ہنزہ نیوز اردو

آپ بیتی آغاخان اور قومی اخبارات کے آئینے میں

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

(قسط نمبر ۱)
رائیٹ آنریبل سَر آغاخان(سوئم) نے مسلمانان ہند و پاک کے لئے سر سید احمد خان کی مسلمانوں کے لئے بنائی گئی تعلیمی مر کز (مدرسہ العلوم) کو یونیورسٹی کا درجہ دلا کر سر سید کی اس خواہش کی تکمیل کر دی اور جدید علوم سے مسلمانوں کو روشناس ہونے کا سُنہری موقع بخش دیا گیا۔ اس تحریک کا آغاز آپ نے۲۲۔ دسمبر۶۹۸۱ء کوسر سید احمد خان سے ملاقات میں ایک ولولہ انگیز خطبے سے کی۔ اس مضمون میں ہم ان کی قومی خدمات کا جائزہ ان کی اہم تقاریر اور علی گڈھ کالج کو ترقی دلانے کے واسطے برصغیر کے کونے کونے سفر کی داستان اس زمانے کی ممتاز قومی اخبارات کی تراشوں کی فائل کی وساطت سے ابتداء کرینگے۔آغاخان کی اس تقریر کے بارے میں جو سر سید احمد خان کے ساتھ ملاقات کے دوران کیا تھا قیوم ملک نے لکھا ہے کہ”آغاخان نے ایڈریس کا جو جواب دیا وہ ٹھوس حقائق سے بھر پور تھا۔ اس میں اتنی معنوئیت،جامیعت اور مستقبل کے بارے میں رجائیت موجود تھی کہ جس کا مسلم ہند نے خاص نوٹس لیا“۔ علی گڈھ میں آغاخان کا وَر دُر ایک عظیم تاریخی و ملّی جد و جہد کا نقطہ آغاز ثابت ہوااور یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں علی گڈھ نے اُن کا تعلق محض تعلق نہیں بلکہ پیر نیچر کے صحابی ہونے کی وجہ سے تعلق بلا فصل ہے۔ اس واقعہ کو آغاخان نے خود اپنی زندگی کا اہم واقعہ مقصود کرتے ہیں اور یاداشت میں لکھتے ہیں۔”میَں نے اپنے پہلے سفر میں مسلم ہندوستان کے بڑے بڑے مراکز اور مقامات دیکھے۔ علی گڈھ میں اینگلو اورینٹل کالج بھی دیکھا جیسا کہ وہ اُس زمانے میں تھااور وہاں پر سر سید احمد خان اور نواب مُحسن الملک (سید مہدی علی) سے ملا۔ یہ اُس چیز کی ابتدا تھی جو بعد میں بہت سالوں تک میری زندگی خاص اور اہم وابستگیوں میں رہ چکی ہے۔ یعنی مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم کو ترقی اور وسعت دینا اور خاص طور پر اس کالج کو علی گڈھ میں یونیورسٹی کو۔ اُس زمانے میں اُس کالج کی بہتری کے لئے میَں نے ایسی گرم جوشی کے ساتھ کام شروع کیا۔ جس کا مجھ کو کبھی افسوس نہیں ہوا۔۰۹۸۱ء۔۹۹۸۱ء کے درمیانی زمانے کاعلی گڈھ ایک قابل تعریف ادارہ تھا۔ مگر روپے کی کمی اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اس کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی تھیں۔ کیا مجھے اس وقت اس کااندازہ ہو گیا تھا، گو میَں نو جواں ہی تھا کہ اس کے اندر یہ صلاحیت تھی۔ آئندہ چل کر وہ اسلامی خیالات و ثقافت کا ایک بڑا ذخیرہ اور سر چشمہ بن جائے گاجو اسلامی روایات اور تعلیمات کے مطابق ہو گااور اس کے باوجود وہ ہمارے موجودہ زمانے کے نقطہ نظر اور اصلاحات سے ساز گار رہئے گا۔؟ اس وقت کوئی شخص ان واقعات کی پیشنگوئی نہیں کر سکتا تھا جو در اصل بعد میں پیش آئے۔ مگر میَں خوب جانتا ہوں۔ کہ میَں علی گڈھ کے میدان کو زیادہ وسیع کرنے اور اس کی افادیت کو زیادہ فروغ دینے کے لئے اگر ضرورت ہوا تو کسی آسان اور جلد ہونے والے اسباب کے ذریعے سے اس کے لئے روپے جمع کرنے کے لئے بے چین تھا۔ جیسے کہ میرے بدن میں آگ لگ رہی ہو۔ میَں نے اپنی جوان عجلت میں یہ سوچا کہ کسی بڑے امریکی بہی خواہ کے پاس کیوں نہ چلا جائے لیکن میرے نئے دوست (سید احمد خان اور محسن الملک) مجھ سے عمر میں بڑے اور مجھ سے زیادہ عقل مند تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں چھ یا سات کروڑ مسلمانوں کی جماعت کے اندر یہ ہماری ہی ذمہ داری تھی ہم علی گڈھ کے لئے روپے کا انتظام کریں اگر ہم باہر کے لوگوں سے مدد لینے کی کوشش کرینگے خواہ وہ مدد امریکہ کے سب سے زیادہ مالدار اور سب سے زیادہ انسانی بہبود کا خیال کرنے والے کروڑ پتی آدمیوں کی طرف سے ہو تو ہم ہمیشہ کے لئے بے عزت ہوجائینگے وہ در حقیقت بالکل صحیح کہتے تھے“۔(آپ بیتی۳۹۔۴۹)

تحریک علی گڈھ ۶۹۸۱ء تا ۰۵۹۱ء
آغاخان علی گڈھ کو اپنی زندگی کی طمانیت قرار دیا ہے وہ مذید اپنی یاداشت میں لکھتے ہیں ”مُہذب ممالک کی تاریخ میں کسی قوم کی دماغی اور روحانی احیاء اور اس کی نئی زندگی کے لئے یو نیورسٹی نے ایک سر چشمہ کا کام کیا ہے۔ ہمارے زمانے میں یہ کہا جاتا ہے کہ قسطنطنیہ میں امریکہ کے رابرٹ مشنری کالج کی وجہ سے بلغاریہ ایک آ زاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے دوبارہ پیدا ہو گیا۔ بیروت میں امریکی یو نیورسٹی کے قیام کا جو اثر عرب قومیت پر ہوا اس کا اندازہ کون لگا سکتا ہے؟ علی گڈھ اس کلیہ قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ مگر ہم فخر کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں۔ علی گڈھ ہماری کوششوں کا نتیجہ تھااور یقین کے ساتھ اس بات کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان آزاد اور خود مختار قوم علی گڈھ مسلم یو نیورسٹی کے اندر پیدا ہو گئی۔اب جب سب کچھ کہااور کیاجاچکا اور جب میں ان گزشتہ تمام گزشتہ باتوں کو دیکھتا ہوں تو بلا شبہ میری زندگی کا ایسا وقعہ ہے کہ جس کو سچی اور مستقل خوشی کے ساتھ تحریر کرتا ہوں اور جس کو میَں دل میں سو چا کرتاہوں، میَں صرف اس کے سیاسی نتائج پر ہی زور دینا نہیں چاہتا مگر وہ نہایت اہم ہوتے ہیں مسلم یونیورسٹی کے علاوہ اور کس مقام پر یہ ممکن ہو سکتا تھا کہ اسلامی عقائد اور اسلامی کلچر کا ایسا صحیح مرکز قائم کیا جائے اور اس کو برابر جاری رکھا جائے جہاں پر دار الکتب اور دار التجارت قائم کر کے اور ان سے پورا فائدہ اُٹھا کر وہ ساری سہولتیں پیدا کی جائیں جو ہمارے زمانے کی