ہنزہ نیوز اردو

ہماری عزت حسن کے میلوں میں

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

تحریر :امتیاز گلاب بگورو
گلگت بلتستان کی تاریخ بہادری ،دلیری، مہمان نوازی اور ثقافتی اعتبار سے پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے ۔یہاں 10پھولوں کے گل دستے اور 6سے زائد مختلف زبانوں کی مٹھاس یہاں آنے والوں کے ذہن و ضمیر کو معطر کر دیتی ہیں،اس جنت نظیر وادی کی تاریخ، ادب ،ثقافت،رسم و رواج، بہادری اور مہمان نوازی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں دنیا کے کسی بھی کونے میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کی پہلی حسرت یہی ہوتی ہے کہ وہ گلگت بلتستان کا ایک نظارہ اپنی زندگی میں ایک بار ضرور کریں ۔لیکن موجودہ جدید دورمیں بین الاقوامی این جی اوز، حکومتوں اور انتظامیہ کی سازشوں سے اس علاقے میں بسنے والوں کو تیزی سے سیکولر ایزم کی طرف دھکیلا جارہا ہے حالانکہ ملک عزیز پاکستان کے تمام شہروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام ایک بار بھی گلگت بلتستان کا دورہ کرتے ہیں تویہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اگر پاکستان میں کسی علاقے میں اخلاق ،بہادری اور اسلامی تاریخی ہے تو وہ گلگت بلتستان میں زندہ ہے ۔بدقسمتی سے گزشتہ ایک سال کے اندر گلگت بلتستان کی بیٹیوں بہنوں کی عزتیں حسن کے میلوں میں اچھالنے کی کوشش کی جارہی ہے اور گلگت بلتستان کی ماؤں بہنوں بیٹیوں کو سرعام شو پیس کے طور پرمیلوں کی زینت بناکر پیش کیا جارہا ہے یہ گلگت بلتستان کی ثقافت کو منہدم کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے ۔پچھلے سال دبئی میں ثقافتی شو کے نام پر نام نہاد ثقافتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا جہاں خواتین کو آئٹم بناکر پیش کیا گیا اور ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کی ثقافتی مردانہ ٹوپی خواتین کے سروں پر رکھ کر دنیا کے سامنے لانے کی کوشش ہوئی حالانکہ گلگت بلتستان کے ثقافتی لباس میں ثقافتی ٹوپی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے خواتین کی اپنی ثقافتی ٹوپی کے ہوتے ہوئے مردوں کی ٹوپی خواتین کو پہنانا ہی ثقافت کے ساتھ سنگین مذاق ہے، ایک طرف گلگت بلتستان کے مستقبل کے فیصلے بھی اونے پونے میں کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف خواتین کی ترقی کا نعرہ لگا کر قومی اور بین الاقوامی سطح پر بیٹیوں کو دنیا کے سامنے سجایا جارہا ہے ،مجھے تو ترس ان والدین پر آتا ہے جو اتنے نادان ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو مردوں کے شانہ بشانہ لانے کی فکر میں چادر اور چاردیواری سے باہر دھکیل دیتے ہیں اوریہ سوچے بغیر کہ شوشل میڈیا کے ذریعے ان بیٹیوں کے عزتیں مارکیٹ میں لائی جارہی ہیں ۔محترم قارئین ثقافت سے محبت ہونے کے ناطے گزشتہ ایک سال سے ثقافتی سرگرمیوں اور گلگت بلتستان کے مستقبل کے فیصلوں سمیت اقتصادی راہداری کے معاملے پر کڑی نظریں جمائیں بیٹھے ہیں ۔اقتصادی راہداری کے معاملے پر گلگت بلتستان کے حقوق غصب کرنے کی تو کوشش کی ہی جارہی ہے اور دوسری طرف دین اسلام کے اصولوں کی پامالی کے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔کیا میرا یہ کہنا بجا نہیں کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں خواتین کیلئے خواتین کی کلچرل ٹوپی موجود ہونے کے باوجود خواتین کو مردوں کی ٹوپی پہنا کر دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہاں جنس کی کو تفریق نہیں ۔نہیں نہیں !اگر تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھا جائے تو گلگت بلتستان کو ہمارے بہادر آباؤ اجداد نے کلہاڑیوں اور ڈنڈوں سے آزاد اس لئے کروا کر ملک عزیز پاکستان میں شامل کیا تھا کہ اس ملک کی بنیاد دین اسلام پر رکھی گئی تھی اور یہاں ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں محفوظ ہونگی ۔افسوس صد افسوس کہ گزشتہ ایک سال کے اندر جب نئی آنے والی حکومت نے ثقافت کے فروغ کا نعرہ لگایا تھا تب ہمیں ایسا لگا تھا شاید صدیوں تک زندہ رہے گے پر ہمیں کیا پتہ تھا کہ ہماری پگڈی اچھالی جائے گی، حکومت ایک طرف اقتصادی راہداری کے ذریعے ہمیں بین الاقوامی سطح پر دوسرے ملکوں سے لنک کرانا چاہتی ہے تو دوسری طرف ہماری ثقافت ہماری پہچان کو دنیا کے سامنے سیکولر بنا کر پیش کررہی ہے ۔