ہنزہ نیوز اردو

ہنزہ کی قدیم ثقافت کے چند گوشے

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

وہ جنوری کی ایک یخ بستہ رات تھی اور تین دنوں سے مسلسل برف باری ہو رہی تھی – میں دادا جان کے بغل میں بیٹھ کر قدیم زمانے کی کہانیاں سُن رہا تھا سردی کی وجہ سے لوگ شام ڈھلتے ہی سو جاتے تھے اور صبح سویرے اُٹھنے کے عادی تھے آج کل کی طرح اُس زمانے میں ٹی وی، انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہوتی تھی جن کی وجہ سے آج کل کے نوجوان رات بھر جاگتے ہیں اور دن کو سو جاتے ہیں زیادہ سے زیادہ گھر کے بزرگوں کے پاس ایک عدد ریڈیو ضرور ہوتی تھی جس پر خبرنامے کے ساتھ ساتھ موسیقی سے لطف اندوز ہوتے تھے – ہمارے دادا جان مرحوم جب حیات سے تھے تو میں روز اُن سے اپنے اباواجد، ہماری ثقافت اور دیگر موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کرتا تھا ہمارے داداجان اپنے وقت میں پولو کا کھلاڑی اور محنت کش نوجوان ہوا کرتے تھے اُنہوں نے اپنے آخری ایام تک محنت کو عبادت سمجھ کر اپنے ہاتھوں سے رزق حلال کماتے رہے – آج جب وہ ہمارے ساتھ نہیں تو اُن کی کمی کا احساس ہوتا ہے اللہ پاک مرحوم کو جنت الفردوس نصیب کریں آمین – اُس رات اچانک میں نے دادا جان سے سوال کیا کہ کیا آپ کے زمانے میں شادیوں کے موقع پر بھی گانا گانے اور دیگر رسومات ہوتی تھیں جو آج کل کے زمانے میں ہوتی ہیں ؟ دادا جان نے کچھ لمحے سوچا اور کہنے لگے – ہمارے زمانے میں اگر بارات ایک قلعے سے دوسرے قلعے تک جاتی تو بارات میں شامل لوگ اپنے ہیروز اور بہادر بزرگوں کے کارنامے اور ان کی شجاعت و بسالت کے چکامے اور رزمیہ اشعار گاتے تھے جس کے لیے مخصوص فنکاروں کی خدمات بھی حاصل کر لیتے تھے جنہیں مقامی زبان میں “غرینگ کیو” کہا جاتا تھا اس کے علاوہ دلہن کو میکے کے گھر سے رخصتی کے وقت “اجوالی” کے نام سے ایک لوک شادی گیت گایا جاتا تھا اور سازندے جب یہ دھن بجاتے تھے تو شادی خانے میں یکایک ایک مغموم سا ماحول پیدا ہوجاتا ماں بہنیں اور رشتے دار خواتین دلہن کو سسکیوں اور آنسوؤں کی بارش میں رخصت کر دیتی
مجھے کہانی میں دلچسپی محسوس ہوئی تو میں نے مزید معلومات کی خاطر دادا جان سے پوچھا کہ ” اُس وقت شادی کی دیگر رسومات کس طرح کی ہوتی تھی اُس وقت بھی آج کل کی طرح مہندی، جوتا چھپائی اور دوسرے رسومات بھی ہوتے تھی دلہا اور دلہن کی لباس کس طرح کی ہوتی تھی؟ دادا جان کچھ دیر تک زیر لب مُسکراتے رہے اور میری طرف دیکھ کر بولے ہمارے زمانے میں اس طرح کے رسومات نہیں ہوتی تھیں آج کل ہماری ثقافت میں فضولیات شامل کی گئی ہیں جن کا ہماری ثقافت سے دور تک کوئی واسطہ نہیں ماضی میں ہمارے ہاں اجتماعی شادیوں کا بندوبست کیا جاتا تھا شادیوں کا یہ اجتماعی پروگرام ماہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں منعقد ہوتا تھا جس میں اسلامی قانون کے مطابق کفایت شعاری کا عکس نظر آتا تھا اگر ایک ہی قبیلے میں دو سے زیادہ شادیاں ایک ساتھ ہوتی تو برادری کے لوگ تقسیم ہو کر