موجودہ دنیا کو اچھی طرح سمجھنے لے لئے نہایت ضروری ہے جس مرکز میں ہمارے مذہبی اصول، اس مذہب کی عالمگیر نوعیت، نئے زمانے اور نئی ایجادات سے اس کی صحیح مطابقت، اس کی لازمی اور ضروری مقبولیت، رواداری، اور دوسروں کے ساتھ فیاضیانہ سلوک نیز دوسرے مذہبوں کی عزت کرنے کی گہری خواہش ان سب کو اچھی طرح سمجھایا جا سکے ساتھ ہی ان پر عمل کیا جاسکے یہ واقعہ میَں نے ایسا مر کز قائم کرنے میں اپنا کام کیا میرے ان خیالات میں سے ہے۔ جو میرے لئے سب سے زیادہ خوش کرنے والے، اطمینان بخشنے والے اور دل کو مظبوط کرنے والے ہیں اور جن کو میَں اپنے بوڑھاپے تک اپنے دل میں یاد رکھوں گا“۔(آپ بیتی ص ۵۹)

مُسلِم تعلیمی کانفرنس دہلی
۹۲۔ دسمبر ۲۰۹۱ء کو مولوی ڈپٹی نظیر احمد دہلوی اور حکیم مُحمد اجمل خان دہلوی دونوں کی تجویز پر دہلی میں محمڈن ایجو کیشنل کانفرنس (مسلم تعلیمی کانفرنس) کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں آغاخان کو صدر منتخب کیا گیا۔ انہوں نے کانفرنس سے خطاب کیا اور مسلمانوں کی سماجی پستی اور فکری ابتری کا ذکر کیا نیز علی گڈھ کالج کو یونیورسٹی بنانے کے لئے ایک کروڑ کی سر مایہ جمع کرنے کا خیال ظاہر کیا۔ گویا آغاخان کو یہ چٹیک او ل روز سے تھی کہ اس درس گاہ کو یونیورسٹی کا درجہ دی جائے۔ بعد میں انھوں نے نواب مُحسن الملک کو اس بات پر آمادہ کر لیا۔ کہ وہ سارے برصغیر کا دورہ کر کے یونیورسٹی کے حق میں رائے عامہ ہموار کریں اور مسلمانوں کو اس منصوبے کی تکمیل کے لئے مالی اعانت کے لئے بھی راضی کیا جائے۔ کانفرنس کے اس اجلاس میں تمام مسلمان اکابرین موجود تھے۔ مولانا مُحمد امین زبیری مارہروی بھی شریک تھے۔ وہ اپنے تاثرات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں۔ ”مولانا نظیر احمد صدر محترم کی کرسی کے پاس آئے اور تحریک صدارت کی تقریر سے قبل ایک والہانہ انداز میں صدر محترم کو اس شعر سے مخاطب کیا۔
آفاق گر دیدہ اَم مہر نباں ورزیدہ اَم
بسیار خوباں دیدہ اَم اما تو چیزی دیگری
ترجمعہ؛دنیا بھر کی سیر کیا میَں نے، چاند جیسے چہرے دیکھا میَں نے،بہت سے معشوقوں کو دیکھا میَں نے مگر تم کچھ اور ہی لگتے ہو“۔
کانفرنس میں اور بھی باتیں زیر غور آئیں آغاخان کی صدارت میں جو قرار داد منظور ہوئی اس کا خلاصہ یوں ہے۔
(۱) تمام یونیورسٹیوں میں قانون کی کلاسیں جاری کر دیں جائیں اور قانون کی تعلیم کے لئے ایک مرکزی اسکول قائم کیا جائے۔
(۲)کانفرنس اپنے دائرہ عمل کو سندھ تک وسیع کردے تاکہ سندھ کے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کی ترقی و اصلاح کی کوشش کی جائے۔
(۳) پنجاب کے طلباء کی معافی فیس کے لئے سر کار کی توجہ مبذول کروائی جائے نیز مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے شبینہ مدارس قائم کئے جائیں۔
