ہنزہ نیوز اردو

گلگت بلتستان کے عجیب لوگ۔

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

شیر علی انجم
محترم قارئین المیہ یہ ہے کہ اس وقت گلگت بلتستان میں ہر کوئی میں نہ مانوں اور میری ہی مانو کی پالیسی پر اپنا اپنا بریف کیس اور پاکیٹفورمز کو لیکر قوم پر احسان اور ملکی اور بین الاقوامیقوانین کی روشنی میں بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے کو بدنام کرتے نظر آتا ہے۔ یہاں سُنی سُنائی باتوں کو جمع کرکے فیس بک ڈالنے والے بھی بضد ہے کہ اُنہیں دانشور سمجھو اور اُنکی ہی بات کو مانو۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے اور اس خطے کو صوبہ بنانے میں ملکی بین الاقوامی اور مسلہ کشمیر کے تناظر میں جو مسائل درپیش ہیں اُن سے بھی اب سوشل میڈیا کی مہربانی سے ہوکوئی اگاہ ہوگیا ہے۔
لیکن دکھ اس بات پر ہے کہ گلگت بلتستان میں ریاست پاکستان کے سب سے ذیادہ بااختیار اور طاقتور ادارہ سپریم کورٹ سے بھی ذیادہ محبان وطن سمجھانے کی کوشش کرتے نظر آتا ہے کہ جھوٹ کو اب بھی سچ مان کر منزل کا تعین کرو۔ حد تو یہ بھی ہوگیا کہ کوئی کوئی شخص جو امیر ہو ماضی حال میں اچھا عہدہ رکھتا ہو لیکن گلگت بلتستان کے اصل مرض کے بارے میں دور تک بھی معلومات نہیں یا سب کچھ جان کر بھی عوام سے چھپاتے ہیں انُکو مسیحا منوانے کیلئے ایڑی چوٹی کی زور لگاتے بھی عجیب لوگ نظر آتا ہے وجہ کیا ہے کسی کو معلوم نہیں۔ اس وقت گلگت بلتستان میں عجیب سا ماحول بنا ہوا ہے کبھیعسکری قیادت سے نہ ملنے والے مشکوک تھے آج دن کی روشنی میں ملکر اپنا مدعہ بیان کرنے والوں کو مشکوک قرار دینے کے درپے ہیں۔
اس عجیب مخلوق کی عجیب داستان یہ بھی ہے کہ یہ طبقہ کہتے تو وہ بڑا دانشور ہے لیکن اُن کے کسی سیاسی عمل پر نکتہ اعتراض اٹھایا کو بدتمیزی اور الزام تراشی پر اُتر آتا ہے۔اس عجیب غریب گلگت بلتستان کے سب سے ذیادہ وفادار مخلوق کو(یو این سی آئی پی) پر بات کرنا آج بھی مشکوک لگتا ہے جبکہ یہ قراداد ریاست پاکستان کی مرضی سے تیار شدہ تاریخی دستاویز ہے اس دستاویز کے تین فریق ہے اور اس دستاویز میں کمی بیشی یا اضافے کیلیے تینوں فریقوں کا متفق ہونا ضروری ہے اور اس دستاویز کے بعد جو بھی معاہدہ کسی ایک فریق کو اعتماد میں لئے بغیر بنایا ہو اُس کی بین الاقوامی سطح پر کوئی حیثیت نہیں۔عجیب مخلوق اس بات کو بھی ماننے کیلئے تیار نہیں کہ گلگت بلتستان کا مسلہ ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے اور صوبے کا رٹ ذیادہ لگانے سے ملک دشمن عناصر غلط رائے قائم کرسکتا ہے ۔
یوں کنفیوزن کے اس عالم میںگزشتہ ہفتے وقت سپریم کورٹ کے فیصلے سے کئی سیاسی اور انفرادی معاشی دکانوں نے بند ہونا شروع ہوگیا ہے اور یہاں کے سادہ لوح عوام کو کل یہی لوگ کشمیریوں کو گالی دیکر بیوقوف بنا رہے تھے اب وہ دھندہ بھی مکمل طور پر ٹھپ ہوگیا ہے۔ کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ بات واضح ہوگیا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے میں کوئی اور نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی مجبوریاں اور اقوام متحدہ کے قرارداد سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اس رکاوٹ کی سب سے بڑی وجہ گلگت بلتستان کی آذادی کو تسلیم کئے بغیر تنازعہ کشمیر کے ساتھ اس خطے کو آذادی کے بعد بھی نتھی کرنا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر سے آذادی کے بعد دوبارہ نتھی کرنے کی ایک وجہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک طرف سیکورٹی کونسل نے گلگت بلتستان کی آذادی کو قانونی طور پر تسلیم کرنے سے انکار کیا دوسری طرف اُس وقت خیال کیا جارہا تھا کہ مسلہ کشمیر کی حل کیلئے اگلے ایک سال کے اندر رائے شماری کیا جائے گا اور اُس میں مسلمان اکثریتی علاقہ گلگت بلتستان اور لداخ کا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑے گا لیکن بدقسمتی سے قائد اعظم محمدعلی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد کی سازشوں نے ایسا ہونے نہیں دیا۔
