ہنزہ نیوز اردو

آئینی حقوق اور صوبے والا چورن ۔

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

تحریر۔عمران اللہ مشعل

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک مسلہ کشمیر کا کوئ تصفیہ نہیں ہوتا ہے تب تک گلگت بلتستان نہ تو صوبہ بن سکتا نہ ہی کسی بھی طریقے سے پاکستان کا حصہ بن سکتا ہے اور یہی بات ہمارے تمام سیاست دانوں کو پتہ ہے لیکن ہمیشہ یہ شوشہ آئینی حقوق کے نام سے صرف اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے اور اپنی مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہے۔گلگت بلتستان کا مسلہ آرڈر یا ترمیم سے کشمیر طرز سیٹ اپ یا کسی اور طریقے سے گورننس چلانے کا نہیں ہے آرڈر اور ترمیم ایسا ہی ہے جیسا لسی کو گلاس میں ڈال کے پیو یا لوٹے میں ڈال کے پیو اصل مسئلہ تنازعہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی اس قرارداد کا ہے جس کے مطابق گلگت بلتستان بھی اس تنازعے کا حصہ ہے۔اب بات آجاتی ہے حقوق کا تو یہ بات درست ہے کہ پاکستان نے وہ حقوق نہیں دئیے جو کہ سب سے زیادہ دینے چاہیے تھے کیونکہ گلگت بلتستان جغرافیائ لحاظ سے پاکستان کے لیے انتہائ اہمیت کا حامل خطہ ہے اور متنازعہ ہونے کی وجہ سے بھی اہمیت رکھتا ہے۔حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جو ردعمل دیکھنے کو ملا بہت افسوس ہوا خاص کر ان دانشوروں سے بھی جنہیں تنازعے کا پتہ ہونے کے باوجود یہ کہتے رہے کہ سپریم کورٹ نے حقوق نہیں دیے۔یہ حقیقت سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کو بھی بخوبی معلوم تھا کہ وہ اسطرح حقوق نہیں دے سکتا ہے نہ ہی انکے اختیارات میں ایسا کچھ ہے تاہم اپنی نجی دورے گلگت بلتستان کے دوران وہاں عوام کی بے پناہ محبت اور پیار دیکھ کر انہوں نے اس کیس کو لیکر ایک مخلصانہ کوشش کی۔مجھے امید ہے جو گلگت بلتستان کے پڑھے لکھے بشمول فیسبکی دانشوروں میں کسی نے بھی سپریم کورٹ کی فیصلے کو پڑھنے کہ زحمت نہیں کیا ہے بس اس امید میں تھے کہ یہ کہیں سے سننے کو ملے کہ گلگت بلتستان آئینی صوبہ بن گیا یا آئینی حقوق مل گئے ہیں۔اس فیصلے میں ریاست پاکستان کو جو بنیادی حکم دیا گیا ہے وہ وہ بنیادی حقوق اور اصطلات کی ہے اور اسکے علاوہ الحاق پاکستان۔اقوام متحدہ کی قراردار تنازعہ کشمیر اور دیگر تمام مراحل کا تفصیلی زکر موجود ہے۔اب ہمیں چاہیے کہ سب ملکر اپنے بنیادی حقوق کو پہچانا ہوگا اور انکی حصول کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی نہ کہ ہمیشہ کی طرح تنقید برائے تنقید یا آئینی حقوق کی ٹرک کے بتی کے پیچھے لگے رہیے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے تمام لوگ ہر قسم کی تقرقہ بازی اور سیاست سے ہٹ کر متحد ہوجائے اور 1947 سے پہلے اور بعد کے تمام بنام پاکستان کے معاہدوں سے لاتعلقی کریں اور پاکستان کے ساتھ نیا عمرانی معاہدہ کریں جو کہ جو کہ آرڈر اور آئینی ترمیم سے مختلف ہو باقی تمام سیاست دان اور مذہبی راہنماؤں سے اپیل ہے کہ اب آئینی حقوق اور صوبے والا چورن بیچنا بند کریں۔ ایک صاحب سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ نے کبھی کسی ولی اللہ کو دیکھا ہے ؟
انہوں نے جواب دیا ہاں ابھی دو دن پہلے ہی لاہور اسٹیشن پر دیکھا ہے ۔ ہماری گاڑی جیسے ہی رکی تو قلیوں نے دھاوا بول دیا اور ہر کسی کا سامان اٹھانے اور اٹھا اٹھا کر بھاگنے لگے لیکن میں نے ایک قلی کو دیکھا کہ وہ اطمینان سے نماز میں مشغول ہے ۔جب اس نے سلام پھیرا تو میں نے اسے سامان اٹھانے کو کہا اس نے سامان اٹھایا اور میری مطلوبہ جگہ پر پہنچا دیا،میں نے اسے ایک روپیہ کرایہ ادا کردیا ، اس نے چار آنے اپنے پاس رکھے اور باقی مجھے واپس کردئیے ۔ میں نے اس سے عرض کی کہ ایک روپیہ پورا رکھ لو لیکن اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا “نہیں صاحب میری مزدوری چار آنے ہی بنتی ہے” ۔

