ہنزہ نیوز اردو

ہمیں متنازعہ کیوں بنایا گیا؟

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے نت نئی چیزیں وجود میں آرہی ہیں ۔جو چیزیں وجود میں آتی ہیں ان کے فائدوں کے ساتھ نقصانات بھی ہوا کرتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ انسان ان چیزوں سے فائدہ اٹھانے والی خاصیت کا استعمال کم اور نقصان پہچانے والی کا زیادہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔اپنی اس بات کی تائید کے لئے موبائل اور کمپیوٹر ی کی مثال دوں تو بے جا نہ ہوگا۔اگر میری اس بات پر یقین نہیں تو سوشل میڈیا فیس بک پر زیادہ نہیں صرف ایک گھنٹہ بیٹھ کر آپ میری اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں ۔ جہاں نئی نئی چیزیں منظر عام پر آرہی ہیں وہاں ہماری لشکری زبان اردو کے ذخیرہ الفاظ میں بھی بے تحاہشہ اضافہ ہونے کے ساتھ ان کے تلفظ بھی سوالیہ نشان ہیں ۔ ان ذخیرہ الفاظ کا تلفط و ادائیگی بگاڑنے اور بڑھانے میں رومن اردو لکھائی کا بھی کمال بڑا نظر آتا ہے ۔اردو کو رومن لکھائی میں لکھنا مناسب ہے یا نہیں اور اس سے تلفظ میں سدھار آتا ہے یا بگاڑ یہ ایک الگ بحث ہے میرے نزدیک تو اردو کو رومن میں لکھنا لشکری زبان کے ساتھ نہ صرف زیادتی ہے بلکہ اردو کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے ۔بقول رئیس امروہوی