(۴) قومی یونیورسٹی کے قیام کے لئے صوبائی کمیٹیاں تشکیل دی جائے۔
کانفرنس کے دوران ہز ہائینس نے چندہ مہم کی بھی تجویز پیش کیا اور فرمایا کہ”یہ ہماری قوم کی حیات و وفات کا سوال ہے“۔
محمڈن ایجو کیشنل کانفرنس کے سلسلے میں ہز ہائینس مذید لکھتے ہیں کہ ”ڈیوک آف کناٹ کے دربار کے فوراً بعد ہم نے ایک مسلم تعلیمی کانفرنس دہلی میں منعقد کی۔ اپنی تقریر کے دوران میَں نے بعض ان تعلیمی منصوبوں پر مفصل تقریر کی جس میں سب سے زیادہ اہم علی گڈھ کا معاملہ تھا“۲۰۹۱ ء؁کے الفاظ پر نصف صدی گزرنے کے بعد جب ہز ہائینس خود اپنی محنت برائے علی گڈھ تحریک پر نظر ڈالتے ہیں تو بے ساختہ اُٹھتے اور تحریر کرتے ہیں۔”میرے یہ الفاظ جو اب سے پچاس برس پہلے کئے گئے تھے اُن تمناؤں کا خلاصہ تھے جو شروع ہی سے علی گڈھ کے متلعق ہیں اوراپنے دل میں رکھتا تھااور مجھے خوشی ہے کہ یہ تمنائیں میری زندگی میں ہی پوری ہوگئیں“۔(آپ بیتی ص۴۶۲)
قارئین کرام! آغاخان سوئم کی ۲۰۹۱ء ؁کی تعلیمی کانفرنس کی تقریر میں تمناء بھر کیا باتیں تھیں اس کامتن آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

”سب سے پہلا اور سب سے مقدم کام یہ ہے کہ اب ایک یونیورسٹی قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ یونیورسٹی ایسی ہو کہ جہاں علاوہ علوم جدیدہ کے نو جوانوں کو یہ بھی بتلایا جائے کہ اُن کا زمانہ گزشتہ کیسا باعظمت تھااور اُن کا مذہب کیسا تھا؟ اور وہ یونیورسٹی ایسی جگہ ہو جہاں طلباء رہئے اور جہاں مثِل آکسفورڈ کے کردار پر بہ نسبت امتحانات کے زیادہ توجہ دی جائے۔ علاوہ ازیں یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ مسلمانان ہند کو اس بات کا جواز حق حاصل ہے کہ اُن کے ہم مذہب جو ترکی، فارس، افغانستان اور دیگر ممالک میں ہیں۔ ان کی دماغی ترقی کی طرف متوجہ ہوں اور ان کو مدد دینے کا طریقہ یہ ہے کہ علی گڈھ یونیورسٹی کو مسلمانوں کا آکسفورڈ بنایا جائے۔ جہاں لائق ترین مسلمان طلباء بھیجے جائیں اور نہ صرف اس غرض سے علوم جدیدہ حاصل کریں بلکہ دیانت اور ایثار نفس بھی سیکھیں۔ جو پہلی صدی ہجری کے مسلمانوں میں پائی جاتی تھی۔ صاحبوں! یہ صرف میری رائے نہیں بلکہ مسلمانان ہند کے خیالات کے اعلیٰ درجے کے رہنماء ہیں اُن سب کی یہی رائے ہے کہ ایسی یونیورسٹی ہماری عظمت رفتہ کو تازہ کر دے گی۔اس میں کوئی شُعبہ نہیں ہو سکتا کہ یہ نسخہ کاریگر ہے البتہ اس کی تیاری میں شک ہے۔سوال یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان اس قدر کوشش گوارہ بھی کریں گے جتنی ایسای یونیورسٹی قائم کرنے کے لئے ضروری ہے۔ کیا نفس کشی اور اسلام کے فائدے پرہمہ تن متوجہ ہوجانے کا مادہ جو اوائل زمانے کے مسلمانوں میں پایا جاتا تھا۔ ہم میں سے اس قدر مفقود ہو گیا ہے؟ کہ اپنی دولت کا ایک حصہ ایسے بڑے کام کے واسطے الگ نہیں کر سکتے ہیں؟ ہم کو یقین ہے کہ اس یونیورسٹی کے قائم کرنے سے ہم اسلام کی زوال کو روک سکتے ہیں اور اگر ہم ایسی مقصد کے حصول کے واسطے بھی بِلا خیال ذاتی نفع کے کوشش نہیں کر سکتے تو کیا مجھ کو یہ نہ سمجھنا چاہئے ہم در اصل اس بات کی پروہ ہی نہیں ہے کہ مذہب اسلام زندہ ہے یا مُردہ؟۔ آپ سب صاحبوں سے جو اس وقت میری تقریر سُن رہے ہیں۔ میَں استدعا کرتا ہوں کہ نہ صرف اپنا روپیہ بلکہ اپنا وقت اور محنت اس بڑے کام کے انجام دینے میں صرف کریں اور اُن لوگوں سے جو بہ پابندی احکام دینی بڑی بڑی رقمیں راہ خدا میں صرف کرتے ہیں۔میَں نہایت زور کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ اس بات پر غور فرمائیں گے کہ آیا احکام اور سُنّت رسولﷺ کا اتباع کس طرح زیادہ ہوگا؟۔ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے سے یا زیارات اور ایسے عُرسوں کے کرنے سے جن میں زر کثیر صرف ہوتا ہے۔؟ جس رقم کی ہم استدعا کرتے ہیں کہ وہ ایک کروڑ ہے کیوں کہ ہم ایک ایسی انسٹّیوشن قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں اتنے اہم کام کا سرانجام ممکن ہو۔ہم چاہتے ہیں کہ ایسا انتظام کریں کہ مسلمان نو جوانوں کو بہترین تعلیم دی جا سکے بلکہ تربیت بھی اتنی عمدہ ہو جتنی دنیا کے کسی ملک میں ممکن ہو۔ حضرات کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ اسلام کی عظمت کو تازہ کرنے کے واسطے ایک کروڑ روپیہ زیادہ ہیں؟۔ اگر آپ کو واقعی اس برتر مذہب کی پروہ اورچارہ ہے جس کا آپ کلمہ پڑھتے ہیں۔ تو بے شک آپ اس قدر صرف بھی گوارہ کر سکتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کے مسلمان اپنا فرض اس طرح ادا کریں جس طرح اوّائل صدی ہجری کے مسلمانوں نے کیا تھا۔ تو ایک سہ ماہی کے اندر آپ اس قدر روپیہ اسلام کو معرض زوال سے نکالنے کے لئے جمع کر سکتے ہیں۔ آپ یہ خیال کریں کہ ہندستان میں ساٹھ (۰۶) ملین مسلمان آباد ہیں اور من جملہ ان کے کم از کم دس ملین یعنی ایک کروڑ ایسے ہیں کہ ایک روپے فی کس دے سکتے ہیں۔ ہر مسلمان خاندان کے مورث اور سر براہ روپیہ طلب کرتے ہیں حالانکہ ہم کو معلوم ہے کہ اُن میں سے ایسے بھی ہیں کہ جو ایک ہزار بلکہ دس ہزار بہ آسانی دے سکتے ہیں۔ حضرات یہ واقعات قابل لحاظ ہیں اگر ہمارا مقصد پورا نہ ہو تو اس کی یہ وجہ سمجھنا چاہئے کہ گو ہم دین اور پیغمبر کی بظاہر توقیر کرتے ہیں مگر یہ سب زبانی باتیں ہیں اور اتنی تھوڑی بھی زحمت عظمت دین اسلام کی تجدید کے واسطے گوارہ نہیں ہے‘‘ کانفرنس کے دوران جو چندہ دیا اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ بھی ہوا تھا جو کہ قارئین کی خصوصی دلچسپی کے لئے تحریر کیا جاتا ہے۔ سید الطاف حسین بریلوی لکھتے ہیں ”جناب مُحمد صدیق صاحب نے جو دفتری سکریٹری صاحب مُحمڈن اورینٹل کالج میں چھ روپے ماہوار کے دفتری تھے ایک چونی (چندے میں) دی۔ اس چونی کا نیلامی شروع ہوا۔ اصحاب ذیل کی بولیاں حسب ذیل تھیں۔ یہ نیلام پریذیڈنٹ(آغاخان) پر ختم ہوا۔ اٹتالیس روپے چار آنے کی رقم نیلام سے وصول ہوئی۔ا صمائے گرامی ان آصحاب کے جنھوں نے چونی پر مندرجہ ذیل رقموں کے ساتھ بولیاں دیں۔
