ہنزہ نیوز اردو

ہزہائینس سَر آغاخان آقاسلطان محمد شاہ کی سوانہ عمری تاریخ در تاریخ۔

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

تحریر۔ قائد فرمان بُرونگ 
۔سر سلطان محمد شاہ ؑ کے دادا جان’’ سر آغا علی شاہ ‘‘کی ولادت ملک ایران کے ضلع محلات میں ۱۸۰۰ء کو ہوئی۔
۰۔مشہور ومعروف مورثی لقب’’ آغاخان‘‘ ایران کے شاہ فتح علی شاہ قاچار نے ۱۸۱۰ء میں عنایت کردیا ۔
۰۔بمبئی کے سوداگر اخبار میں آغاخان (اول) اور ان کے پیروکاروں کے بارے میں یہ تحریر ہے کہ’’الموت کے ویران شدہ مقام میں اسماعیلی لوگ بودباش کرتے ہیں انہیں
’’ حسینی ‘‘کہاجاتاہے۔یہ لوگ آ غاخان صاحب کواپنا امام مانتے ہیںآپ کا پورانام’’ محمد حسن الحُسینی‘‘ ہے۔ہندوستان سے ایران میں کوہک کے جوسار میں اسماعیلی دعائے برکت کے لئے آتے تھے۔جو تمام خواجہ جماعت کے تھے‘‘۔
۰۔ہزہائی نس محمد الُُحسینی آغاخان اول کے متعلق حکومت بمبئی کے دفترروں میں لکھا ہے ۔کہ ’’ہز ہائینس آغاخان محلاتی اسماعیلوں کے مشہور ا مام اور نسل بہ نسل سردار ہوتے آئے ہیں اسماعیلیوں کے موجودہ مسند نشین خدا کے فرستادہ حضرت علی ؑ سے آخری ظاہر شدہ امام حضرت امام جعفرصادقؑ کے فرزند حضرت امام اسماعیل ؑ کی اولاد کے مستحق فی زمانہ ہزہائی نس آغاخان نہایت بہادراور شحیح معلوم ہوتے ہیں اُن کے دادا حضرت ابوالحسن علی شاہ ؑ کرمان جیسے مشہور شہر کے زند بادشاہوں کے زمانے میں حاکم تھے۔ اور حکومت ترک کرنے کے بعد محلات ضلع میں جابسے تھے بعدازاں ان کی اولاد نے مُحلات میں بڑی بڑی جاگیروں کا اضافہ کر کے ایک عرصہ دراز تک وہاں سکونت اختیار کرلیں اس لئے محلاتی کے نام سے مشہور ہیں‘‘۔
۰۔ایران سے قندہار کے راستے ہندوستان ہجرت ۱۸۴۳ء
۰۔حضرت امام حسن علی شا ہؑ کا رات کے پونے دس بجے ۱۲۔ اپریل۔۱۸۸۱ء کو انتقال ہوا۔ 
۰۔ولادت باسعادت۰۲۔نومبر۱۸۷۷ ؁ء بمُقامِ محمدی ٹیکری کراچی۔
۰۔تختِ امامت پررونق افروز۔ ۱۷۔اگست ۱۸۸۵ ؁ء۔
۰۔ ہزہائی نس اور سر کاممتازخطاب۔۱۸۸۶ ؁ء۔
۔سرسیداحمدخان اور نو۲اب مُحسِن المُلک سے ملاقات اورعلی گڑھ کالج کاپہلی باردورہ ۲۲۔نومبر۱۸۸۶ ؁ء۔
۔ریاست ہنزہ کے میرصفدر خان کوہدایت کہ’’انگریزوں کو سرکاری ڈاک کا شغر لے جانے کے لئے اجازت دی جائے‘‘اگست ۱۸۹۱ ؁ء۔
۔گاؤ کشی فسادات کا آغازپر قابوپانے کے لئے جدوجہد اور ہندو اور مُسلمانوں کے مابین پہلی بار مُفاہمت کی کوششیں۱۱۔اگست ۔۱۸۹۳ ؁ء
۔ ہندو اور مُسلمانوں کے مابین مفاہمت کی اولین کوشش ۱۳۔ اگست۱۸۹۳ ؁ء۔
۔پہلی شادی۔آغاجنگی شاہ کی صاحبزادی شہزادی بیگم سے جوکہ چچازاد بہن بھی تھی۔۱۶۔جنوری ۱۸۹۷ ؁ء۔
۔ملکہ برطانیہ کی گولڈن جوبلی کے پُر مُسرت موقع پربرطانیہ کی حکومت کے لئے وفاداری سے پُر ایک سپاس نامہ وائسرائے ہندلارڈ لنکن کے سامنے 
(۱)بحیثیت شیعہ اِمامی اِسماعیلی مسلمانوں کے روحانی پیشواء