شادی خانوں میں جاتے تھے جس سے شادی خانوں پر مالی بوجھ کم پڑتا تھا- دلہا دلہن کے ساتھ برادری کے بزرگ جاتے تھے اور شادی کے دن دولہا کو عمامہ پہنایا جاتا تھا اور ہاتھ میں تلوار دی جاتی تھی جو کہ اب بھی ایسا کیا جا رہا ہے مگر آج کل شادی کے دن دلہا دلہن کو جو لباس پہنایا جاتا ہے خدا معلوم کہ یہ ہماری کس ثقافت کا حصہ ہے دلہا کو کوٹ پتلون اور دلہن کو ساڑھی لینگا یہ ہماری ثقافت نہیں یاد رکھنا بیٹے جو لوگ اپنے اباواجد کی بیش قیمت ثقافت کی پرواہ نہیں کرتی بہت جلد دوسروں کی غلام بن جاتی ہے اور داستان تک نہیں ہوتی داستانوں میں – دادا جان پھر گویا ہوئے ماضی کی شادیوں میں دلہا دلہن کے اہل و عیال حسب استطاعت تحائف پیش کرتے تھے جسے بُروشسکی زبان میں ” بتکشی” کہتے ہیں ہمارے زمانے میں دولہا کو سسرال لے جانے سے قبل “اشپری” اور “بوتے ہریپ” نامی مخصوص دہنیں بجا کر نچایا جاتا تھا اور دلہن کو بھی خوب سجایا جاتا تھا دلہن کو زیورات پہنائے جاتے اور ہاتھوں پر مہندی لگائی جاتی تھی – دلہا دلہن کے ساتھ جانے والی باراتیوں کی تعداد بھی متعین کی جاتی تھی البتہ حکمرانوں کی شادیوں میں یہ تعداد سینکڑوں تک پہنچتی تھی اور بارات میں صرف بالغ مرد ہی جاتے تھے عورتوں کا بارات میں جانے کا رواج نہیں تھا دولہا کا نکاح اسلامی طریقے سے دلہن کے میکے میں پڑھا جاتا تھا- باراتیوں کےلئے مقامی روایت کے مطابق سفرے کا اہتمام کیا جاتا تھا جس میں سالم بکرا یا بھیڑ کو پانی میں اُبالا جاتا اور دسترخوان پر اسے سالم رکھا جاتا تھا پھر چھریوں سے اس کی قاشیں نکال کر کھایا جاتا تھا سفرے کے ساتھ نمکین حلواہ جسے مقامی زبان میں شربت اور دیسی گھی کا تیل پیش کیا جاتا تھا- برف باری کا سلسلہ مزید تیز تر ہوتا جا رہا تھا اور رات بھی کافی گزار چکی تھی مگر میں دادا جان سے مقامی ثقافت کی مزید باتیں سُننے کا خواہشمند تھا اس کے بعد دادی جان نے ہمارے لیے چائے کا بندوبست کیا داد جان چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے بتانے لگے – دلہن کی رخصتی کے وقت قبیلے کے جواں باراتی مرد دلہن کو پیٹھ پر بیٹھا کر سسرال لے جاتے تھے جو بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا جہیز کے سامان میں ایک جوڑا بستر کھانے پکانے کے چند سامان لکڑی چیرنے کے لیے کلہاڑی وغیرہ شامل ہوتے تھے- ایک قابل توجہ روایت برشو شادیوں کے موقع پر یہ بھی تھی کہ اگر راستے میں مختلف باراتیوں کا آمناسامنا ہوجاتا جو کہ اکثر و بیشتر ہوجاتا تھا ایسے میں مختلف قبائل کے باراتی اپنے اپنے دولہا دلہن کو دائیں جانب سے گزارنے کے لیے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوجاتے تھے چونکہ دائیں جانب گزارنے والے اپنے آپ کو غالب و برتر سمجھتے تھے جبکہ بائیں جانب گزرنے والے مغلوب اور بے اثر سمجھے جاتے تھے – بارات گزرنے والے مختلف راستوں پر قبیلے کے خواتین “پون” کے نام سے دولہا دلہن اور باراتیوں کے لیے “برم ہنیک” جس میں دیسی گھی شامل ہوتی تھی یا خشک فروٹ خیر سگالی کے طور