ہنزہ نیوز اردو

ہنزہ میں ۱۹۸۵ء میں حسن آباد سے ایک کوہل نکال دی گئی کہ اس اُمید پر کہ ہنزہ کی مرکزی حصےسیراب ہو سکے

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

ہنزہ(این این آئی) ہنزہ میں ۱۹۸۵ء میں حسن آباد سے ایک کوہل نکال دی گئی کہ اس اُمید پر کہ ہنزہ کی مرکزی حصے یعنی علی آباد ڈورکھن اور حیدرآباد کی اراضی سیراب ہو سکے ۔کوہل کی تعمیر کے ابتدائی برسوں میں اُمید سے کہیں زیادہ پانی مُیّسر تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تیزی کی بجائے ایک بار پانی کی باری میں اضافے کی بجائے ہر سال ایک بار کم باری آنی شروع ہوئی ۔اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اب جالائی کی آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے کہ اب تک پیر اور بر بر کی زمینوں کو ایک بار بھی پانی میّسر نہیں ہے۔ نمبرداران اعلیٰ نمبرداری کی کشمکش میں مصروف عمل ہیں۔ پانی کی عدم دستیابی کی کسی کو پرواء نہیں ہے۔ جن بزرگوں نے حسن آباد سے کوہل پانی کی عام فراوانی کی نیّت سے بنوایا تھا اور عوام نے اپنی مدد آپ کی پالیسی اپنا کر کوہل کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ اس کامیاب واٹر چینل کے بانیوں میں صوبیدار (ر)شمع اللہ بیگ،حولدار(ر) جانان خان، نمبردار امیرحیات، نمبردار امیرحیات ڈورکھن،اعلی نمبردار حیدر آبادبابر خان(مرحوم) وغیرہ شامل تھے بعد ازاں اس کوہل کی نظام آپاشی کوچلانے کے لئے سابق اعلی نمبردار علی آبادفتح اُللہ بیگ اورصوبیدار(ر) میر (مرحوم)نمبر دار قبیلہ برونگ کی مرمون منت تھی، لیکن اب اِن بزرگوں کی قضاء الٰہی سے دنیا سے رخصت کے بعد اس نہر کی حالت سال بہ سال پستی کی جانب راوں دواں ہو گیا ہے۔ جو کہ مرکزی ہنزہ کے لئے ایک المیہ سے کم نہیں ۔ اور عوام آج پھر ایک بار پھر قوم کی حقیقی خدمت کے جذبے سے سر شار بزرگوں کو یاد اور اُن کی بے لوث خدمات کی مداح خونی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہائے صوبیدار میر ،ہائے فتح اُللہ اور ہائے صوبیدار شامی اللہ تجھے اب کہاں سے لائے۔ ساتھ ہی اُن بزرگوں کی شان میں ایک شعر بھی کہتے ہیں جویہ ہے بدلہ نہ جاسکا تیرے بعد بھی موضوع گفتگو 

مزید دریافت کریں۔