(۲) بحیثیت مغربی بھارت کے مسلمانوں کے نمائندے
(۳) بحیثیت ہندوستان کے مشترکہ رہنماء پیش کردیا۔۱۸۹۷ء۔ 
۔ سَر سید احمد خان اور نواب محسن المُلک سے ملاقات اور علی گڈھ کالج کی ترقی کے لئے اولین کوشش پر اتفاق، ۲۲۔ نومبر ۱۸۹۶ ؁ء۔
۔ ملکہ برطانیہ کی ڈائمنڈ جوبلی کی تقریبات میں شرکت کے لئے لندن روانگی۔۱۹۹۶ ؁ء۔
۔ تاج برطانیہ کی جانب سے ’’کے۔سی۔ آئی۔ای‘‘ کا ممتاز خطاب۔۱۸۹۷ء 
۔سرسیداحمدخان کی و فات پر علی گڈھ کالج کویونیورسٹی بنانے کاعظم ظاہر۱۸۔مارچ۱۸۹۸ ؁ء ۔
۔ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے نائٹ کماڈر آف اِنڈین ایمپائر کے ،سی، آئی، ای کا اعزاز۱۸۹۸ ؁ء۔ 
۔بمبئی میں طاعون کی و باء اور ڈاکٹرھافکن کی خدمات سے استفادہ کے دوران لوگوں کے درمیان خودپہلے ٹیکہ لگاکربچوں کے دلوں سے خوف کو دورکروالیا۔۱۸۹۸ ؁ء۔
۔ شاہ ایران احمد شاہ کچار کی جانب سے شمس الھمایوں کا اعزاز کی سرفرازی۱۸۹۹ ؁ء۔
۔ ’’ سِتارہ تُرکی ‘‘ ترک حکومت سے وصول۱۸۹۹ ؁ء۔
۔ اہم معارضین۔۱۔محمد علی جناح۔۲۔محمد علی جوہر۔۳۔ مہاتماگاندھی۔۴ ۔ پنڈت نہرو۔۵۔ سَر جنی نائیڈو۔۶۔ تیج بہادُر سپرو۷۔ گوپال کرشن گوکھلے۸۔ سَر مُحمد شفیع۹۔ چوہدری ظفراللہ خان۱۰۔ سیّد امیرعلی۔۱۱۔ راج گوپال اچاریہ۔
۔ قریبی احباب۔پرنس آف ویلز،فیلڈ مارشل لارڈکچزؔ ۔چیمبرلین۔چرچلؔ ۔ جنّاح۔ خواجہ حَسن نظامیؔ ، شاہ فاروقّ، نحاس ؔ پاشاہ۔ نواب آف بھوپال
۔۔برلن کا دورہ شاہ جرمنی ولیم قیصر سے شرف بازیابی کسی پہلے ایشیائی باشندے کی حیثیت سے’’رائل پریشین آرڈر آف دی کراؤنڈفرسٹ کلاس‘‘کارتبہ دیا گیا ۱۹۰۰ ؁ء۔
۔ملکہ وکٹوریہ کی و فات پرخصوصی طورپرلندن روانگی اورآخری رسو مات میں شرکت۔ ۲۲جنوری ۱۹۰۱ ؁ء۔
۔وائسرائے ہند’’لارڈکرزن ہیگ‘‘کی جانب سے لجسلیٹیو اسمبلی کی رکنیت یکے بعد دیگرے ۲سال کیلئے قبول ۱۹۰۲ ؁ء۔ 
۔ محمڈن مسلم ایجوکیشنل کانفرنس دہلی کی صدارت ۱۹۰۲ ؁ء۔
۔ علی گڈ ھ یونیورسٹی طلباء کے ئے بیرونی وظیفہ فنڈ کا قیا م ۱۹۰۲ ؁ء۔ 
۔شاہ ایڈوارڈہفتم کی سرجیکل آپریشن کے موقع پرہسپتال میں عیادت کے لئے حاضری اورخون کاعطیہ بھی شاہ کی خدمت میں پیش کی ۱۹۰۲ ؁
۔شاہ انگلستان ایڈوارڈ ہفتم کی تاج پوشی کی تقریب میں خصوصی شرکت ۱۹۰۲ ؁ء۔
۔جی۔ سی۔ آئی۔ای کے ممتاز خطاب سے سرفروشی۔۲۶جون ۱۹۰۲ء ؁
۔علی گڈھ کا لج کے لیب میں سائنسی آلات پہلی بار میں نصف کرانے میں آپؑ کامیاب ۱۹۰۲ ؁ء۔
۔علی گڈ ھ کالج کی ترقی کے لئے چندے میں اپنی جانب سے ایک لاکھ پینتیس ہزار روپے کا گرانٹ عنائیت۔۱۹۰۲ ؁ء۔
۔محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس کی استقبالیہ کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے خطاب صدارت پہلے مسلمان جج بدرالدین طیبّ جی نے انجام دی ۱۹۰۳ ؁ء۔
۔غربت اور بیماریوں کی جڑ ’’جہالت ‘‘کو اکھاڑپھینک نے کے لئے محاز میں شرکت ۱۹۰۳ ؁ء۔
۔ پرنس آف ویلز اسکول بمبئی کا افتتاح ۱۹۰۳ ؁ء۔
۔پہلا اسکول ’’آغاخان سکول ‘‘گوادر کا قیام ۱۹۰۵ ؁ء۔ 
۔برودہ محل پونہ کی تعمیرکاآ غارجو ہزاروں بے روزگاروں کے لئے روزی کازریعہ ء بنا۔ ۱۹۰۵ ؁ء۔
۔زبجبار کا ’’آغاخان محل ‘‘کوتحفے میں دیدیاگیا ۱۹۰۵ ؁ء۔
۔ مُسلمانوں کے لئے اولین حقوق کا مطالبہ۱۹۰۶ ؁ء۔
۔شملہ میں وائسرائے ہندلارڈمنٹوسے ملاقات اورچونتیس مسلمان اکابرین ہندکی قیادت یکم اکتوبر ۱۹۰۶ ؁ء۔
۔کل ہندمسلم لیگ کاقیام۳۰۔دسمبر ۱۹۰۶ ؁ء۔
۔جاپان کے شاہ میکاڈو سے ملاقات ۱۹۰۷ ؁ء۔ 
۔مسلم لیگ کی قیادت قبول۔۸۔ستمبر ۱۹۰۷ ؁ء۔
۔ کل ہند مسلم لیگ لندن شاخ کی بنا ء اور ’’رائٹ آنریبل سید امیر علی‘‘ کا بطورصدارت قبول ۸مارچ ۱۹۰۸ ؁ء۔
۔بمبئی ہائی کوٹ کے جج جسٹس رہسل کے سامنے حاضری حاجی بی بی کیس کی عدالتی کاروائی اورفیصلہ بحیثت اسما عیلیوں کے رہنماء ان کے معیار اورحقوق کوتسلیم کیا گیا ۱۹۰۸ ؁ء۔
۔فرانسیسی علوم کے امریکی ماہر پروفیسرمانسوٹروین ٹال مین کے ہمرہ ملایا،سنگاپور،چین،جاپان، اور امریکہ کادورہ ۱۹۰۸ ؁ء۔
۔اٹلی کی خاتون تیھریسہ میگونہ سے شادی ۱۹۰۸ ؁ء۔
۔پہلے فرزندشہزادہ مہدی کی وفات ۱۹۰۹ ؁ء۔
۔منٹومارلے اصلاحات کی منظوری قیام پاکستان کے لئے پہلی اِینٹ ثابت ثابت ۹ ۱۹۰ ؁ء۔
بمبئی کے مُسلمانوں نے انجمن اسلامہ ہال دعوت خاص دیا۔۱۰جنوری ۱۹۱۰ ؁ء۔
۔شاہ ایران ’’احمدکچار ‘‘سے ملاقات کے دوران زر تشتیوں کی حالت زار پر احتجاج ۱۹۱۰ ؁ء۔
۔ایڈوارڈ ھفتم کے انتقال پر لندن روانگی ۷مئی ۱۹۱۰ ؁ء۔
۔دوسرے فرزندپرنس’’ علی‘‘ کی تورین ملک اطالیہ میں پیدائش۱۳۔جون ۱۹۱۰ ؁ء۔
۔علی گڑھ مسلم کالج کوترقی دینے کی خاطربرصغیرپاک وہندکے کونے کونے دورے کاآغا ز دسمبر ۱۹۱۰ ؁ء۔
۔ شیعہ اور سُنی فرقوں کی جانب سے خدمات کا اعتراف۱۰ جنوری ۱۹۱۰ ؁ء۔
۔علی گڑھ کالج کو ترقی دینے کے سلسلے میں چندہ جمع مہم کے دوران لاہور کا تاریخی سفر عوام نے خود گھوڑاگاڈی کوکھینچ کرپنڈال تک لایا۲۴۔فروری ۱۹۱۱ ؁ء۔ 
۔شاہ ایڈوارڈہفتم کی وفات پرلندن روانگی او رآخری رسومات میں شرکت شاہ جارج پنجم کی جانب سے گرانڈکمانڈر آف دی آرڈرآف سٹار آف انڈیا‘‘ کارتبہ دیا گیا ۱۹۱۱ ؁ء۔
۔شاہ انگلستان جارج پنجم سے احتجاج کہ’’وائسرائے ہند برطانوی شاہی خاندان کے سوائے کسی اور خاندان کانہیں ہوناچاہئے‘ ۱۹۱۱ ؁ء۔
۔تاج برطانیہ کی جانب سے ان کی ہدایت پرلبیک ۱۹۱۱ ؁ء۔
۔دورہ روس میں زار نکولیس رومانوف (اول)کے بھائی’’ گرینڈڈیوک مائکل‘‘ کی جانب سے خیرمقدمی تقریب میں شرکت ۱۹۱۱ ؁ء۔
۔بنارس ہندؤں یونیورسٹی کے لئے عطیہ اورسنسکرت زبان کے فروغ کی خاطروظائف کااعلان ۱۹۱۱ ؁ء۔
۔ ہندو مُسلم اتحاد کانفرنس الہآباد کا انعقاد۱۹۱۱ ؁ء۔ 
۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی صدارت ۱۹۱۱ ؁ ؁ء۔