حالیہ دنوں جب گلگت بلتستان کے نوجوانوں اور بہنوں کو سپورٹس گالہ کے نام پر سینکڑوں کے حساب سے محکمہ سیاحت نے اسلام آباد بلایا جہاں پر نوجوانوں کو فل ٹروزرز پہننے کو دےئے گئے اور خواتین کو شورٹس پہنائے گئے جس سے گلگت بلتستان کے عوام کا سر شرم سے جھک گیالیکن صوبائی حکومت نے کمال بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محکمہ سیاحت و ثقافت کے نچلی سطح کے عملے پر سارا نزلہ گرادیا، میں یہاں صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ صاحب کو یہ بتانا مناسب سمجھتا ہوں کہ زبان سے نکلی بات ، کمان سے نکلا تیر اور بندوق سے نکلی گولی کبھی واپس نہیں آتی ہے تو کیا گلگت بلتستان کی عزت بچارے ایل ڈی سیز اور یو ڈی سیز پر عتاب ڈال کرواپس لائی جاسکتی ہے نہیں ایسا ممکن نہیں ہے اس کیلئے کسی بھی تقریب میں شرکت سے قبل ہی قوائد وضوابط اور اصول مرتب کئے جانے چاہیءں ۔محکمہ سیاحت نے گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں فیسٹیول سالانہ کیلنڈر آف ایونٹ کے مطابق منانے کا اعلان کیا یہاں مقامی سطح پر ثقافت کو اجاگر کرنے کیلئے کام کرنے والے شعراء ادیب فنکار اور گلوکار اپنی حالت زار پر رو رہے ہیں اور محکمہ سیاحت بین الاقوامی اور قومی سطح پر ایونٹس کے نام پر لاکھوں روپے خرد برد بھی کررہی ہے اور دوسری طرف گلگت بلتستان کی ثقافت کو مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا جارہاہے جو کہ علاقائی روایات وثقافت کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہیں ۔ہوا کی بیٹیوں کو باپردہ لباس میں بھی کھیلوں میں حصہ لینے کی تلقین کی جاسکتی تھی، لیکن ایسا نہ ہوا اور سپورٹس گالہ میں شرکت کرنے والی لڑکیوں کی تصویروں کو اخباروں اور شوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے عام کیا گیا جس وجہ سے پورے گلگت بلتستان کے عوام کا سر شرم سے جھک گیا حالانکہ اسلامی طرز زندگی کی مثال جب بھی کوئی دیتا تھا وہ گلگت بلتستان کا دیتا تھا آج ہم خود اپنے ہی ہاتھوں قتل ہوگئے اور ثقافت کا حلیہ بھگاڑکر دنیا کے سامنے پیش کر کے ہم نے اپنے ثقافتی اقدار کو مہندم کرنے کی کوشش کی اور شاید اس کے نتائج نہایت بھیانک نکلیں،آج شوشل میڈیا میں ان لڑکیوں کو نیم عریاں لباس میں پیش کرنے کی بحث بھی عروج پر ہے ہر کوئی دل سے آواز دے رہا ہے کہ ہماری ثقافت کو بگاڑ کر پیش کیا گیا لہٰذا اب صوبائی حکومت اور محکمہ سیاحت کو پوری قوم سے معافی مانگنا ہوگی تاکہ غمزدہ عوام کے زخموں کا مرہم ہوسکے محترم قارئین ویسے تو ماں کے قدموں تلے جنت ہے خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ اپنی خدمات انجام دے سکتی ہیں لیکن اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے محترم قارئین یہاں پر میں ایک اور بات بھی آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے عوام تمام ضلعوں علاقوں اور گاؤوں میں اپنی مدد آپ کے تحت ثقافتی تہواروں کو بچانے کیلئے اقدامات اٹھارہے ہیں لیکن ثقافت کے نام پر بین الاقوامی اور قومی سطح پر گلگت بلتستان کی روایات کے خلاف ثقافتی شوز اور ثقافت اور روایات سے ہٹ کر اقدامات اٹھا کر پوری قوم کو چلؤ بھر پانی میں ڈوب کر مرنے پر مجبور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے،یہاں پر حقیقی معنوں میں ثقافت پر کام کرنے والے فنکار شعراء اپنی پوری عمر ثقافت پر قربان کرتے ہیں اور حکومت اور محکمہ سیاحت کی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے یا تو وہ پاگل ہوجاتے ہیں یا اپنے گھریلو ے مسائل میں اتنے الجھتے ہیں کہ خدا خدا کرکے ان کی زندگی کا چراغ بھی گل ہوجاتا ہے ۔ایسی کئی مثالیں بھی گلگت بلتستان میں زندہ و جاوید ہیں، لہٰذا صوبائی حکومت اور محکمہ سیاحت کو چاہے کہ وہ ثقافت کو مسخ اور بگاڑ کر پیش کرنے والوں اورایسی این جی اوز ،محکموں اور کلچرل کو نسلز جو روایات کو بگاڑکر پیش کررہی ہیں پر کڑی نظر رکھیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ آئندہ اس طرح گلگت بلتستان کی روایات اور ثقافت کا کوئی بھی جنازہ نہ نکال سکے ۔
چلتا ہے خنجر تو چلے میر ے دل پر
خودی بیچ کے اپنی میں کبھی جھک نہیں سکتا
مٹنے کو یہ دنیا بھی مٹ سکتی ہے لیکن
تاریخ کے اوراق سے میں مٹ نہیں سکتا

مزید دریافت کریں۔