۱۔ منشی شیخ عبداللہ صاحب۔۲۔حاجی مُحمد علی صاحب محافظ دفتر محکمہ نہر ضلع اٹاوا۔
۳۔ نواب احمد سعید خانصاحب بہادر ہیں۔ اس کے بعد مولوی محمود خان صاحب رئیس و وکیل ہائی کورٹ نے کہا اگر چونی دینے والے نے کہا اگر چونی دینے والے صاحب اپنا نام بتادیں تو میَں پانچ روپے نظر کروں گا یہ سن کر اکبر علی خان صاحب رئیس دہلی نے کہا کہ اگر اسٹیج پر اپنی صورت بھی دکھادیں تو میَں دس روپے دوں گا۔ چنانچہ مُحمد صدیق صاحب اسٹیج پر آئے اور اُن دونوں صاحبوں نے بھی پندہ روپے عنایت کئے۔ پندرہ روپے اور اٹتالیس روپے چار آنے نیلام کے کل ترتسٹھ روپے چار آنے ایک چونی کے چندے میں وصول ہوئے“(سہ ماہی العلی کراچی اکتوبر۔دسمبر ۶۶۹۱ء

مُسلِم تعلیمی کانفرنس بمبئی
مسلم ایجو کیشنل کانفرنس کا سالانہ اجلاس بابت ۳۰۹۱ء؁ بمبئی میں منعقد ہوا۔یہ کانفرنس اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کی صدارت بمبئی ہائی کورٹ کے جج جسٹس بدرالدین طیب جی نے سر انجام دیں جو سر سید احمد خان کے مخالفین میں سے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چھ سال کی مدت میں مسلمانوں کی فکر و نظر میں ملّی ادیالیت کی نشو نماء پانے لگی تھی۔ اس موقع پر ہز ہائینس سَر آغاخان استقبالیہ کمیٹی کے صدر تھے۔ چنانچہ انھوں نے ایک استقبالیہ خطبہ دیااور اس میں بھی علی گڈھ یونیورسٹی کی افادیت پر زور دیا۔ (آپ بیتی ص ۳۶۲) اس موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ برصغیر کے مسلمانوں میں دور اندیش مسلمان ایک ایسی جامعہ کی قیام کے خواہش رکھتے ہیں۔ جہاں حصول تعلیم کا معیار بلند ترین ہو۔ جہاں سائینسی تربیت کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم بھی شانہ بشانہ موجود ہو، جہاں بُرے اور بھلے، حق و ناحق کے درمیان ابدی فرق میں تمیز کی بلواستہ مگر مسلسل یادہانی ہو۔ یہی تعلیم کی روح ہے۔ میَں آپ سے مُخلصا نہ استدعا کرتا ہوں۔ اس نوعیت کے جامعہ کے قیام کے مقصد کو ان نعروں تلے ہر گز نہیں دینا چاہئے۔ جو روزانہ ہمارے درمیان بلند ہوتے ہیں اور ہماری مقاصد کی گونج میں غائب ہو جاتے ہیں“۔
یو نیورسٹی تحریک کا عروج