۔ اولین مضمون نیشنل ریوریو میں شائع ہوا۔جولائی ۱۹۱۱ ؁ء۔ 
۔علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی میں ترقی دینے کی خاطر چارٹر وصول کرنے کے لئے لندن روانگی ۱۹۱۲ ؁ء۔ 
۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی لائبریری کے لئے کُتب کا تحفہ۔۱۹۱۲ ؁ء۔
۔جنوبی افریقہ میں رہائش پذیربھارتیوں کے مسائل کے حل کے لئے ’’ٹاون ہال‘‘ میں جلسے کی صدارت ۱۹۱۳ ؁ء۔
۔’’مَیں آپ کو ایک ایسا رہنماء دے رہا ہوں جو نہایت نڈر اور سخت محنتی ہے۔ان کے اندر قیادت کے بے شمار صلاحتیں بھی موجود ہیں‘‘ محمد علی جناح کو آل اِنڈیا مسلم لیگ کی قیادت حوالے کرنے اور خود مستعفٰی ہونے کے موقع پر مسلمانان ہند وپاک کو پیغام ۱۹۱۳ء
۔ برما کا اولین سفر۱۹۱۴ ؁ء۔
۔بمبئی حکومت کی جانب سے ا ول درجے سرکاری شہزادے کااعزازاوراکیس توپوں کی سلامی ۱۹۱۴ ؁ء۔ 
۷۳۔جنگ عظیم (اول) کاآغاز ۱۹۱۴ ؁ء۔
۷۴۔ جنگ عظیم (اول) میں حکومت ترکی کوغیرجانبداررہنے کی ہدایت ۱۹۱۴ ؁ء۔
۷۵۔پندرہ ہزار ہندؤوں کو پیغمبرﷺ اسلام کے دامن سے جوڑ کر اپنے آباؤاجداد کی عظیم کارناموں کو تابندہ کردیا ۱۹۱۵ ؁ء۔
۷۶۔لیوسران کی خونی سازش دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملے اگست ۱۹۱۵ء ؁۔ 
۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقے (غزہ) کی پٹی میں اپنی بستیوں کے قیام کے آغاز پر سخت غم و غصہ کا اظہار اور مسلمانان عالم سے مل کر خالی کرانے کی اپیل۔۱۹۱۷ء
۷۷۔’’تبدل ہند‘‘کی تحریرمکمل ۱۹۱۸ ؁ء۔
۷۸۔آکسفورڈیونیورسٹی سے فلسفی کا اعزازی ڈگری ۱۹۱۸ ؁ء۔
؂ ۔ موجودہ سارک سربراہ کانفرنس کی تجویز دی۔۱۹۱۸ ؁ء
۷۹۔برطانوی وزیر اعظم’’ لائنڈرجارج ‘‘کے پاس بھارتی مسلمانوں کے و فدکی قیادت ۱۹۱۹ ؁ء
۸۰۔پہلی عالم گیر جنگ اختتام پزیر ۱۹۱۹ ؁ء۔
۸۱۔حکومت برطانیہ پردباو کہ سلطان ترکی کی حترام کو ملحوض خاطررکھئے ۱۹۱۹ ؁ء۔؂
۸۲۔سَر آغاخان اور سید امیر علی کا مشترکہ خط کا متن یہ تھا’’ اس نازک موقع پرہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ترکی کی طرف سے کہ امن کانفرنس میں اُس کے معاملہ کی محتاط سماعت کے لئے ایک بار پھر وکالت کریں۔۔۔۔۔۔۔اس لئے اِنگلستان کا فرض ہے کہ وہ مُتحدہ قووتوں کو اس بات پر مُطمعن کردیں کہ ترکیہ کی مکمل تباہی اُس کیہ اپنی سلطنت کے مفاد یا کروڑوں کی تعداد میں اس کی مسلمان رعایاء کے لئے اس کے مُخلصانہ جذبات کے حق میں نہیں ہے مسلمان کیا جانتے ہیں ؟۔ہم کس مقصد کی وکالت کررہیں ہیں۔ یہ کہ وزیر اعظم نے انگلستان کے نام پر دینے سے جو عہد کیا ہے بالخصوص عالم اسلام سے اس عہد کا اکتفاء کیا جائے۔۔۔۔‘‘ اگست ۱۹۱۹ ؁ء
۔سانحہ جلیاں والاباغ ۱۹۱۹ ؁ء۔