پر پیش کرتی تھیں – آمد اسلام سے قبل اس کی جگہ شراب کی صراحی پیش کی جاتی تھی مگر اسلام کی آمد کے بعد شراب کی صراحی کی جگہ “برم ہنیک” کی روایت عام ہوئی – “پون” پیش کرنے والی خواتین کےلئے “باگو” کے نام سے سفرے میں سے حصہ دیا جاتا تھا آج کل یہ روایت بھی ختم ہوتی جارہی ہے لوگ آسانی کی خاطر ہوٹلوں اور مختلف شادی ہالوں میں شادی اور باراتیوں کے لیے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے جس میں نہ ہماری ثقافت کے مطابق سفرے کا انتظام ہوتا ہے اور نہ ہی ہماری روشن روایت کا کوئی پہلو آج کل کی شادیوں میں نظر آتا ہے – شادی کے دوسرے دن “دغونگ غشپ” نامی ایک رسم ادا کی جاتی تھی یہی ایک رسم اب تک چلی آرہی ہے اُس میں بھی لوگوں نے اپنی طرف سے ترامیم کی ہے- “دغونگ غشپ” میں دولہا کے گھر دلہن کے میکے والوں کو ضیافت پر بلایا جاتا تھا جن میں دلہن کے والدین، بھائی، بہن، اور دیگر رشتے دار خواتین وحضرات سب شامل ہوتے تھے – اس سے قبل صبح کے وقت دلہن سے سسرال کے گھر کے مستقل ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے مختلف کام دیکھائے جاتے تھے دلہن کو اس کی ساس آٹے کی ذخیرے پہ لے کر جاتی تھی اور سسرال کے گھر پہلی مرتبہ کھانا پکانے کی دعوت دی جاتی- شادی کے غالباً ایک ہفتے بعد دلہن کو میکے بلایا جاتا تھا جس کو “گرنے مجوس” کہا جاتا تھا اس موقع پر دلہن کو میکے کے گھر سے تیل میں پکائی ہوئی روٹیوں کے علاوہ خشک فروٹ کا بڑا ٹوکرا بھی دیا جاتا تھا – شادی کے بعد بیٹی کے ہاں پہلی اولاد ہونے کی صورت میں میکے کے گھر سے نومولود کے لیے کپڑے اور دیگر سامان دیا جاتا 
ایام زچگی کے بعد برشو روایات کے مطابق بیٹی کو اپنے نومولود کے ساتھ میکے کے گھر بلایا جاتا تھا اور میکے سے رخصت ہوتے وقت نواسہ یا نواسی کو ننیال کی طرف سے کوئی بندوق تلوار یا گائے بیل کا تحفہ دیا جاتا تھا – مگر اب ماضی کی یہ روشن روایات ختم ہوتے جارہے ہیں اب کی برشو شادیاں مالی استطاعت نہ رکھنے والوں کے لیے وبال جان بن گئیں ہیں شادی کے روایتی طریقے بدل گئے ہیں اور باہر سے درآمد شدہ نیا انداز اختیار کیا جارہا ہے رسم حنا اور بارات کا جدید طریقہ جس میں خواتین و حضرات اور بچے بچیاں سب شامل ہوتے ہیں حالانکہ برشو شادیوں میں خواتین کا شامل ہونا معیوب سمجھا جاتا تھا – جہیز کا نیا انداز مصیبت بن گئی ہے جس میں جہیز کا سامان ٹریکٹر پہ لادنا باراتیوں کی تعداد پچاس سے اُوپر پہنچ جاتی ہے ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو برشو شادیوں کی روایات نہیں – ہو سکتا ہے مندرجہ ذیل بالا باتوں میں کچھ غلطیاں بھی ہوں اور کچھ رسومات ایسی بھی جن کا شاہد ہمیں علم نہ ہو آپ تمام احباب سے التماس ہے کہ برائے اصلاح نیچے کمنٹس بکس میں اپنی قیمتی ارا سے ہماری اصلاح اور معلومات میں اضافہ کیجیے 
 
شہ پارے تحریر کریم مایور حوالہ جات : ریاست ہنزہ، تاریخ و ثقافت کے آئینے میں قراقرم کے قبائل ہنزہ کے قدیم تہوار اور رسوم و رواج ہندوکش کے قبائل

مزید دریافت کریں۔