آغاخان جب ۰۱۹۱ء ؁ میں علی گڈھ گئے تو کالج کے متولیان نے سپاسنامہ پیش کیا جس میں کالج کے لئے اُن کی مدارت کو شاندار الفاظ میں سراہا گیا اور کہا گیا تھا کہ ”ہمارے لئے یہ ناممکن ہے کہ ہم ابھی بھی پوری طرح اُن احسانان کا کوئی بدل کر سکیں۔جو اعلیٰ حضرت نے کالج کو یونیورسٹی بنانے کے لئے کئے گئے ہیں۔ اس ضمن میں یور ہائی نس نے محمڈن ایجو کیشنل کانفرنس کے دہلی والے اجلاس میں جو پُر جوش اپیل کی۔ اور کالج کے لئے جو عملی امداد دی اُسے کبھی بھی بُلایا نہیں جاسکتا“۔ آغاخان نے سپاسنامے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ
”نواب صاحب،ٹرسٹیان اور حضرات! بد قسمتی سے میری صحت مجھے وہ سب کچھ نہیں کرنا دیتی ہے جو میَں علی گڈھ کے لئے کرنا چاہتاہوں۔ میری ہمیشہ تمناء رہی ہے کہ ہر سال کچھ ہفتہ خاموشی سے آ کر یہاں گزاروں اور ٹرسٹیوں، پروفیسروں اور طلبہء سے تبادلہ خیال کروں۔ مجھے ہمیشہ خرابی صحت مانع آئی۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ بہت سے شہزادوں، نوابوں،رئیسوں اور رہنماؤں نے کالج کو چندے کی بڑی بڑی رقمیں دیں ہیں۔ لیکن ہمارا صحیح مقصد یعنی ہندوستان میں ایک ایسی یونیورسٹی کا قیام جو اسلام کے لئے باعث فخر ہو۔ مسلمان شہزادوں اور رہنماؤں کی مالی امدادکا محتاج ہے۔ بلکہ اس کے لئے ہر شہر اور ہر گاؤں کے کھاتے پیتے لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ انھیں سچے مذہب اور اسلام کی مُحبت سے آگے بڑھنا چاہئے اور جوش و خروش کے ساتھ کالج کو یونیورسٹی کے درجے تک پہنچانے کے لئے کام کرنا چاہئے“۔ (پرنس آغاخان ص ۰۶)

”کالج کے لئے جو کچھ کیا وہ من جملہ وہ اُن مشاغل میں ہے جن کی تحصیل و تکمیل میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہوں۔ لیکن اپنے یہ تمام مشاغل مجھے اتنے عزیز نہیں ہیں۔ جتنا مُحمڈن اورینٹل کالج کی وہ خدمات ہیں جو میَں کر سکتا ہوں۔ہماری یونیورسٹی ہندوستان میں اسلام کی شایان شان ہو گی۔ اسلام کا تقاضہ ہے کہ آج ایک ایک مسلمان اپنے سچے مذہب کی تائید اور اسلام کی مُحبت میں اُٹھ کھڑا ہواور سب ملکر کالج کو ایک عظیم یونیورسٹی کی بنادیں۔ ہماری کالج کو ایک کارخانہ نہیں ہو نا چاہئے جو صرف حکومت کے لئے ملازمین پیدا کریں بلکہ اُسے ایسے لوگ پیدا کرنے ہوں گے جو اخلاق اور بذہانت سے مالا مال ہوں اور ملک کے وسائل کو بروئے کار لا سکیں تاکہ ملک میں تجارت اور صنعت کو فروغ دیں۔ جمہور کی رہنمائی کریں اور لوگوں کے اخلاق سنوارنے والے اساتذہ ہوں۔ کالج کے نظم و نسق اور طلبا کی تعلیم اور تربیت کے سلسلے میں وقتا فوقتا مختلف تجاویز پیش کیں ہیں اس سلسلے میں ایک بات اور قابل ذکر ہے میَں سمجھتا ہوں کہ کالج کے اساتذہ مسلمان ہونے چاہیں۔ ہمیں چاہئے کہ غیر ملکی پروفیسروں کے تقرر کو کم سے کم کریں۔ اس کے لئے ہمیں اپنے فارغ التحصیل طلبہ ء کو بیرون ممالک میں اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لئے بھیجنا چاہئے“۔(پرنس آغاخان تھرڈص۷۹۔۸۹) (جاری ہے)

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