آپ یقین کریں ہم سب ولی اللہ بننے اور اللہ کے ولیوں کو ڈھونڈنے میں دربدر ذلیل و خوار ہوتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں مشکل ترین ریاضتوں ، مشقتوں اور مراقبوں سے گذرنا پڑےگا ۔سار ی ساری رات نوافل میں گذارنی پڑےگی یا شاید گلے میں تسبیح ڈال کر میلے کچیلے کپڑے پہن کر اللہ ہو کی صدائیں لگانا پڑے گی تب ہم ولی اللہ کے درجے پر پہنچ جائینگے ۔آپ کمال ملاحظہ کریں ہماری آدھی سے زیادہ قوم بھی اس کو ہی” پہنچا “ہوا سمجھتی ہے جو ابنارمل حرکتیں کرتا نظر آئیگا ۔ جو رومال میں سے کبوتر نکال دے یا عاشق کو آپ کے قدموں میں ڈال دے ۔اللہ کا دوست بننے کے لیے تو اپنی انا کو مارنا پڑتا ہے ۔ قربانی ، ایثار اور انفاق کو اپنی ذات کا حصہ بنانا پڑتا ہے ۔اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے اپنے ابا جی سے پوچھا کہ عشق مجازی اور عشق حقیقی میں کیا فرق ہے ؟انھوں نے کچھ دیر سوچا اور کہنے لگے “بیٹا ! کسی ایک کے آگے اپنی انا کو مارنا عشق مجازی ہے اور ساری دنیا کے سامنے اپنی انا کو مارلینا عشق حقیقی ہے” ۔جنید بغدادی اپنے وقت کے نامی گرامی شاہی پہلوان تھے ۔ انکے مقابلے میں ایک دفعہ انتہائی کمزور ، نحیف اور لاغر شخص آگیا ۔ میدان تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا ۔ بادشاہ اپنے پورے درباریوں کے ساتھ جنید بغدادی کا مقابلہ دیکھنے آچکا تھا ۔مقابلہ شروع ہونے سے پہلے وہ کمزور آدمی جنید بغدادی کے قریب آیا اور کہا دیکھو جنید ! کچھ دنوں بعد میری بیٹی کی شادی ہے میں بے انتہائی غریب اور مجبور ہوں ۔ اگر تم ہار گئے تو بادشاہ مجھے انعام و اکرام سے نوازے گا ۔ لیکن اگر میں ہار گیا تو اپنی بیٹی کی شادی کا بندو بست کرنا میرے لیے مشکل ہوجائیگا ۔مقابلہ ہوا اور جنید بغدادی ہار گئے ۔ بادشاہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا اس نے دوبارہ اور پھر سہہ بارہ مقابلہ کروایا اور تینوں دفعہ ہار جنید بغدادی کے حصے میں آئی ۔بادشاہ نے سخت غصے میں حکم دیا جنید کو میدان سے باہر جانے والے دروازے پر بٹھا دیا گیااورتمام تماشائیوں کو حکم دیا گیا کہ جو جائیگا جنید پر تھوکتا ہوا جائیگا ۔جنید بغدادی کی انا خاک میں مل گئی لیکن ان کی ولایت کا فیصلہ قیامت تک کے لیے آسمانوں پر سنا دیا گیا ۔ولی تو وہ ہوتا ہے جو لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کردے۔جو کسی کو جینے کی امنگ دے دے ۔ چہرے پر خوشیاں بکھیر دے ۔ جب کبھی بحث کا موقع آئے تو اپنی دلیل اور حجت روک کر سامنے والے کے دل کو ٹوٹنے سے بچالے اس سے بڑا ابدال بھلا کون ہوگا ؟رسول خداﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے فرمایا :”معاذؓ !تمھیں وہ عمل نہ بتاوں جو بغیر حساب کتاب کے تمھیں جنت میں داخل کروادے ؟” معاذؓ نے عرض کی ضرور یا رسول اللہﷺ ۔آپ نے فرمایا :”معاذ ! مشقت کا کام ہے کروگے ؟” ضرور کروں گا یارسول اللہﷺ ،معاذ نے جواب دیا ۔ آپﷺ نے پھر فرمایا :”معاذ مسلسل کرنے کا کام ہے کروگے ؟” معاذؓ نے جواب دیا کیوں نہیں یا رسول اللہﷺ ۔

آپ نے فرمایا:” اے معاذ ! اپنے دل کو ہر ایک کے لیے شیشے کی طرح صاف اور شفاف رکھنا بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوجاوگے” ۔معروف کرخیؒ نے فرمایا جس کا ظاہر اس کے باطن سے اچھا ہے وہ مکار ہے اور جس کا باطن اس کے ظاہر سے اچھا ہے وہ ولی ہے ۔ ولایت شخصیت نہیں کردار میں نظر آتی ہے ۔ابراہیم بن ادھمؒ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور چند دن رہنے کی اجازت مانگی آپ نے دے دی ۔ وہ کچھ دن ساتھ رہا اور انتہائی مایوس انداز میں واپس جانے لگا ۔ ابراھیم بن ادھمؒ نے پوچھا کیا ہوا برخوردار ! کیوں آئے تھے اور واپس کیوں جارہے ہو ؟ اس نے کہا حضرت آپ کا بڑا چرچا سنا تھا ۔ اس لیے آیا تھا کہ دیکھوں کہ آپ کے پاس کونسی کشف و کرامات ہیں ۔اتنا بول کر وہ نوجوان خاموش ہوگیا ۔ ابراھیم بن ادھمؒ نے پوچھا پھر کیا دیکھا ؟ کہنے لگا میں تو سخت مایوس ہوگیا ۔ میں نے تو کوئی کشف اور کرامت وقوع پذیر ہوتے نہیں دیکھی ۔ ابراھیم بن ادھمؒ نے پوچھا نوجوان ! یہ بتاو اس دوران تم نے میرا کوئی عمل خلاف شریعت دیکھا ؟ یا کوئی کام اللہ اور اس کے رسول کے خلاف دیکھا ہو ؟اس نے فورا ًجواب دیا نہیں ایسا تو واقعی کچھ نہیں دیکھا ۔ابراھیم بن ادھمؒ مسکرائے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے بیٹے ! میرے پاس اس سے بڑا کشف اور اس سے بڑی کرامت کوئی اور نہیں ہے ۔

جو شخص فرائض کی پابندی کرتا ہو ۔

کبائر سے اجتناب کرتا ہو ۔

لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرتا ہو ۔

آپ مان لیں کہ اس سے بڑا ولی کوئی نہیں ہوسکتا ہے ۔اللہ کے ولی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ صاحب حال ہوتا ہے ۔نہ ماضی پر افسوس کرتا ہے اور نہ مستقبل سے خوفزدہ ہوتا ہے ۔اپنے حال پر خوش اور شکر گذار رہتا ہے ۔جو اپنے سارے غموں کو ایک غم یعنی آخرت کا غم بنا کر دنیا کے غموں سے آزاد ہوجائے وہی وقت کا ولی ہے ۔ایک صحابیؓ نے پوچھا یارسول اللہﷺ ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا صبر کرنا اور معاف کرنا ۔آپ یقین کریں تہجد پڑھنا ، روزے رکھنا آسان ہے لیکن کسی کو معاف کرنا مشکل ہے ۔رسول اللہﷺ نے فرمایا اسلام کا حسن یہ ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلائواور ہمیشہ اچھی بات زبان سے نکالو ۔جو صبر کرنا سیکھ لے ، بھوکوں کو کھانا کھلائے ، ہمیشہ اچھی بات اپنی زبان سے نکالے اور لوگوں کے لیے اپنے دل کو صاف کرلے اس سے بڑا ولی بھلا اور کون ہوسکتا ہے ؟یاد رکھیں جو لوگوں سے شکوہ نہیں کرتا جس کی زندگی میں اطمینان ہے وہی ولی ہے ۔ جس کے دل کی دنیا میں آج جنت ہے وہی وہاں جنتی ہے اور جس کا دل ہر وقت شکوے ،شکایتوں ، حسد ، کینہ ، بغض ، لالچ اور ناشکری کی آگ سے سلگتا رہتا ہے وہاں بھی اس کا ٹھکانہ یہی ہے ۔

فرائض کی پابندی کیجیے ،

کبائر سے اجتناب کیجیے ،

حال پر خوش رہیے ،

لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کیجیے ،

اور وقت کے ولی بن جائیے

مزید دریافت کریں۔

مضامین

کیا عورت کم عقل ہوتی ہے؟

ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ عورت کم عقل اور کم دین ہے، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ یہ