ہنزہ نیوز اردو

ہنزہ کے مسائل، انتظامیہ اور وفاقی پارٹیز

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

کسی بھی علاقے کی ترقی اور خوشحالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں پر موجود بنیادی سہولیات کتنی اور انکا معیار کیسا ہے۔
ہنزہ جو کہ دنیا بھر میں تاریخی لحاظ سے انتہائی اہم مقام رکھتا ہے یہاں کی قدرتی مناظر، خوبصورت وادیاں، جھیلیں، بلند وبالا پہاڑ، تاریخی عمارتیں اور دلکشی بےمشال ہیں۔ اس میں بسنے والے لوگوں کو مہمان نواز، محب الوطن، باشعور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ قوم سمجھا جاتا ہے خصوصاً خواتین چاہیے وہ جس شعبے میں بھی کیوں نہ ہو مردوں کے شانا بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں ہنزہ کی خواتین ناصرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اپنا نام منوا رہی ہیں۔ جسے ناصرف گلگت بلتستان کی حکومت یہاں کی بیوروکریسی، گلگت بلتستان کی مقامی وغیر مقامی این جی اوز اور وفاقی حکومت بھی ان سب پہ فخر کرتا ہے اور کی تعریفیں بیان کرتے نہیں تھکتے جو کہ ہر لحاظ سے قابل تعریف ہے اور قابلِ قدر ہے۔
لیکن اس خطے میں بسنے والے عوام بنیادی سہولیات سے مکمل طور پر محروم ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت گلگت بلتستان اور وفاقی حکومت کی جانب سے نظر انداز اور عدم دلچسپی کا شکار ہیں۔
بنیادی سہولیات جن میں تعلیم، صحت، سڑکیں، بجلی اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔
سرکاری سکولوں میں نہ تو مناسب تعلیم دی جاتی ہے اور نہ ان سکولوں کی عمارتوں کو محفوظ سمجھا جاسکتا ہے سائنس لیبارٹریز کا نہ ہونا، کمپیوٹر لیبارٹریز کا نہ ہونا اور اساتذہ کا سٹوڈنٹس کی تعلیم کے بجائے اپنی تنخواہوں میں اضافے کی فکر میں ہونا جس کا منہ بولتا ثبوت سرکاری سکولوں میں سٹوڈنٹس کی کم تعداد اور امتحانات میں کارکردگی صفر کے برابر آنے سے لگایا جا سکتا ہے۔
سرکاری اسپتالوں میں صحت کے بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہنزہ کے بیشتر مریض گلگت شہر جاکر اپنی علاج معالجہ کرنے پر مجبور ہیں۔ ہسپتالوں میں ٹیسٹنگ لیبارٹریز اور دیگر سہولیات کا فقدان ہے ضلع بھر کے ہسپتالوں میں بچوں کے لیے ایک بھی سپیشلسٹ ڈاکٹر موجود نہیں اور نہ ہی خواتین کے لیے کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود ہے جو کہ محکمہ صحت اور گلگت بلتستان کی حکومت کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔
شاہراہِ قراقرم کے علاؤہ دیگر سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر اور مرمت نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ محکمہ تعمیرات اور حکومت کی جانب سے علاقے سے لاتعلقی اور عدم دلچسپی کا ثبوت ہے۔
سن 1992 کے بعد ضلع ہنزہ میں بجلی کی پیداوار کے لئے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا میسگر پاور پراجیکٹ کو شروع ہوئے کئ سال گزر گئے لیکن اس منصوبے پر بروقت کام نہ ہونے اور فنڈز کی فراہمی میں تاخیر کی وجہ سے یہ پروجیکٹ بھی ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
اس سب دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ضلع ہنزہ اور یہاں بسنے والے لوگ گزشتہ دو سال سے عوامی نمائندے سے بھی محروم ہیں جو کہ ایک انتہائی سنگین صورتحال بیان کرتا ہے۔ دن بہ دن بڑھتی ہوئی عوام میں اس مایوسی کے زمہ دار آخر کون ہے اور اس کا ازالہ کرنے کے لیے حکومت گلگت بلتستان یا پھر وفاقی حکومت فل حال تو مکمل طور پر خاموش دیکھائی دی رہی ہے اور مستقبل میں تمام وفاقی پارٹیز کون کونسی جھوٹی وعدے، داوے اور نعرے لگائے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
لیکن میری نظر میں ہنزہ کے عوام کو آئندہ آنے والے جنرل الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ صاف ہے اور وہ یہ کہ جب دو سے تین سال بنا نمائندے کے ضلع ایک ڈپٹی کمشنر کے سہارے چل سکتا ہے تو چند سال مزید ایک بیوروکریٹ کے سہارے جینے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے اور اگر یہ سیاسی جماعتیں عوام ہنزہ سے اتنی ہی مخلص ہیں تو پھر ابھی تک خاموش کیوں بیٹھے ہیں کیوں نہیں ڈیمانڈ کرتے عوامی نمائندے کی اور کیوں نہیں بات کرتے ہیں غریب عوام کے مسائل کی۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
آخر میں اللہ تعالٰی کے بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ پاک اور بابرکت ذات ہم سے کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

مزید دریافت کریں۔