۔چین کی جانب تجارت کے لئے سفرکرنے والوں کے ساتھ جو بدسلوکی(قتل وغارت گری) ہوتی ہے اس کو فوراًبند کروایاجائے۔ ریاست ہنزہ کے میر نظیم خان کے نام خصوسی پیغام۔۱۹۲۰ ؁ء
۔علی گڑھ کالج کوترقی دینے میں کامیاب ۱۹۲۰ ؁ء۔
۔علی گڑھ یونیورسٹی کے پہلے نائب شیخ الجامع منتخب ۱۹۲۱ ؁ء۔
۔’’کمال اتاترک‘‘ کو سختی سے ہدایت کہ’’سلطان ترکی کے تقدس کاخیال رکھے اورمنصب خلافت کوپامال نہ کرے ۳ ۱۹۲ ؁ء۔
۔جارج پنجم اور ملکہ میری نے اپنے دست سے’’ گرانڈکمانڈر آف دی وکٹورین آرڈر‘‘سے نوازا گیا ۱۹۲۳ ؁ء۔
۔ایوان بالابھارتی قانون ساز اسمبلی نے ناروے پارلیمنٹ سے’’ امن نوبل انعام‘‘ کے لئے آپؑ کے نام تجویز۵۔فروری ۱۹۲۴ ؁ء۔
۔مسجد اقصیٰ کی مرمت کے لئے وفد سے ملاقات او(ر ۰۰۰۰،۴) کا گرانٹ۲۔مارچ ۱۹۲۴ ؁ء۔ 
۔ آپ کی دوسری شریک حیات شہزادی تھیریسہ میگونہ کی فوتگی ۰۲۔دسمبر ۱۹۲۴ ؁ء۔
۔افریقہ کے سفر پرروانگی اورنیروبی میں مسجد کی تعمیر کے لئے (۰۰۰،۳۰) شلنگ کی رقم عنایت ۱۹۲۶ ؁ء۔
۔کُل ہند کُل جماعتی کانفرنس دہلی کی صدارت۱۹۲۶ ؁ء۔
۔ دوسری شریک حیّات کی فوتگی۱۹۲۶ ؁ء۔
۔پرنس آف ویلز(جارج ششم) کے مجسمے کی تیاری کے اخراجات کی ادائیگی ۲۰۔دسمبر ۷ ۱۹۲ ؁ء۔
۔یکسائرتھیٹربمبئی میں مختلف بھارتی اداروں کے مشترکہ جلسے کی صدار ت جس میں مغربی افریقہ میں رہائش پذیر بھارتیوں کے حقوق کی حفاظت کردی گئی ۱۹۲۶ ؁ءء۔
۔بمبئی میں بھارتی صحافی برادری کی ایسو سی ایشن کوعطیہ کا اعلان ۱۹۲۸ ؁ء۔
۔نہرو رپورٹ شائع ہوئی۔۱۹۲۸ ؁ء۔
۔ دہلی میں کُل جماعتی کانفرنس منعقدہ اجلاس کی صدارت آپ ’’آغاخان‘‘ نے سر انجام دیں۔یکُم جنوری ۱۹۲۹ ؁ء۔
۔سابق ریاست ہنزہ کے حکمراں ہزہائنس سر میر محمد نظیم خان ( کے سی آئی ای) نے فرانس میں ہونے والی شادی پر مبارک بادی کے پیغامات میں تحریر کیا کہ’’نہایت خوشی اور شکر کے ساتھ دعاؤں کے 
مُیّب میں مَیں خود اور میری جماعت شادی کی خوش خبری سے نہایت مسرر ہوئی ہے ا س نیک شگون کے دن میرے علاقے میں خاموشی سے بندگی اورروشنی کر کے خوشیاں منانے کا ہم نے ارادہ کی ہے مَیں اپنی اور جماعت کی طرف سے مبارک باد پیش کرتاہوں۔اور ساتھ ہی بدست بدعا ہوں کہ’’آپؑ کے کرم سے مظہر اقدس کے دیدار سے مشرف ہوکرآپ کی عنایات سے ھدایات کو حاصل کرکے دنیاوی افکارات سے بری ہو جا ئیں۔‘‘ ۱۹۲۹ ؁ء۔
۔ ’’میڈم اینڈی کیرون ‘‘جوکہ اپنی بہن کے ساتھ کئی سالوں سے درزی کی دکان چلاتی تھی سے شادی ۱۹۲۹ ؁ء۔
۔بھارت میں ہوابازی کی تربیت کی حوصلہ افزائی کے لئے انعام کا اعلان ۱۹۳۰ ؁ء۔
۔لندن گول میز کانفرنس میں برطانوی ہند کے وفد کے سربراہ مقرر۔ ۱۲ نومبر ۱۹۳۰ ؁ء۔
۔ پہلی گول میز کانفرنس میں شِرکت ۱۹۳۱ ؁ء۔
۔لندن میں مہاتما گاندھی اور سَروجنی نائیڈو کی صُحبتیں ۱۹۳۱ ؁ء۔
۔اقوام متحدہ کی تجویز ولایت کے اخبار’’ لسنز‘‘ کی وساطت سے پیش ۱۹۳۱ ؁ء۔
