سے جوڑ کراس کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہے تو کسی کے لیے ایک”ڈاکٹر صاحب“ کی گرفتاری زندگی اور موت کا مسئلہ بنی ہوئی ہے، کوئی حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے پر تول رہا ہے تو کوئی کسی مقدمے میں ریلیف پر جشن منانے میں مصروف۔ کرکٹ میں ہارجیت بحث سے ایران اور سعودی عرب کے مابین تنازعے میں سعودی اور ایرانی بن کر اکھاڑے میں اترنے تک، ہمارے پاس اتنی مصروفیات اور مشاغل ہیں کہ اپنے ملک کے اس اہم ترین ایشو پر آواز اٹھانے کی کسی کو فرصت نہیں۔
بھارت میں دہشت گردی کا کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی ہوجائے تو حکومت میں شامل افراد سے سیاست دانوں اور میڈیا تک سب کی توپوں کا رُخ پاکستان اور آئی ایس آئی کی طرف ہوجاتا ہے اور آستینیں چڑھاکر جنگ کی دھمکیاں دی جانے لگتی ہیں۔ ساتھ ہی بھارتیوں کی طرف سے ایسے واقعات کو جواز بنا کر دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں، جو ”دشمن ایجنسیوں“ کی اپنے ملک میں دہشت گردی میں معاونت کے ثبوت رکھنے کے باوجود چُپ شاہ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔
پاک فوج کے سپاہ سالار کا یہ کہنا کے دہشت گردی کی فنڈنگ دشمن ایجنسیاں کر رہی ہیں، ملک کے دفاع کے اہم ترین ادارے کے سربراہ کا پوری سنجیدگی کے ساتھ دیا جانے والا بیان ہے۔ جو حقیقت جنرل راحیل شریف نے بیان کی ہے اس سے ہمارے حکم راں اور سیاسی جماعتیں اچھی طرح واقف ہیں، مگر حیرت ہے کہ پھر بھی اس ایشو پر عالمی سطح پر تو کجا اندرون ملک بھی اس زورشور سے اور کُھل کر بات نہیں کی جارہی، جس کا یہ ایشو تقاضا کرتا ہے۔
وزیرخارجہ جیسے اہم منصب سے محروم ہمارے ملک کا وزیراعظم اور خارجہ پالیسی سے متعلق کوئی عہدے دار اس ایشو کو عالمی سطح پر کیوں نہیں اٹھاتے؟ ہم سے ”ڈو مور“ کے تقاضے کرنے والوں اور ہمارے اداروں پر مختلف عسکری گروہوں کی مدد کرنے کا الزام لگانے والوں سے کیوں نہیں بتایا جاتا کہ پاکستان کس طرح بیرونی مداخلت کا شکار ہے، جس کی روک تھام کی جانی چاہیے۔ ہم پر دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود دہشت گردوں کی معاونت کا الزام عاید کیا جاتا ہے، ہمیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ہماری قومی ساکھ مجروح کی جاتی ہے، اور اس سارے عمل میں ہمارے دشمن ممالک اور ان کی لابیز پیش پیش ہوتی ہیں، لیکن نہ جانے کون سے مجبوری ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کی کارستانیوں سے پردہ اٹھانے سے کترا رہے ہیں۔
اس حوالے سے حکم رانوں کا طرز عمل اپنی جگہ، مگر سیاسی جماعتوں نے کیوں چپ کی چادر اوڑھی ہوئی ہے؟ اس خوف ناک بیرونی مداخلت کے خلاف بھرپور مہم چلاکر نہ صرف قوم کو حقائق سے آگاہ کیا جاسکتا ہے بل کہ حکومت پر بھی دباؤ ڈالا جاسکتا ہے کہ وہ دنیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر اس ایشو کو اٹھائے، لیکن ہماری سیاسی جماعتوں، وہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں، کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ بھلا جو لطف اور فائدہ اپنے ہم وطن سیاسی مخالفین پر جھوٹے سچے الزام لگانے، باہمی تنازعات میں الجھے رہنے اور ایک دوسرے سے لڑتے رہنے میں ہے، وہ سرحد پار بیٹھے ہمارے ملک کے دشمنوں کی سازشوں کی رونمائی میں کہاں۔
ویسے تو ملک میں بہت شور ہے، لیکن اس ایشو پر اتنی خاموشی ہے کہ ایک مشہور فلم کا یہ مکالمہ بہ آواز بلند دہرانے کو دل چاہتا ہے،”اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟“