ہنزہ نیوز اردو

ہم اور کورونا ساتھ ساتھ

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

 دسمبر 2019میں چین کے شہر سے پھیلی یہ وبا جس کو کورونا وائرس اور کویڈ 19 بھی کہا جاتا ہے ، دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں اپنے پنجے گھاڑ نے لگا ، دنیا بھر میں نظام زندگی کو بری طرح درہم برہم کیا ، دنیا کی معیشت تباہ کر کے رکھ دی ، لاکھوں نہیں بلکہ کروڈوں لوگوں کو بے روزگار کر کرگئی ، غریبوں کے لیے دنیا میں عزاب ثابت ہوئی ، غریبوں کی جھولی کو امیر لوگوں کے سامنے پھیلانے پر مجبور کر کے رکھ دیا ، ہسپتالوں میں بیمار کم کرونا کے شکار مریضوں کی تعداد کو زیادہ کر گیا ، ڈاکٹروں کو سپاہی اور فرنٹ لائن پر لاکر کھڑا کر دیا ، دنیا کو امتحانی حال میں لاکر رکھ دیا ، سائنس دانوں اور طب کے شعبے کو بری طرح ناکام کیا ۔ سائنس کی کامیابیوں کا روند دیا ۔سپر پاور ملک کو رونے پر مجبور کر دیا ۔

خانہ کبعہ اور مساجد ، امام بارگاہوں ، جماعت خانوں کو کچھ وقت بند کر دیا ، جو آج تک دنیا میں کسی نے نہیں دیکھا تھا اور نہ سوچا تھا ، ایک چھوٹے سے کورونا وائرس نے وہ بھی کر کے دیکھا دیا ۔اور ساتھ ساتھ لوگوں کو استغفار اور توبہ کا موقع بھی دے گیا اور سب سے بڑ کر اللہ کی طاقت ، کی ایک جھلک دنیا والوں کو دیکھایا گیا ۔ جو غافل تھے کہ اوپر بھی اللّٰہ ہے جس نے پیدا کیا ہے لیکن یہ دنیا کے لوگوں نے اللّٰہ تعالٰی کو بھلا دیا تھا ۔ موت کا ڈر ختم ہوچکا تھا ، انسانیت انسان میں ختم ہو چکی تھی ۔یہ جو دنیا میں خدا بنے پھرتے تھے غریبوں کا حق کھاتے تھے ، یتیموں کے مال کی طرف دیکھتے تھے ، جن کا ضمیر مردہ تھا ، جو حرام کو حلال سمجھ کر کھاتے تھے ، جو ناپ تول میں کمی کرتے تھے ، جو دودھ میں پانی ملا کر فروخت کرتے تھے ، جو پیسے اور سفارش پر نوکریوں کو فروخت کرتے تھے جو میریٹ کا قتل عام کیا کرتے تھے ، جو معصوم لوگوں کی جان لیتے تھے جو معصوم ، زینب جیسے کم سن بچیوں اور بچوں کے ساتھ بدفعلی کر کے قتل کرتے تھے ، اور یہ شاید اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے ہمارے لیے ہمارے گناہوں اور شام کے اس شہید بچے کی وجہ سے آیا ہے جس نے شہادت سے کچھ وقت قبل کہا تھا میں اپنے رب کو سب کچھ بتاؤں گا ۔جی قائرین اور ان سب کے باوجود ہم کہتے ہیں یہ کورونا کیوں آیا ؟تو اس سوال کا جواب میں نے تفصیل اور اچھے طریقے سے بیان کیا ہے آپ دیکھیں قارئین ، ایک نظر بھی نہیں آنے والی وائرس جس نے دینا بھر میں 3 لاکھ لوگوں کی جانوں کو نگل گیا ہے ، اور ابھی بھی قابو میں نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر سائنس ، طب آج تک 6 ماہ گزرنے کے باوجود ناکام ہے ، بے شک زندگی اور موت اللّٰہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے ، اس پر کسی کو شک و شبہ نہیں ۔