یوں گزشتہ سال سپریم کورٹ کے فیصلے نے جہاں منجمد ذہنوں کو کھول دیا وہیں پہلی بار یہاں کے عوام نے(یو این سی آئی پی )پر بحث کرنا شروع کیا جس میں لوکل اتھارٹی کا ذکر ہے۔ اب یہ لوکل اتھارٹی کیا ہے عجیب مخلوق کا اپنا ہی ایک خود ساختہ تعریف ہے اور آذاد کشمیر طرز کے لوکل اتھارٹی کو دنیا کا ناکام ترین حکومتی نظام قرار دیتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی معلوم ہونا چاہیے کہ گلگت بلتستان امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ جی بی گورنننس آرڈر 2009 اور آذاد کشمیر کے موجودہ نظام میں عہدوں کے نام کی تبدیلی کے ساتھ کچھ ذیادہ فرق نہیں مگر انکا ریاستی نظام اُنکی شناخت کو واضح کرتی ہے جبکہ گلگت کا قومی شناخت آج بھی مبہم ہے.
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سری نگر کے طرز پر نظام حکومت آذاد کشمیر سے زیادہ بااختیار ہے ہمیں اسکا مطالبہ کرنا چاہیے۔ مطالبہ کس بنیاد پر کریں اس حوالے سے دلیل نہیں یعنی یہ نعرہ بھی پانچواں آئینی صوبے کی مماثلت ہے۔گلگت بلتستان کے بہت سے لوگ آج بھی شائد سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا اتنا مشکل کام نہیں لیکن حکمران توجہ دینے کیلئے تیار نہیں۔ عرض یہ ہے کہ آذاد کشمیرکو قبائلوں کے ذریعے آذاد کرنے اور گلگت بلتستان کے اُس وقت مہاراجہ فوج میں شامل افسران کی جانب سے مہاراجہ کا الحاق بھارت کے بعد گلگت بلتستان کو آذاد کرنے کے بعد یکم جنوری 1948 کو جب نہرو اس کیس کو لیکر اقوام متحدہ گیا تو وہاں ان تمام ایشوز پر کھل کر بات ہوئی جس کے نتیجے میں(یو این سی آئی پی) عمل میں آئی اور صرف سری نگر کی حکومت کو اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل نے قانونی تسلیم کیا اور پاکستان کے زیر انتظام خطوں گلگت اور مظفر آباد کیلئے رائے شماری تک لوکل اتھارٹی کے قیام کا حکم دیا جو مظفرآباد کو تو دیا گیا لیکن گلگت بلتستان میں لوکل اٹھارٹی کا قیام عمل میں لانے کے بجائے معاہدہ کراچی کے ذریعے وفاق کے سُپرد کیا جسے ہمارے عوام آج بھی تسلیم نہیں کرتے۔لہذا جو لوگ سری نگر طرز پر گلگت بلتستان صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں وہ اُنکی خواہش ضرور ہے مگر پاکستان کا ریاستی بیانیہ نہیں بلکہ مسلہ کشمیر کے تناظر میں ایسا کرنے سے بھارت کو اکہترسالوں سے آذادی کی جدوجہد کرنے میں مصروف جموں کشمیر پر مکمل طور پر قبضہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اس علاوہ کیونکہ تینوں فریق(یو این سی آئی پی) کا پابند ہےلہذا میرا ذاتی خیال ہے کہ گلگت بلتستان کیلئے آئین ترمیم کرکے پاکستان بھارت کو موقع کبھی نہیں دے گا اور دینا بھی نہیں چاہئے مگر گلگت بلتستان کو آذاد کشمیر طرز پر ریاستی نظام دے سکتا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد گلگت بلتستان کے تمام سیاسی مذہبی اور سماجی اور طلباء تنظیموں کا بھی یہی مطالبہ ہے۔ لہذا اب اس اہم مسلے پر توجہ دیکر مسلہ کشمیر کی حل تک کیلئے گلگت بلتستان کو اقوام متحدہ کے قرادادوں کے مطابق حقوق دیکر سی پیک جیسے عالمی گیم چینجر منصوبے پر جو پاکستان دشمن طاقتیں گلگت بلتستان کی منتازعہ حیثیت کے سہارے نظریں جمائے اور یہاں پر جاری حقوق کی تحریک کو پاکستان مخالف احتجاج قرار دینے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں اُنکا منہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

 

مزید دریافت کریں۔