ہنزہ نیوز اردو

ہم جو محسوس کرتے ہیں وہی تحریر کرتے ہیں

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

صحافی جو مشکل حالات میں اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آپ لوگوں تک خبریں فراہم کرتایے حق اور سچ کا ساتھ دیتا ہے، ظلم کے خلاف دیوار بن کر سامنے آتا ہے ، جو غریبوں اور مظلوموں کی آواز بنتا ہے ، ایک صحافی جو ان مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود ، صحافیوں کو بدلے میں کیا ملتا ہے ، موت یا الزامات ، جی ہاں اگر کوئی صحافی پولیس کی پولیس گردی کے خلاف آواز بلند کرئے تو پولیس اس کے خلاف ہوتی ہے اگر سیاست دان کی تعریف کرے تو لفافی صحافی ، اگر منشیات فروشوں کے خلاف لکھے یا آواز بلند کرئے تو وہ دشمن ، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی صحافی کے دوست یا ہمدرد کم اور دشمن اور مخالفین زیادہ ہوتے ہیں ، مگر صحافی پھر بھی اپنی محنت اور کام کرتا رہتا ہے ، یہ سب کہنے کا مقصد یہ ہے گزشتہ دنوں پی ایچ کیو ہسپتال گلگت میں توڑ پھوڑکیا گیا تھا اس افسوسناک واقعے کے بارے میں ، میں نے ایک تحریر لکھی تھی ، جس میں نہ تو میں نے ڈاکٹروں کی کھول کر حمایت کی تھی اور نہ توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف کچھ لکھا تھا ، یاد رہے ، نہ میں ڈاکٹروں کے ساتھ ہوں اور نہ توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف ، میں وہ تحریر کرتی ہوں جو میں محسوس کرتی ہوں ، جو سچ ہو جو حقیقت پر مبنی ہو نہ کہ خیالات اور مرضی سے ۔میری سابقہ تحریر کو کچھ قارئین نے پڑھا پسند کیا اتفاق کیا اور کچھ نے مخالفت کی ، خیر اتفاق اور مخالفت ہر کسی کی مرضی ہے ، لیکن مجھے دکھ اور افسوس تب ہوا جب سوشل میڈیا پر میری تحریر کو لے کر بےبنیاد اور من گھڑت الزامات لگایے گیے زرد صحافت کہا گیا میں نے جو لکھا وہ سچ لکھا ہےاور میں نے اپنی سابقہ تحریر میں کہا تھا کہ یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے اور میں نے حکومت سے گزارش بھی کی تھی کہ حکومت اس واقعے کی تحقیقات کراٸیے اور گناہ گاروں کو سزا دے تاکہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی ہمت نہ ہو چاہے وہ ڈاکٹر ہو نرس ہو یا پیرا میڈیکل اسٹاف یا پھر مریض کے لواحقین ، قانون سب کے لیے برابر ہے ، اگر کسی ڈاکٹر کی غفلت سامنے آئے تو بلا جھجک کاروائی کی جائے اور اگر مریض کے لواحقین پر ثابت ہو کہ وہ غلط تھے تو ان کے خلاف بھی بغیر کسی دباؤ میں آٸے کاروائی کی جائے تاکہ پھر کبھی کوئی ہسپتال جنگ کا منظر پیش نہ کرے۔اگر اس واقعے کو سا ئیڈ کر کے رکھیں اور دیکھیں تو معلوم ہوگا ڈاکٹروں کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ ظلم ہے ، حکومت ہسپتال تو بناتی ہے ، مگر کیا آپ نے کسی ہسپتال کے ساتھ ڈاکٹروں کے لیے رہائشی کالونی یا گھر دیکھیں ہیں؟ ویسے تو گریڈ 16 سے اوپر سرکاری ملازمین کی آسانی کے لیے نزدیک کوئی رہائش کا انتظام ہوتا ہے۔کیا آپ نے کبھی ڈاکٹر کے پاس حکومت کی گاڑی دیکھی ہے جو ڈاکٹروں کو گھروں سے ہسپتال کے آمد و رفت کے لیے ہو ؟ کھبی سرکاری گاڑی میں ڈاکٹروں کے بچوں کو گھومتے دیکھا ہےاور ہاں ہر رات کے نا ئٹ شفٹ میں جو ڈاکٹر ہوتا ہے اس کے لیے جو کمرہ ہوتا ہے کیا آپ نے اس کمرے کی حالت زار دیکھی ہے ؟یقیناً نہیں ، اگر نہیں تو آپ لوگ پہلے جو ڈاکٹروں پر بے وجہ تنقید کرتے ہیں ایک دفعہ سرکاری ہسپتالوں میں جاکر معلوم کریں خود دیکھیں ، اور ایک دن نجی ہسپتالوں میں جاکر بھی دیکھ لیں پھر آپ کو معلوم ہوگا ، کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ، جی کبھی کبھی ڈاکٹروں کی غفلت بھی ہوسکتی ہے لیکن ہر بار یہ نہیں ہوتا کہ ڈاکٹر غلط ہو۔ڈاکٹر ہوتے ہی کیوں ہیں ؟ میرے لیے آپ کے لیے ہوتے ، ایک بچہ دنیا میں بھی ڈاکٹروں کی وجہ سے آتا ہے پیدائش سے آخری دن تک اس کا کبھی نہ کبھی ڈاکٹروں سے واسطہ پڑتا ہے ، ڈاکٹر تو آپ کی زندگی بچانے کے لئے ہوتےہے ، نہ کہ آپ کو مارنے کے لیے ، کون ایسا ڈاکٹر ہوگا جو مریض کو مرنے کے لئے چھوڑ دیتا ہو ہمارے ذہنوں میں کچھ لوگوں کی وجہ سے یہ بات بیھٹی ہوئی ہے کہ ڈاکٹر علاج نہیں کرتے ، زندگی اور موت نہ ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہے اور نہ مریض کے ، زندگی اور موت اللّٰہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے وہ جیسے چاہے مار دے اور جیسے چاہے زندگی دئے اس کی ایک مثال کل ہونے والے جہاز کے حادثے میں دیکھنے کو ملی کہ کراچی جناح ٹاؤن میں ایک جہاز جو کہ لاہور سے آرہی تھی ،جو لینڈنگ سے ایک دو منٹ پہلے رہائشی آبادی پر گرا اور سو سے زائد لوگ اس حادثے کے نتیجے میں جانبحق ہوئے اور اس حادثے میں معجزانہ طور پر دو لوگ بچ گئے ، بے شک زندگی اور موت اللّٰہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے ۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ زندگی اور موت اللّٰہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے اور نہ جو مریض ہسپتال میں آئے وہ چل کر واپس جائے اور ایسا بھی نہیں جو مریض ہسپتال آئے وہ چل کر خود نہ جائے ، ڈاکٹرز ان حالت میں بھی کم سہولیات کے باوجود اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں ، جن کو میں بھی تسلیم کرتی ہوں ، اور جو ڈاکٹر آئیندہ کبھی غفلت کا مظاہرہ کرے تو اس کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے تاکہ عوام اور ڈاکٹروں کے درمیان اچھے تعلقات ہوں

لیکن یاد رہے میں کوئی ضمیر فروش یا لفافی صحافی نہیں ہوں ، میں جو حقیقت ہو جو سچ ہو وہ تحریر کرتی ہوں اور ہمیشہ کرتی رہونگی چاہے آپ جو سوچیں میں اپنے کام سے پیچھے ہٹنے والی نہیں ، کوئی مجھ سے اتفاق کرئے یا نہیں ہم جو محسوس کرتے ہیں وہی تحریر کرتے ہیں

مزید دریافت کریں۔