ہنزہ نیوز اردو

آخر زمہ دار کون؟؟

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

گلگت بلتستان ٹرانسپورٹ کی غفلت کی وجہ
سے انسانی قیمتی جانوں کا ضائع ہونا انتہائی افسوس ناک ہونے کے ساتھ ساتھ اظہار افسوس بھی کیا جاتا ہے ٹریول کمپنیوں کی غیر معیاری ٹرانسپورٹ اور بغیر ٹیسٹ ٹرین ڈرائیورز کا انتہائی نامناسب اسپیڈ چلانا انسانی جانوں کے ساتھ کھیلانا کے مترادف ہے جو ہمیشہ ایسے سانحات کے شکل میں ہمارے سامنے آ جاتے ہیں گلگت بلتستان کے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ ستلی سلوک ہر طرح سے کیا جاتا ہے ہم اپیل کرتے ہیں کہ گورنمنٹ پر کمپنی کو مانیٹر کرائے اور منٹینینس کے حوالے سے ہر ٹریول ڈرائیورز کو ٹریننگ دی جائے یہ کوئی آج کی سانحہ نہیں جس پہ افسوس ہو یہ ایک سال میں تیسری دفعہ یہی افسوس ناک اور ہولناک سانحہ پیش آیا ہے اور آتا رہتا ہے جس پہ ہمیں متحد ہو کے گلگت بلتستان کے معصوم لوگوں کی قیمتی جانیں بچانا چائیے ہر بات کو مقدر اور خدا پہ ڈال کے ہمیشہ اپنی زندگی کو موت کے منہ پہ نہ ڈال دیا جائے کبھی دہشت گردی کی لپیٹ تو کبھی ایسا ناقص ٹریول کی سانحات آخر گناہ کیا ہے جو ریاست ہمارے ساتھ سلوک کر رہی شہر اہ قراقرم کسی بھی سفر کے لئے محفوظ نہیں ہے ایسے واقعات آئے روز ہونا سے قبل حکومتی ادارے ہوش کے ناخن لے اور عوام کے لئے سہولیات اور بہترین ٹرانسپورٹ اور سیفٹی تدابیر فراہم کرئے مگر افسوس سیکڑوں سانحات اور حادثات ہونے کے باوجود بھی حکومت کی کان پہ جوں تک نہیں رنگتی
گلگت بلتستان سے دور دراز شہروں میں پڑھنے اور روزگار کے سلسلے میں آنے جانے والے لوگوں کو اپنے لخت جگر اور اپنے پیاروں کی آنے جانے کی انتظار رہتی ہے اور ایسے سانحات ماں کو آپنی لخت جگروں اور پیاروں اور اثاثوں کی لاشیں لوٹایا جاتا ہے یہ دکھ بھی ویہی سمجھتا ہے جو ایک بیوہ بوڑھی ماں ہو اُس کا بیٹا بھی ایسے سانحات میں کھو جاتاہے
جس کا دکھ وہ دکھ ہوتا ہے جو دنیا کے کوئی بھی انسان اُس بیوہ کے علاوہ نہیں سمجھ سکتا ایسے ہی کسی سوگوار ماں کی طرح آئیے روز کتنے بہنیں اپنے سہارے بھائیوں کو کھوتی ہیں کتنے مائیں بیٹوں کو کھوتے ہیں مستقبل کے آثاثہ کبھی دہشتگردی کی سانحات کبھی روڈ اور ٹرانسپورٹ کی نااہلی کے شکار ہو جاتے ہیں آخر کتنے لوگوں اپنے پیارے آثاثے اور سہاروں کی لاشیں اُٹھاتے رہینگے
آئیے روز ایسے سانحات سوالیہ نشان ہے

آخر اس کا زمہ دار کون ہے؟؟
کون دے گا اسکا حساب؟؟
کس کے ہاتھ لہو تلاش کرے؟؟

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