۔مسلمانان ہند و پاک کی گول میز کانفرنس (لندن) کے دوران مسلمانوں کی قیادت سر انجام دینے کے لئے آپؑ کا اسم گرامی قرعہ اندازی میں نکلا اور یہ نیک شگون ثابت ہوا ۔۱۹۳۱ء۔
۔جمعیت الاقوام( لیگ آف نیشنز )میں برصغیر پاک و ہند کی جانب سے سفیر تعیناتی۔۱۹۳۲ ؁ء۔ 
۔بھارتی وفد برائے تخفیف اسلحہ کانفرنس کے ممبر منتخب ۱۹۳۲ ؁ء۔
۔ لیگ آف نیشنز کے پہلے ہندوستانی وفد کے سر براہ۱۹۳۲ ؁ء۔
۔ پریوی کونسل کی رکنیت اور’’ رائیٹ آنریبل ‘‘ کا اعزاز۱۹۳۲ ؁ء۔
۔ موجودہ سارک تنظیم کی تجویز پیش کیا گیا۔۱۹۳۳ء۔
۔گول میز کانفرنس کے اجلاسوں میں آغاخان کے کِردار پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ اقبالؔ نے کہا کہ ’’ہم نے آغاخان جیسے قابِل قدر مدبر جس کے ہم سب مدّاح ہیں اور جس سے ہندوستان بھر کے مسلما ن اُس خون کے باعث جو اس کی رگوں میں رواں ہے کی رہنمائی میں اپنے مُطالبات کانفرنس کے سامنے رکھ دئیے‘‘(لیٹرز اینڈوائینگزآف اقبالؔ : بی اے ڈارص ۷۲۰)
۔بوہرہ فرقے کے روحانی پیشواء سیدناطاہرالدین کی طرف سے دی کئی دعوت قبول کرتے ہوئے ضیافت میں مہمان اعلیٰ بنے پر راضی ۳ ۱۹۳ ؁ء۔
۔سندھ اور بمبئی دو حصوں میں تقسیم کا عمل مکمل۔۱۹۳۲ ؁ء
۔گول میز کانفرنس لندن میں مسلمانوں کے لئے بہتر خدمات انجام دینے کے سلسلے میں رنگون کے مسلم رعایا نے اظہار تشکر کی مار چ ۱۹۳۴ ؁ء۔
۔حکومت برطانیہ کے خفیہ کمان کے ممبربنے ۱۹۳۴ ؁ء۔
۔لیگ آف نیشنز میں بھارتی وفود کے مشترکہ نمائندے منتخب ۱۹۳۴ ؁ء۔
۔پرنس صدالدین کی پیدائش جو بعدمیں اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق رابطہ آفیسر بنے اورسیکریٹری جنرل کے لئے بھی دوبارانتخاب لڑے۱۷۔جنوری ۱۹۳۳ ؁ء۔
۔ لیگ آف نیشنز جینوہ میں شِرکت۱۹۳۴ ؁ء۔
۔امامت کی نصف صدی مکمل اسماعیلی مسلمانوں نے جشن گوہری مناناشروع کردی۱۷۔اگست ۱۹۳۵ ؁ء۔
۔ڈربی کی شرط میں آپ کی معروف گھوڑے’’ بہرام جیو بیلی ریسنگ سیزن‘‘ میں کامیابی حاصل کر لی۔۵۔جون ۱۹۳۵ ؁ء۔
۔خواجہ حسن نظامی سے مُلاقات۱۹۳۵ ؁۔ 
۔ کُل ہند تعلیمی کانفرنس رامپور کی صدارت۱۹۳۶ ؁ء۔ 
۔شاہ جارج پنجم کی وفات پراپنے پیروکاروں کوہدایت کہ’’میرے بڑے اور چھوٹے دوست شاہ جارج پنجم کے و فات کی سو گ میں گولڈن جوبلی نہایت سادگی سے منائی جائے‘‘۱۹۳۵ ؁ء۔
۔ جنوبی ایشیاء کے مسلمان اپنے تعیر و ترقی کے کئے ایک تنظیم عمل میں لائے ۔ آغاخان کا یہ مشورہ سارک کانفرنس کی شکل میں بعد ازاں قائم ہو گیا۔۱۹۳۶ء
۔حسن آباد بمبئی میں اپنی جماعت نے سونے میں تولا یہ سونا بچوں کی تعلیمی اخراجات کے لئے استعمال میں لانے کی ہدایت ۱۹۳۶ ؁ء۔
۔پہلے پوتے شاہ کریم الحسینیؑ کی ولادت باسعادت۱۳۔دسمبر ۱۹۳۶ ؁ء۔
۔ لیگ آف نیشنز میں شِرکت ۱۹۳۶ ؁ء۔
۔ لیگ آف نیشنز کے صدر منتخب آپ کے حق میں اُنچاس ووٹ ڈالے گئے۔جولائی ۱۹۳۷ ؁ء۔
۔شاہ برطانیہ جارج ششم کی تاج پوشی کی تقریب میں شرکت۔۱۲ مئی ۱۹۳۷ ؁ء۔
