ہنزہ نیوز اردو

آزاد بھیڑیے، پابند عورتیں

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/06/19399870_10155307250185340_6624222151346298157_n.jpg” ] میمونہ عباس خان[/author]

 

گلگت شہر میں سڑکوں پر اب لوگ کم اور این سی پی گاڑیاں زیادہ نظر آتی ہیں اور ہر خاص وعام کی دسترس میں گاڑی ہونے سے مسافروں کے لیے یہ تفریق کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ ٹیکسی کا بورڈ سامنے رکھ کر گاڑی چلانے والا واقعی پیشہ ور ٹیکسی ڈرائیور ہے یا کوئی ماہر شکاری جسے کسی مجبور و مظلوم عورت کی تلاش ہے تاکہ اسے بٹھا کر منزل پر پہنچانے کے بہانے چند لمحے کسی عورت کی سنگت میں گذارنے کا سکھ حاصل کرسکے۔
اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ ذیادہ تر این سی پی گاڑیاں رجسٹرڈ نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں شکایت کہاں اور کس سے کرنی ہے، اس بات سے عوام کی اکثریت بےخبر ہے اور یہ ایک بہت خطرناک صورت حال ہے۔ اس کی وجہ سے ماضی میں چند ناخوشگوار واقعات ایسے بھی پیش آچکے ہیں کہ خواتین ٹیکسی کے دھوکے میں کسی اور گاڑی میں جا بیٹھیں اور بعد میں انہیں اور ان کے خاندانوں کو شدید ذہنی اذیت سے گذرنا پڑا۔
شکاریوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر دن رات صرف اس آس پر گاڑی دوڑائے پھرتی ہے کہ کوئی راہ چلتی عورت دکھائی دے اور یہ اسے بیٹھنے کی دعوت دیں۔ اس دعوت میں عزت اور احترام کا تو کوئی عمل دخل نہیں البتہ ذرا دیر کو ہی سہی صنفِ مخالف کی قربت حاصل کرنے کا جذبہ ضرور کار فرما ہوتا ہے۔ خواتین کی اکثریت ایسی پیشکش قبول کرنے سے گریز ہی کرتی ہے، مگر کئی دفعہ شدید مجبوری کے عالم میں اگر کوئی ایسی دعوت قبول کر بھی لے تو یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ اسے کس قدر ذہنی کوفت، تکلیف اور خوف کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔
یہاں راہ چلتی عورتوں کو ہراساں کرنا، گاڑی میں بیٹھنے کی کھلے عام دعوت دینا گویا معمول کی بات ہے جسے لوگ دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیتے ہیں۔چاہے اس سے عورت جتنی بھی روحانی کرب اور اذیت سے گزرے۔ بد قسمتی سے عورتوں کو راہ چلتے ہراساں کرنا یہاں کوئی نئی بات نہیں ہے گویا یہ ہمارا قومی چلن بن چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ایک طرف عورت کے اپنے اندر دبا خوف اور دوسری طرف قانون کا اس معاملے میں سرے سے کوئی کردار نہ ہونا ہے۔
کسی بھی معاشرے کی ذہنیت کو اگر پرکھنا ہو تو وہاں کے مردوں کا خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویوں پر غور کیا جانا چاہیے۔ اگر میں گلگت بلتستان کی بات کروں تو ایک وقت تھا جب عورت کو واقعی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا عورت بلا تخصیص سب کے لیے قابلِ احترام تھی مگر اب یہ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ ممکن ہے اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ چند عشرے قبل عورت ابھی گھر کی چاردیواری سے باہر نکلی نہیں تھی۔کیونکہ وہ نوکری پیشہ نہیں تھی اور عوامی جگہوں پر بھی اس کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ مگر آج حالات یکسر مختلف ہیں ۔مرد کل بھی گھر سے باہر تھا اور آج بھی۔جبکہ عورت نے گھر کی دہلیز اب پار کی ہے۔ چونکہ مرد نے اس سے پہلے عورت کو گھر سے باہر کبھی نہیں دیکھا اسی لیے وہ جانتا ہی نہیں کہ اب باہر نظر آنے والی عورت سے وہ کس طرح پیش آئے۔ اسے یہ لگتا ہے کہ جو بھی عورت گھر سے باہر نکلتی ہے وہ جسمانی آذادی کی خواہاں ہے تبھی وہ اسے صرف ایک جسم کے طور پر دیکھتا ہے۔اس کے لیے یہ ماننا کافی مشکل امر ہے کہ جو عورت کسی مجبوری کے تحت، روزگار کے سلسلے میں یا اپنی خوشی سے گھر سے باہر نکلی ہے تو وہ بھی اس مرد کی طرح شخصی طور پر ایک آذاد انسان ہے اور اسے بھی معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کے وہی حقوق رکھتی ہے جو مردوں کو حاصل ہیں۔اور اسی لیے وہ ہر لحاظ سے واجب الاحترام ہے۔
