جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو میں اپنے بزرگوں سے سنتی آرہی تھی کہ ہمارے آباؤ اجداد کن حالات میں اپنی زندگی بسر کر رہے تھے۔ جب میں نے تاریخ کے کتابوں کے اوراق پلٹنا شروع کی تو بہادری کی لمبی مثالیں تھیں۔ آئیں ذرا ماضی کے جھروکوں میں تاکہ ہم جان سکیں کہ ہم کس راستے پر چل پڑے ہیں۔ کیا ہم نے اساس کو چھوڑ کر کہیں کسی اور تہزیب کے پیروکار تو نہیں بنے ہیں۔ یوں تو گلگت بلتستان کا قریہ قریہ جفاکشی بہادری کا پیکر جانے جاتے ہیں۔ جن کی تعریف دشمن نے بھی کی جب ہندوستان کو 1947 میں انہی ڈنڈا بردار ولولہ انگیز بہادر قوم کا سامنا کرنا پڑا۔ طاقتور ہندوستان سے گلگت بلتستان کا خطہ چھین کر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ 1999 میں کارگل کے محاز پر دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیئے جہاں دشمن نے خود ہی تعریف کی اور ہندوستان کے بزدل فوج کو اگر ڈر لگتا ہے تو این ایل آئی ہے کیونکہ این ایل آئی گلگت بلتستان کی رجمنٹ ہے۔ این ایل آئی میں گلگت بلتستان کے نڈر اور محب وطن جوان دفاع وطن کی قسم اٹھائے ہوئے ہیں۔ سرزمین ہاکستان کی دفاع میں نمایاں کارنامہ ا نجام دینے والوں کی لمبی فہرست ہے جن میں حوالدار لالک جان کرنل حسن خان، صوبیدار صفی اللہ بیگ اور گروپ کیپٹن شاہ خان جیسے قومی ہیروز شامل ہیں۔ جب برطانیہ راج نے برصغیر پاک وہند میں اپنا قبضہ جمایا اسی دوران گلگت بلتستان میں بھی انہوں نے اپنے قدم مضبوط کیا۔ بعض جگہوں میں مرقوم ہے کہ کئی علاقوں میں انگریز سامراج کے فوجوں کے ساتھ جنگ وجدل کا راستہ اختیار کیا گیا جس بناء پر تباہی دیکھا گیا اور جن علاقوں پر قبضہ کیا گیا تھا وہاں مقامی رسم و رواج اور تہزیب و تمدن پر بہت زیادہ فرق پڑا اسی دوران گلگت بلتستان کے عوام نے اپنے دانش مندانہ فیصلوں سے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا اسی طرح گلگت بلتستان میں ہمارے تہذیب و تمدن کو نقصان نہیں پہنچا۔ آج کی نسل ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اتفاق پیدا کرنا ہوگا۔ ہمارا ازلی دشمن ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان اپنے مذموم عزائم لے کر ہمارے ملک اور ہمارے گلگت بلتستان کو کمزور کر نے میں لگا ہوا ہے اسی لئے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے مقاصد کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں اپنے اندر اتفاق پیدا کرنا کتنا اہم ہے۔ برطانوی راج کے تحت جو حکومت برصغیر پاک و ہند میں تھی اس میں بھی گلگت بلتستان کے دانشوروں نے مفاہمت کا راستہ اپنایا تھا جس وجہ سے انگریزوں کے دور میں بھی غلامانہ سوچ موجود نہیں تھی۔ جغرافیائی سرحدوں کی شاندار تحفظ کیسے ممکن ہوا اگر اس امر کی طرف توجہ دیں تو قومی یکجہتی اور بلند ہمت و حوصلہ اس کامیابی کے پیچھے کار فرما ہے۔ جغرافیائی سرحدوں کی جانفشانی سے حفاظت کے ساتھ ساتھ کس طرح سے نظریاتی سرحدات کا بھی انہوں نے دفاع کیا ہے اس کا درخشان تاریخ موجود ہے۔ کتنا کٹھن دور تھا اس میں کوئی آج کل کی طرح یہ سہولیات موجود نہیں تھیں کوئی انٹرنیٹ نہیں تھا گرمی سے بچنے کے لئے کوئی وسیلہ نہیں تھا اور سردی سے بچنے کے لئے بھی کوئی خاطر خواہ ان کے پاس سہولیات نہیں تھیں کمیونیکیشن کے بہت سارے مسائل تھے سڑک تھا نہ ٹیلی فون تھا کسی سے رابطہ کے لئے میلوں دور پیدل سفر طے کرکے گرمی یا سردی میں جانا پڑتا تھا۔ اس دور میں کچھ نہیں ہونے کے باوجود لوگوں میں اتفاق کا بے مثال نمونہ دیکھا جا سکتا ہے جو آج ہماری نسل کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکتا ہے جب ہم اپنا تاریخ بھلا بیٹھیں گے تو ہم مستقبل میں درست سمت تلاش نہیں کر سکیں گے اس لیے ہم اپنے ماضی کے ان ادوار کو یاد رکھنا بہت لازمی ہوگا کیونکہ ہمارا ایک تابناک ماضی ہے جس سے ہم پوری دنیا میں پہچان ملی ہے اقوام میں ہمیں عزت بخشی گئی ہے اور ہمارے آباؤ اجداد میں جو جوش و ولولہ اور اتفاق و یگانگت تھی اس کی مناسبت سے ہمیں بھی بہادر قوم کے سپوت کہلائے جاتے ہیں اس سے ہمیں بڑا فکر محسوس ہوتا ہے آج کا دور بھی یکجہتی اور اتفاق کا تقاضہ کرتا ہے جب کی ہم گلوبل ولیج کی شکل میں ہم ایک دوسرے سے بہت جڑے ہوئے ہیں ہمیں چاہئے کی آنے والی نئی نئی چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے جدید علوم و فنون کے ساتھ ہم آہنگ ہونا پڑے گا۔ جب محسوس ہوتا ہے کہ نوجوان نسل سماجی برائیوں میں مبتلا ہیں ان کی تعلیم کا جو مقصد تھا وہ وہ بیکار ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ ان کے اندر نشہ اور دوسری سماجی برائیاں پھیلتی جارہی ہیں جو کی ہمارے معاشرے کی اساس کو کمزور کریگا اور ہم مستقبل میں چیلنجوں کا آسانی سے مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ کی تعلیم کی شرح دوسرے جگہوں کی نسبت بہت زیادہ ہے لیکن خاطر خواہ اس کے نتائج نہیں مل رہے ہیں آج کا دور اور جدید سائنسی دور ہے ہر کسی شعبے میں بہت ترقی ہوئی ہے ہمیں بھی زمانے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ڈھال کر چلنا ہوگا تا کہ ہم بھی اپنے مقاصد کو حاصل کرسکیں اور علاقے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔ گلگت بلتستان میں قدرتی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے دریائے سندھ شور مچاتا ہوا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے اس سے استفادہ حاصل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ شمالی پاکستان میں اونچے پہاڑ اور دلکش وادیوں تک رسائی آسان بنا کر ٹورزم انڈسٹری کو زرخیز بنایا جا سکتا ہے۔ اور معدنیات کے اوپر جدید خطوط پر تحقیق کر کے عالمی منڈیوں تک اپنے قیمتی پھتر پہنچا سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان اگلے کچھ سالوں میں ترقی کے زیادہ منازل طے کر سکتا ہے کیوںکہ محل وقوع میں اہم اور بڑے ملک ہونے کے ناطے سی پیک کی طرح اور بھی مواقعے مل سکتے ہیں اس لئے گلگت بلتستان کے بڑے آبادی والے قصبوں اور شہروں میں تعمیرات سڑکیں اور زراعت پر منصوبہ بندی کے تحت کام کرنا ہوگا۔

مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