۔(نیروبی)کینیامیں سونے میں تولاگیاسونا اسماعیلیوں کے بچوں کی تعلیمی مقصد میں صرف کرنے کی ہدایت ۱۹۳۷ ؁ء۔
۔دوسرے پوتے شہزادہ امین کی ولادت۱۲۔ستمبر ۱۹۳۷ ؁ء۔
۔اپنی والدہ محترمہ شمس الملوک کراؤنڈ آف انڈیا ماتا سلامت کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے یورپ سے خصوصی طور پر بمبئی تشریف لا ئے۔۲۴۔نومبر ۱۹۳۷ ؁ء۔
۔جرمنی کا دورہ ڈولف ہئر ہٹلر سے ملاقات اور دوسری عالمگیر جنگ کے خدشات سے قبل از وقت آگاہ ۱۹۳۷ ؁ء۔
۔ ’’ رائیٹ آنریبل‘‘ کا ممتاز خطاب جو کہ پریوی کونسل کے اراکین کے اسمائے گرامی کے ساتھ احتراماً اضافہ کیا جاتاتھا۔۱۹۳۷ء۔
۔ولدہ محترِ مہ شَمس الملوک کرا ونڈ آف اِنڈیا ماتا سلامت جہاں فانی سے رُخصت کر گئی ۱۹۳۸ء ؁۔
۔علی گڑ ھ یونیورسٹی کے نائب جامع الشیخ کے منصب سے سبکدوش اور ڈاکٹرضیاء الدین کو اپناجانشین مقرر ۱۹۳۹ ؁ء۔
۔دوسری عالم گیرجنگ کا آغاز ۱۹۳۹ ؁ء۔
۔برصغیرپاک وہند سے یورپ کے لئے روانگی ۱۹۳۹ ؁ء۔
۔ مہاتما گاندھی سے دہلی میں مُلاقات ۱۹۴۰ ؁ء۔
۔’’میڈم دینئی لیبروس‘‘ یعنی اُ مہ حَبیبہَ سے شادی ۱۹۴۴ ؁ء۔ 
۔مشرقی افریقہ کے مسلمانوں سے خطاب سکول اور مساجد بنانے کے لئے ویلفیئرسوسائٹی بنانے کی حوصلہ افزائی ۱۹۴۵ ؁ء۔
۔تاج امامت کے ساٹھ برس مکمل۱۷۔اگست ۱۹۴۵ ؁ء۔
۔ڈاکٹر’’ زکی علی‘‘ کے ساتھ مل کر سیرت نبوی ؐ پر کتاب تحریر کرنے کی خو ا ہش لیکن افسوس کہ ڈاکٹر زَکیِ سے موت نے قلم ہاتھ سے چھین لی ۱۹۴۵ ؁ء۔
۔اقوام متحدہ وجود میں آئی ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۵ ؁ء۔
۔بمبئی پونا میں آپؑ کو ہیروں میں تولا گیا۱۰مارچ ۱۹۴۶ ؁ء۔
۔تنزانیہ(داراسلام ) میں ہیروں میں تولا یا۱۰اگست ۱۹۴۶ ؁ء۔
۔ طبیّہ کالج کو ایک لاکھ کا عطیہ۱۹۴۶ ؁ء۔بمبئی میں ڈاکٹر ضِیّاء الدین کے ساتھ نشست۱۹۴۶ ؁ء۔
۔ مُسلمانوں کے لئے صنعتی، فنی اور سائنسی تحقیق کے ادارے کے قیام کی ضرورت کا اعلان اور دس لاکھ روپے کی تجویز نواب آف بھوپال کے ہمرہ مہاتما گاندھی سے ملاقات۱۹۴۶ ؁ء۔
۔ وائسرائے ہند لارڈویول سے ملاقات۱۹۴۶ ؁ء۔
۔’’خود گورنر جنرنل نہ بنیں’’لارڈ ماؤنٹ بیٹن‘‘ کو یہ عہدہ پیش کریں تاکہ اثاثوں کی تقسیم منصفانہ ہو اور وہ بھارت سے زیادہ سے زیادہ جائیداد پاکستان لاسکے گا۔ ‘‘قائد اعظم کو سر آغاخان کا مشورہ ۷ ۱۹۴ء ؁۔
۔ ’’ اُتر پردیش اور آسام‘‘ لیں بنگال اور کشمیر بھارت کو دیں۔قائد اعظم کو آغاخان کا مشورہ ۱۹۴۷ء ؁۔ 
۔آپؑ کی دن رات محنت نے رنگ لائی قیام پاکستان عملی شکل اختیار ۱۴۔اگست ۱۹۴۷ ؁ء۔
۔’ ’مجھے یہ جان کر بڑی مسرت ہوئی کہ آ پ(قائداعظم) دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے پہلے گورنر جرنل بن چکے ہیں زوال خلافت کے بعد مسلمانوں کی یہ سب سے بڑی کامیابی ہے مَیں قادرالمطلق کاشکر گزار ہوں کہ آپ (پاکستانی قوم )کے ساتھ اس آزادی کا دن دیکھنے کے لئے میری زندگی نے وفاء کی‘‘ قیام پاکستان پر لیسنی لندن سے بابائے قوم کے نام پیغام اگست ۱۹۴۷ ؁ء۔
