ہنزہ نیوز اردو

ہم بت پرست قوم۔۔۔۔اور۔۔۔ خلفائے راشدین

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

تحریر: امیرجان حقانی۔۔ٹائٹل: ریڈ کراس
:
عید قربان سب کو مبارک ہو، سچ یہ ہے کہ یہ قربانی کا جیتا جاگتاایک زبردست احساس ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حضور بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری پھیر کر امت کو تحفہ میں دیا ہے۔ یہ وہی حضرت ابراہیم ہے جس نے بتوں کے سامنے جھکنے بکنے اور انہیں سلیوٹ کرنے اور ان کی عبادت کرنے سے نہ صرف انکار کیا تھا بلکہ ہمت کرکے ان کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردیے تھے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم بت پرستی کو حرام اور گناہ عظیم بلکہ کفر سمجھتے ہیں اور ہماری تاریخ یہ ہے کہ ہم مسجد میں بھی خلیفہ وقت سے سوال کرسکتے تھے، جواب مانگ سکتے ٹھے،اور امرا و خلفا کو بھی کٹہرے میں کھڑے کرسکتے تھے۔ماضی بتاتا ہے کہ ہم نے کبھی بھی بت پرستی کسی بھی شکل میں قبول نہیں کی لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ اج ہم نے سینکڑوں بت بنائے ہوئے ہیں، ہم لاشعوری میں ان بتوں کی عبادت بھی کرتے ہیں، ان کو پوجتے بھی ہیں اور وہ سب کچھ کرتے ہیں جو مشرک اور بت پرست قوم کیا کرتی تھی۔ہم ان بتوں پر نہ نام لے کر تنقید کرسکتے ہیں نہ سوال اٹھا سکتے ہیں اور نہ ہی عمومی طور پر ان کے متعلق کچھ کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔ لیکن پھر بھی ہم راہ حق کے راہی کہلاتے ہیں۔کیا تعلیمات ابراہیمی یہیں ہیں؟۔
کیا یہ سچ نہیں کہ ہم مجموعی طور پر ایک ڈرپوک، غیرت سے خالی اور جذبات سے عاری قوم ہیں۔ہم نے کبھی بھی سچ جاننے کی کوشش نہیں کی۔ ہم سچائی جانے بغیر، سچائی کو دیکھے ،پرکھے اور پوچھے بغیرکسی کے اوپر اپنی رائے قائم کرلیتے ہیں یہ سوچے بغیرکہ اس کے پیچھے اصل کہانی اور محرک کیا ہے۔آخر وہ ایسا کیوں کہہ رہا ہے۔ ہم ہر اس بات کو مانتے ہیں جو طاقت کے زور پر ہم سے کہلوائی جاتی ہے اور دیکھائی اور سنوائی جاتی ہے۔ ہم کسی بھی امیر بہ الفاظ دیگر کسی بھی بت کی ایک واہ سننے کے لئے ہزاروں غریبوں اور لاچاروں کی واہ کو آہ میں بدل سکتے ہیں۔ اور خدائی عذاب کے لیے خود کو تیار کرتے ہیں۔ہم بھیڑ میں چھپ کر کسی پر بھی وار کرلیتے ہیں تاکہ جب شامل تفتیش ہو جائیں تو ہماری پہچان نا ہوسکے۔ ہم کسی بھی جگہ ، برلب دریا، ہوٹل کی کرسی اور دوستوں کی محفل میں یا کسی کونے میں بیٹھ کرچائے کی چسکیاں لیتے ہوئے کسی بھی بت کے بارے میں تنقید کرسکتے ہیں، خامیاں ڈسکس کرسکتے ہیں اور ان بتوں اور ان کے بجاریوں کو برا بھلا کہہ سکتے ہیں، سوال اٹھاسکتے ہیں اور جب وہی بت سامنے آجائے تو کھڑے ہوکر اس سے مصافحہ بھی کرلیتے ہیں۔عقیدت و احترام سے جھک بھی جاتے ہیں۔ پیر بھی چھو لیتے ہیں۔ ہم اپنے ارد گرد ہونے والی ناانصافیوں کے بارے میں جانتے بھی ہیں اور دل ہی دل میں برا بھی مانتے ہیں اور کوستے بھی ہیں اور جب کوئی اس سے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے ، اصلاح احوال کے لیے ایک قدم اٹھاتا ہے یا اس کے لئے آواز اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا ساتھ دینے کی بجائے یا تو اس سے کنارہ کرلیتے ہیں یا پھر سب مل کے اس کے خلاف ہوجاتے ہیں اور اس کو صلواتیں سناتے ہیں اورپھر اس کو اس سسٹم کی ناانصافیوں کو اکیلے جھیلنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ اور تماشائی بن جاتے ہیں یا تماشہ دیکھ کر اسے احمق ، جاہل اور گنوار جیسے القاب سے بھی نوازتے ہیں۔ہم ہر طاقت اور طاقتور کے ساتھ کھڑا رہتے ہیں اور وہ جس کو غلط کہے اسکو غلط کہتے ہیں اور وہ جس کو ٹھیک ، درست اور سچ کہے ہم بھی اس کی لے میں لے ملاکر اس کو ٹھیک سمجھتے ہیں اور ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ اپنی سوچ کو اس کے حکم کے گرد سمیٹ لیتے ہیں تاکہ ہم کسی بھی طرح اس کے سامنے غلط نا ٹھہرے۔اور کسی ازمائش میں مبتلا نہ ہوجائے۔ہم ہر طاقتور شخص کی خوشامد کرلیتے ہیں۔ اور غریب کو ساتھ بیٹھنے کا گوارہ نہیں کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا ایمان اللہ کے بجائے اس بت پر بنا ہوتا ہے جس کی تقلید میں ہم ہرناجائز کام کرلیتے ہیں۔
اگر سچ کہوں تو: ہم مجموعی طور پر ایک بزدل قوم ہیں جو غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح نہیں کہہ سکتے۔ ہم ہر وہ گھٹیا حرکت کرتے ہیں تاکہ اس سے اپنے اندر کی فرسٹریشن کو کم کرسکے۔ یہ ایک لولی پاپ ہے جو روز ہم خود کو دیتے ہیں۔۔۔
لیکن کیا اس سے ہمارا ضمیر مطمئن ہوجاتا ہے۔۔؟
کیا اس سے ہم اپنی فرسٹریشن ختم کرسکتے ہیں۔۔۔؟
کیا اس سے ہم ترقی کی راہیں ہموار کرسکتے ہیں۔۔۔؟
کیا یہ سچ نہیں کہ ہم بت پرستی میں سرتا پا ڈوبے ہوئے ہیں اور نام خلفائے راشدین کا لیتے ہیں۔۔۔؟
سوال اٹھانا میرا کام ہے۔۔۔۔ آپ جواب دیجیو۔۔۔
احباب کیا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟

مزید دریافت کریں۔

مضامین

وقت سے پہلے بے ذوق ذمہ داریاں

زندگی کے مختلف ادوار میں ہمارے سامنے طرح طرح کی ذمہ داریاں آتی ہیں، اور یہ ذمہ داریاں کسی حد تک ہماری شخصیت کی تعمیر