فریاد یہ سب کے دل مغموم سے نکلے

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

ابھی پچھلے ہفتے ہی ایک پیغام جو رومن اردو میں تھا ایک صاحب کو ملا ۔ جس میں شہری ، ان اور مُلک کے الفاظ رومن میں لکھے ہوئے تھے پڑھنے والا صاحب ان کو شیری ، اون اور ملوک پڑھ رہا تھا ۔پڑھنے کی حد تو ٹھیک بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی اچھے لفظ کو پڑھنے والا کچھ اور پڑھتا اور سمجھتا ہے اور اس کے بعد کی حالت نہ پوچھیں توبہتر ۔کچھ ایسا ہی حال گلگت بلتستان کے حضرات کا دکھائی دینے لگا ہے جب سے سپریم کورٹ آف پاکستان کا جی بی سے متعلق دو ٹوک فیصلہ آیا ہے ۔اس فیصلے سے متعلق عجیب و غریب تبصرے، کمنٹس اور سمجھ سے بالا الفاظ نہ وہ اردو لغت میں ملتے ہیں اور نہ ہی گوگل ان کی کوئی تشریح پیش کرتا ہے۔اب آپ ہی بتائیں کہ ان الفاظ کو سمجھنے اور جاننے کے لئے کہاں کا رخ یا رجوع کیا جائے۔بات آپ سمجھ گئے ہونگے جس کا کام اسی کو ساجھے۔اب ہم جیسے لوگ جن کو رومن اردو لکھائی بھی پڑھنی نہیں آتی اور متنازعہ لفظ کے معانی کو الٹا سمجھیں تو قصور کس کا ہوگا ہمارا یا جس نے متنازعہ کا لفظ لکھ دیا جس کو آج تک ہم نہ سمجھ سکے حالانکہ سمجھانے اور بتانے والے نے ہر قدم اور ہر منزل میں ہمیں جگانے کی کوشش کی لیکن ہم خرگوش کی نیند سو رہے تھے اب کچھوا ہم سے آگے نکلا ہے۔ کم از کم منزل میں پہنچ کر کچھوے صاحب سے یہ تو پوچھے کہ بھائی آپ منزل تک مجھے سے پہلے کیسے پہنچے ۔بجائے کچھوے کےآگے نکلنے سے سبق لیتے پھر سے بیج راستے میں وہی پُرانی کتھا لیکر بیٹھنا کہاں کی ہوشیاری اور عقلمندی ہے اب اپ ہی بتائیں یہاں مجھے وہ مشہور جملہ جو پورے پاکستان میں مشہور ہوا تھا یاد آئے تو اس میں کوئی بُرائی تو نہیں ہوگی لیکن اس جملے کو یہاں لکھ دوں تو بہت سارے دوستوں کو ناگوار گزرے گا اس لئے اتنا بتا دیتا ہوں کہ عدالت کسی کو نا اہل قرار دے یا فیصلہ اس کے حق میں نہ ہو تو پھر کیوں کا لفظ ایک مذاق بن جاتا ہے ۔اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جاتی ہے جھگڑا دھنگا فساد نہیں ،جی بی کی تاریخ پڑھنے والوں کے لئے لفظ متنازعہ کوئی نیا اور نرالا نہیں جیسے پہلے مذکور ہوا ہے یہ تو ہمارے ساتھ عبوری کونسل 1947 سے چلا آرہا ہے۔ اب ہمارا یہ کہنا کہ ہمیں متنازعہ کیوں بنایا گیا؟ تو مجھے پورا یقین ہے کہ یہ لفظ بھی پورے پاکستان میں مقبول ہونے والا جملہ ہی بن سکتا ہے اور یہ ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہوگا ۔ہم متنازعہ تھے اس لئے ہمیں متنازعہ بنایا گیا، جب پاکستان وجود میں آیا تھا اس وقت بھی ہم پاکستانی نہیں تھے اس لئے متنازعہ بنایا گیا، جب پاکستان اور ہندوستان اپس میں ہماری وجہ سے جھگڑ رہے تھے اس وقت بھی ہم متنازعہ تھے اس لئے ہمیں متنازعہ بنایا گیا ، جب پاکستان اور اور ہندوستان اپنا جھگڑا اقوام عالم لے کے گئے اس وقت بھی ہم متنازعہ تھے اس لئے ہمیں متنازعہ بنایا گیا۔جب ہم نے سردار عالم کو اپنا پولیٹکل ایجنٹ اور آقا مانا تھا اس وقت بھی ہم متنازعہ تھے اس لئے ہمیں متنازعہ بنایا گیا ۔مجھے تو متنازعہ کہلانے یا ہونے میں کوئی بُرائی نظر نہیں آتی اور نہ ہی میں کسی بار کونسل یا فرد واحد کو کوسنے کا حامی ہوں کہ ان کی وجہ سے ایسا ہوا بلکہ میں کیا ہم سب کو ان صاحبان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جنہوں نے اس خطے میں بسنے والوں کو ایک بہت بڑی اذیت اور تکلیف دہ حالت سے نجات دلا کر ایک صحیح سمت کی طرف ہماری توجہ مرکوز کرادی ہے اور ان تمام نسخوں کو رد کر کے اپنی دکانداری چمکانے والوں کا راستہ بند کر دیا ہے ۔ ہاں میرا سوال ؎ ان نام نہاد سیاسی لیڈروں سے ضرور ہے جو اپنے مفادات کے لئے حقائق سے نابلد یا نظریں چُرا کر اپنے آپ کودھوکہ دینے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اندھیرے میں رکھ کر ککھ سے لکھ پتی ہی نہیں بلکہ کروڑ پتی بن گئے ہیں۔میں ان سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ان اکہتر سالوں میں اس علاقے کے وسائل کو بے دردی سے لوٹنے کے سوا کیا ہی کیا ہے ۔جو دستیاب وسائل دئے گئے یا مہیا کئے گئے ان کا بے دردی سے استعمال کیا اور لوٹ مار کرتے رہے اور الزام کسی اور کے سر تھوپنے میں کوتاہی نہیں کی ۔

بقول شاعر

ہم الزام ان کو دیتے تھے

قصور اپنا نکل آیا

آئینی حقوق نہ ملنے کا قصور بھی اپنا ہی ہے ہم نے اپنی راہ متعن ہی نہیں کی جس منزل کی طرف جانا تھا اس سے منہ موڑ کر کسی اور طرف چل پڑے جن سے ہاتھ ملانا تھا اسےجڑک دینے کو اپنی کامیابی سمجھا ۔اس پاگل پنی کا علاج اور ہوش میں لانے کا طریقہ بجلی کا جھٹکا ہی ہوتا ہے اور اب جب کہ سپریم کورٹ آٖ ف پاکستان کا قانونی جھٹکا لگا ہے تو ضروری ہے کہ اب ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر گلگت بلتستان کی بہتری اور خوشحالی کے لئے۔ہمیں متنازعہ کیوں بنایا گیا َ؟ کا جملہ نہ دہرائیں تو یہ جی بی کے حق میں بہتر رہیگا۔نہیں تو کئی کئی لوگوں کو چُپ کا روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ مارخور کا گوشت بھی افطاری کے ساتھ کھانا پڑیگا۔میں تو یہی کہونگا کہ ہمیں متنازعہ بناکر اچھا کیا گیا۔ تاکہ اب ہم یکسوئی سے اس متنازعگی والے راستے سے اپنا سفر شروع کرکے اپنی منزل تک پہنچ سکینگے

مزید دریافت کریں۔