۔شاہ ایران کی دعوت پر وہاں کا دورہ ’’ہزرائل ہائنس ‘‘کے اعلےٰ مرتبے سے سرفراز کیا گیا ساتھ ہی ایران کی شہریت بھی دی گئی ۱۹۴۹ ؁ء۔
۔دورہ ڈھاکہ کے موقع پر ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری عنایت۱۹۵۱ ؁ء۔
۔ شام کا دورہ اور حکومت کی جانب سے اعزازات ۔۱ ۱۹۵ ؁ء۔
۔پاکستان دورہ پاکستان کے موقع پر قوم کو نصیحت کہ’’قومی زبان عربی یاانگریزی کو اپنائے‘‘فروری۔ ۱۹۵۱ء۔
۔ شاہ ایران کی’’ شہزادی ثریاء ‘‘کی شادی میں شرکت ۱۹۵۲ ؁ء۔
۔دورہ شام کے موقع پر( آرڈرآف دی ا میدیاڈ) کا اعلیٰ رتبہ سے نوازا گیا ۱۹۵۲ ؁ء۔
۔شا ہی محل برطانیہ میں ملکہ الزبتھ ثانی کی دعوت میں شرکت ۱۹۵۲ ؁ء۔
۔دنیا بھر کے اسماعیلی مسلمانوںں نے اپنے روحانی پیشواء کی امامت کی پلاٹینیم جوبلی منانے کا آغاز کیا۱۷۔اگست ۱۹۵۴ ؁ء۔
۔کراچی میں پلاٹینیم میں تولاگیاتمام تر پلاٹیم کومالیاتی ادارے بنانے کے لئے صرف کرنے کی ہدایت ۲۴۔فروری ۱۹۵۴ ؁ء۔
۔سوانہ عمری یعنی ’’آبیتی آغاخان ‘‘ شائع ۱۹۵۴ ؁ء۔
۔افریقہ کے اسماعیلی برادری نے پلاٹینیم جوبلی کی یادگار منائی ۱۹۵۴ ؁ء۔
۔ ملکہ برطانیہ کی جانب سے جی ،سی ،ایم، سی کا اعزاز۱۹۵۵ ؁ء۔
۔پاکستان کے سابق صدر فیلڈ مارشل ’’محمد ایوب خان ‘‘ کو نصیحت کہ’’آپ کی مملکت کے لئے صدارتی طرز حکومت زیادہ بہتر ثابت ہوگی‘‘۱۹۵۶ء ؁
۔ بھارت کی جماعت نے پرنس علی سلمان خان کی موجودگی میں پلاٹینیم جوبلی منائی ۲۴۔فروری ۱۹۵۷ ؁ء۔
۔ سَر آغاخان کے آخری ایّام کے متعلق بقول جی الانا اُن کے صاحبزادے شہزادہ علی خان نے کہا کہ ’’اکثر اُوقات وہ مجھے تلاوت قرآن مجید کے گراموفون ریکارڈ سُنانے کو کہتے اس دوران میَں اُن کے لبّوں پرحرکت دیکھتا وہ آیّات قرآنی سُنتے اور دہراتے جاتے تھے‘‘۔جولائی۱۹۵۷ء ؁
۔سویئزرلینڈ کی معیاری وقت کے مطابق دن کے ساڈھے بارہ بجے۱۱جولائی کو۱۹۵۷ ؁ء جہاں فانی سے رخصت فرماگئے۔
۔ سَر آغاخان کی وفات کی خبر نشر ہونے پر پاکستان میں قومی پرچم سر نگو کیا گیا۔۱۱۔ جولائی ۱۹۵۷ء ؁
۔’’ دنیا کی تاریخ کا ایک باب بند ہوگیا ‘‘ روز نامہ ڈان کا اظہار تعزیت۔۱۲۔جولائی۱۹۵۷ء ؁ ؁ 
۔ اپنے پوتے شاہ کریم الحسینیؑ کو ا پناجانشین مقرّر کرنے کی وصیت نامے پر اسماعیلی مسلمانوں نے بعیت ’’ولابرکات جینوا ‘‘ سوئیزرلینڈ میں لے لی ۱۳جولائی ۱۹۵۷ ؁ء۔ 
۔ سَر سُلطان مُحمد شاہ کی جسد خاکی کو مِصر کے شہر اسوان میں سُپرد خاک کیا گیا۔۱۹۵۷ء ؁۔ ۔پاکستان سمت دنیا بھر کی کی حکومتوں نے �آپ ؑ کی یوم پیدائش کی ایک صدی مکمل ہونے پر صد سالہ جشن ولادت باسعادت منالیا۔۰۲۔نومبر ۱۹۷۷ ؁ء۔

ختم شد

مزید دریافت کریں۔