لیکن انسان اپنی طرف سے کچھ ہاتھ پیر مار بھی دیتا ہے تو اج سے دو ماہ قبل جب گلگت بلتستان کی حکومت نے کورونا وائرس سے حفاظت کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا اگر حکومت واقعی میں چاہتی ہے کہ کورونا وائرس گلگت بلتستان سے ختم تو حکومت کو چاہیے تھا کہ ایک مہینے کے لیے گلگت بلتستان بھر میں کرفیو نافذ کر تی ، اور یہ کرفیو نافذ کرنے کے حق میں ، میں اس لیے ہوں کہ لوگ کرفیو کی وجہ سے گھروں میں رہیں گے کوئی بھی شخص چاہ کر بھی اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکے گا اور اس کو اجازت نہیں ہوگئی ، رہی بات غریبوں اور مستحقین کی تو حکومت ان کے گھروں میں راشن تقسیم کرنے کا انتظام کرتی ، ہاں اگر کرفیو نہیں تو ، لاک ڈاؤن بھی نہیں لگایا جائے ، کیوں اس کا کوئی فائدہ مجھے نظر نہیں آرہا اور آج بھی ایم ایل آئی مارکیٹ گلگت میں خواتین و مرد کا اتنا رش تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی ایس او پز کی دھجیاں کھلے عام بکھیری جا رہی تھی کسی کے اندر کرونا کا خوف نہیں تھا عید کی خریداری میں مگن مردو خواتین کرونا جیسی مہلک وبا کو بھول کہ خریداری میں مصروف تھے لیکن حکومت گلگت بلتستان نے بھی لاک ڈاؤن کے نام پر ملک کے دیگر صوبوں کی طرح مزاق کیا ہے ، اور آج نتیجہ دیکھ لیں اتنے ماہ لاک ڈاؤن کے باوجود کورونا قابو میں نہیں اور آئے روز گلگت میں کرونا کے مریضوں میں تیزی کا ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ایک طرف لاک ڈوان میں نرمی دوسری طرف کرونا کا رونا رونا سمجھ سے بالاتر ہے اگر گلگت بلتستان میں کرونا تیزی سے پھیل رہا ہے تو حکومت عملی اقدامات کرتی نظر کیوں نہیں آرہی ہے ۔۔۔ایک دن مکمل لاک ڈوان سے کیا کرونا وائرس کہیں اور جگہ منتقل تو نہیں ہورہا ہے ایک طرف برائے نام لاک ڈوان تو دوسری طرف معیشیت تباہ کر کے رکھ دیا ہے ، تاجروں کو سڑک پر لاکر رکھ دیا ہے اور دیکھ لیں ، اج مجبوراً لاک ڈاؤن ختم کیا جارہا ہے ، اس سے اچھا نہیں تھا کہ آپ دو تین ماہ لاک ڈاؤن کرنے سے شروع ہی میں ایک ماہ کرفیو نافذ کرتے ؟لوگوں کا لاک ڈاؤن سے جتنا نقصان ہوا ہے اتنا کرفیو میں نہیں ہوتا ۔ اور یہ بات واضح تھی کہ آج جو نتائج ہیں وہ نہ ہوتے خیر یہ سب اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے آپ اسے عزاب کہہ یا آزمائش جو بھی ہے اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے ہے ۔ہمیں ابھی توبہ استغفار اور احتیاط کے ساتھ اپنی بقیہ زندگی بسر کرنی ہے کیوں کہ اس سال کوئی بھی ویکسین نہیں بنائی جاسکتی یہ میرا نہیں طب کے ماہرین کا کہنا ہے اور ان کا مزید کہنا تھا کہ اب ہمیں اپنی زندگی کو جینا ہے تو احتیاط اور سماجی فاصلے کو برقرار رکھنا ہوگا ، ہمیں اس وائرس کے ساتھ ہی احتیاط کے ساتھ جینا ہوگا ۔اسی طرح دنیا بھر کے ممالک نے لاک ڈاؤن میں نرمی یا ختم کیا ہوا ہے کیوں وہ ایک پورا سال لوگوں کو گھروں میں قید نہیں کرسکتے ۔دنیا بھر کی طرح پاکستان نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں اس کورونا وائرس کے ساتھ احتیاط سے جینا ہوگا ، مارکیٹیں اور اب ٹرانسپورٹرز کو بھی ایس او پی کے تحت اجازت دی ہے ۔آخر میں ایک خوش خبری یہ کہ امریکہ نے کورونا کے خلاف دوا تیار کیا ہے اور تین ممالک اور چھ کمپینوں کو اس دوا کو تیار کرنے کی اجازت دی ہے جن میں پاکستان کے ایک دوا ساز کمپنی فروز اینڈ سنز لیبارٹری کو بھی اجازتِ دیا گیا ہے اور پاکستان اس دوا کو اپنے لوگوں اور باہر ممالک کو بھی فراہم کر سکے گا ۔یاد رہے یہ دوا ، کورونا کے خلاف بہت مفید ثابت ہوا تھا اور چین نے بھی اپنے ملک میں کورونا کو ختم کرنے کے لیے اس دوا کو استعمال کیا تھا ۔ یہ بات آپ زہن نشین کریں کہ یہ دوا یہ ویکسین نہیں ، اپ سب سے پہلے تو بغیر کام کہ گھروں سے باہر نہیں نکلیں اور جب ضروری کام سے جانا ہوا تو ماسک کا ضروری استعمال کریں ۔اگر حکومت ابھی پھر سے کرفیو یا لاک ڈاؤن میں سختی کرئے تو دیہاڑی دار لوگوں کے گھروں میں پہلے سے فاقے آئے ہیں تو وہ کہاں جائینگے ؟

پہلے سے 15 لاکھ لوگوں کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت معاشی پریشانی کا شکار ہیں ان کا کیا ہوگا ؟ تو مزید لاک ڈاؤن کرنا بہت مشکل ہے ۔تو آپ کو حکومت نے جو ایس او پیز پر عمل کرنے کا حکم دیا ان پر عمل کریں اور توبہ استغفار اور احتیاط کے ساتھ اس کورونا کے ساتھ کی جب سے کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوتی زندگی گزاریں

مزید دریافت کریں۔