کوئی بھی معاشرہ اپنے آپ کبھی تشکیل نہیں پاتا۔ کیونکہ معاشرے کی بنیادی اکائیاں مرد اور عورت ہیں۔ اگر عورت بطور اکائی معاشرتی کلیات کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے تو پھر مرد کو کس نے یہ حق دیا کہ اسی معاشرے کو، جس کی تکمیل کے لیے وہ عورت کا محتاج ہے، اسی عورت ہی کے لیے معاشرے کو زندان میں تبدیل کردے۔ غالباً یہ شہ مرد کو اس وجہ سے ملی ہے کہ وہ اپنے آپ کو قانون سے مبرا سمجھتا ہے اور عورت کو اپنی ذاتی جائیداد تصور کرتا ہے۔ یہ وہ قبائلی رویہ ہے جو جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے جس کے تحت عورت اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی ذیادتی پر آواز اٹھائے تو روایات کے نام پر اس کی نہ صرف کردارکشی کی جاتی ہے بلکہ اس کا وجود تک صفحہ ہستی سے مٹادیاجاتا ہے۔ اور اکثر مرد ایسے جرائم کے مرتکب ہونے کے باوجود قانون کی گرفت سے آذاد اور معاشرے کی نظر میں سرخرو رہتے ہیں۔
اسی طرح عورتوں کو ہراساں کرنے کر جرم میں سزا پانے والے کسی مجرم کی پاکستان میں بالعموم اور گلگت بلتستان میں بالخصوص کچھ ذیادہ مثالیں نظر نہیں آتیں۔ تبھی تو بازار ہو یا سڑک، دفتر ہو یا کوئی مخلوط اجتماع ، عورت کسی نہ کسی شکل میں جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہے۔ یہ ہر عورت جانتی ہے کہ اسے کن گندی نگاہوں اور رکیک جملوں کا دن میں کئی بارسامنا کرنا پڑتا ہے جسے چپ کرکے سہنے میں ہی وہ اپنی عافیت سمجھتی ہے۔ اس کے علاوہ سیٹیاں بجانا، بیہودہ گانے گانا، ذومعنی اشارے کرنا اور آوازیں کسنا مردوں کا شیوہ اور اس پر خاموش احتجاج گویا عورت کے بھی عام معمولات کا حصہ بن چکا ہے۔ مجال ہے کہ یہ سب کسی کی بھی گرفت میں آسکے۔ ہاں اگر عورت خود اس کے خلاف بول اٹھے یا کسی بھی طرح کا ردِ عمل ظاہر کرے تو عام تصور یہی ہے کہ اس طرح وہ خود اپنی بدنامی کا سامان کر رہی ہے۔
ہم لا شعوری طور پر عورت کو کمزور بننے کی تربیت دے رہے ہیں جو کبھی بھی اپنے لیے آواز بلند نہیں کرسکتی اور اپنے ساتھ غلط ہوتا دیکھ کر آنسو بہانے یا چپ چاپ سہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ یہی غلط سوچ ہم اپنی آئندہ نسلوں میں بڑی لاپروائی سے منتقل کررہے ہیں جس کے مطابق عورت اپنی عزت کی رکھوالی خود نہیں کر سکتی۔ اسی گدلی سوچ کا نتیجہ ہے کہ مرد اب اور ذیادہ طاقتور بن چکا ہے اور عورت کا حاکم بھی۔ وہ نفسیاتی طور پر خود کو عورت سے اس قدر برتر سمجھتا ہے کہ اسے وہ انسان تک سمجھنا گوارا نہیں کرتا۔ اور اپنے اس نفسیاتی برتری کی تسکین کی خاطر اسے ڈرا کر وہ لطف لیتا ہے اور حظ اٹھاتا ہے۔
میرا مردوں کو یہی مشورہ ہے کہ انہیں اپنے ذہن سے اس غلاظت کو صاف کرنے کی شدید ضرورت ہے جس کے تحت ان کے اپنے گھر کی عورتیں تو قابلِ احترام ہیں مگر باقی تمام عورتیں ان کے مکروہ عزائم کی تکمیل اور غلیظ نظروں کی تسکین کا سامان ہیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق گلگت شہر کی سڑکیں عورت کے لیے اس وقت انتہائی غیر محفوظ بنا دی گئی ہیں۔ یہاں ٹیکسی ڈرائیوروں کا روپ دھارے اوباش فطرت مرد کسی بھی عورت کو روڈ پر کھڑا دیکھ کر انہیں ہراساں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ضرور ذہن میں رکھیے گا کہ یہاں عورت جینز اور ٹائٹس پہن کر کبھی بھی گھر سے باہر نہیں نکلتی مگر مرد کو اس کے جسم کے گرد لپٹی چادر کے پار جو نظارہ دکھائی دیتا ہے اسے نظر انداز کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہوتی تبھی تو وہ اپنی گاڑی کے سٹیئرنگ کے ساتھ اپنے نفس پر بھی گرفت کھو بیٹھتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا عورت کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے پر مجرم کی نشاندہی کرنے، اس کی شکایت کرنے یا اسے کھرے کھرے سنانے کی اجازت ہے؟ تو جناب اس سیدھے سوال کا آسان جواب ہے بالکل نہیں! اگر وہ ایسا کرے گی تو خود ہی بھگتے گی اور ایسی مثالیں ہمیں ہر طرف دکھائی دیتی ہیں۔ یا تو اسے اٹھوایا لیا جائے گا یا چہرے پر تیزاب ڈالا جائے گا اور اگر یہ کرنا مشکل ہوا تو کہیں سے بھی تصاویر حاصل کر کے ایسی عورت کو کسی کو بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا جائےگا۔
ذرا سوچیے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں؟ سڑکیں آپ کی، بازار آپ کا، آپ کی موجودگی میں عورت غیر محفوظ، غلطی بھی آپ کریں اور سزا بھی آپ دیں! اب ایسے میں عورت کے تو کیا کرے؟
اس سوال کا جواب میں آپ پر چھوڑ رہی ہوں ۔اگر آپ بھی انہی مردوں میں سے ایک ہیں جن کا یہاں ذکر ہوا ہے تو یہ سوچنے کا مقام ہے کہ آپ کے بلاوجہ سڑک پر گاڑی روکنےاور ذبردستی لفٹ آفر کرنے سے یقیناً عورت اذیت اور کرب کا شکار ہوجاتی ہے جبکہ دیگر لوگوں کی نظر میں بھی وہی مشکوک ٹھہرتی ہے۔ عورتوں سے میں یہی کہوں گی کہ ایسے معاملات میں مرد کو ہماری کمزوری اور بزدلی شیر بنا دیتی ہے۔ اب عورت کو خود بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اپنا آپ اگر منوانا ہے تو بھیڑیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرنا سیکھیں۔ اس کی خاموشی ہی دراصل مرد کی طاقت ہے۔ تو انہیں بے نقاب کریں، ان کی اصلیت سب کے سامنے لے کر آئیں تاکہ جس اذیت سے ایک عورت گذری ہے دوسری کو نہ گزرنا پڑے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مرد اور عورت دونوں یہ بات جان لیں کہ ہر شخص کا اپنا ایک مخصوص ذاتی دائرہ ہے اور کوئی بھی تب تک اس کےقریب نہیں جا سکتا جب تک کہ وہ شخص خود اجازت نہ دے۔ یہی وہ اصول ہے جس کے تحت کوئی مرد کسی عورت کو نہ ہی ہاتھ لگا سکتا ہے اور نہ اسے ہراس کرسکتا ہے۔ عورتیں اس برائی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں اور ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے پر ڈٹ جائیں تو کچھ عجب نہیں کہ جنسی ہراسانی کا سدباب ہو۔
نظم: سحر ہونے لگی ہے
جُھکی پلکیں گریزاں تھیں کبھی اُٹھنے سے
اب اُٹھنے لگی ہیں
رنگی ہیں بھیڑیوں کی خون سے آنکھیں
ہَوَس جن میں تھرکتی ہے
سلگتی اُن نگاہوں کی تپش اب بھی جلاتی ہے
کہیں آنچل کا پہرہ اور کہیں بے نام ڈھالیں ہیں
سمٹتا ہے وجود اب بھی
نگلتی بھیڑ میں کھو جانے کا ڈر اب بھی زندہ ہے
مگر جینے کی خواہش جاگ اٹھی ہے
ڈرے سہمے ہوئے خوابوں کوجینے کا اشارہ مل چکا ہے
کئی صدیوں سے کالی کوٹھڑی میں قید سوچوں پر پڑے تالے ابھی کھلنےلگے ہیں
زباں بندی کے سب احکام باطل ہو چکے ہیں
اور زنگ آلود ہوتی،
دھیرے دھیرے ٹوٹتی سب ہمتیں جڑنے لگی ہیں
روشنی کا ایک دھارا بہہ رہا ہے
کہہ رہا ہے
اب سحر ہونے لگی ہے۔
شاعرہ: میمونہ عباس خان

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