[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/05/18816229_10155207330937347_1776574064_n.jpg” ] عدنان أحمد ستون[/author]
انسان عزت کا بھوکا ہوتا ہے جب اسے عزت دی جاتی ہے تو گھاٹے کا سودا بھی کر لیتا ہے-جب انسان کے عزتِ نفس کے ساتھ کھلواڑ ہوتا ہے تو اس کی غیرت جاگ اٹھتی ہے اور اس کے نتیجے میں بغاوت جنم لیتی ہے جو کہ بہت بڑی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ گلگت بلتستان کے باسیوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ، جب حقوق کی بات کی گئی تو ان کو تقسیم در تقسیم کے فارمولے سے توڑا گیا، آپس میں لڑایا گیا، آپس کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا موقع تک نہیں دیا گیا یوں کشمیر کاز کے لئے ہمیں 70 سال متنازع رکھا گیا۔ اب جب سی پیک کی بات ہوئی تو گلگت بلتستان میں امن ،آئینی،معاشرتی و معاشی حقوق ان کی ضرورت بن گئے ,اب انھیں گلگت بلتستان کے حقوق کی ضرورت پیش آئی تو حکومت نے حقوق کی بھی بات کی اور امن کے لیے تگ و دو بھی کیا اور امن تو کسی حد تک قائم بھی ہوا،اور انشاءاللہ حقوق بھی ضرور ملیں گے کیونکہ یہ اب ان کی مجبوری بن گئی ہے۔ بنا حقوق دئے ان کا مقصد کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بات معاشرتی و معاشی حقوق کی ہے جس پہ تحفظات گلگت بلتستان کی عوام کو پہلے بھی تھے اور اب یہ تحفظات اور شدت اختیار کر گئے ہیں۔ جب چاروں صوبوں کے وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم سی پیک کانفرس میں شرکت کے لئے چائینہ گئے اور ہمارے وزیر اعلیٰ کو کوئی لفٹ تک نہں کرائی گئی۔ وزیراعلی صاحب نے اس موضع پے تاحال کوئی ردعمل نہں دیا، ہو سکتا ہے وزیراعظم صاحب نے انہیں اعتماد میں لیا ہو یا پھر ایسا تو نہیں کہ خود وزیر اعلی صاحب کو بھی سی پیک کے فیصلوں پے تحفظات ہوں۔ سی-ایم صاحب کو چاہئے کہ وہ خود اس معاملے کو واضع کریں کہ یہ جو سب چل رہا ہے یہ ان کو اعتماد میں لیے ہوئے ہو رہا ہے یا انہیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اگر ان کو اعتماد میں لیا گیا ہے تو وہ اپنی عوام کو اعتماد میں لیں ورنہ یہ غلط فہمی بڑے اور برے عمل کا سبب بن سکتی ہے۔ میں جس موضوع کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہ رہا ہوں وہ صرف یہ نہں ہے کہ سی- ایم گلگت بلتستان کو باقی صوبوں کے سی- ایم کے ساتھ ون بیلٹ ون روٹ کے اجلاس میں کیوں نہں بلایا گیا،بلکہ قابلِ غور بات یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے بیچ گلگت بلتستان ایک فریق ہے جو کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ سی-پیک کو کامیاب بنانے کے لئے گلگت بلتستان کا کردار بہت اہمیت کا حامل رہے گا ۔سی پیک کو پاکستان تک پہنچنے کے لیے واحد راستہ گلگت بلتستان ہے،یعنی گلگت بلتستان کے بغیر پاکستان چین کا ہمسایہ بھی نہیں ہے۔ ان سب حقائق کے باوجود پاکستان کا گلگت بلتستان کو اس حد تک نظر انداز کرنا محبِ وطن پاکستانی کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے،جسے دیکھ کے لگتا ہے کہ پاکستانی حکومت خود سی – پیک کو سبوتاژ کرنے پہ تلی ہے۔ کوئی بھی زی شعور حکومت اپنی ترقی اور خوشحالی کے دروازے کو خود بند کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی یہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ پاکستانی حکومت کیوں ملک دشمن حرکتیں کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ لگتا ہے وفاق نے سوچ لیا ہے کہ گلگت بلتستان کے سینے کو چیر کے راستہ بھی لیں گے اور گلگت بلتستان والوں کو گھاس بھی نہیں ڈالیں گے۔ گزشتہ دورے میں حکومت جن منصوبوں پے دستخط کر رہی ہے ان میں سی۔پیک اور دیامر ڈیم ہے جن کی پہلی فریق گلگت بلتستان ہے اور گلگت بلتستان کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں۔ بحیثیت فرزند گلگت بلتستان ہم اس بات پے سخت نالاں ہیں کہ بغیر ہماری مرضی یہ حکومتی عمل ہمیں ناقبلِ قبول ہے۔ خیر یہ عمل تو وفاق اور وفاق پے قابض ہرجماعت ہر دور میں ملک دشمن پالیسوں پے عمل پیرا رہی ہے۔ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ اس عمل کے بعد بحیثیت ایک قوم ہم نے کیا لائحہ عمل طے کیا ہے۔ اس معاملے پے قانون ساز اسمبلی کے ارکان اور بلخصوص س-ایم صاحب کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔ لوگوں نے اپنا ووٹ صرف اس لئے دیا ہے کہ آپ ہر جگہ ان کے حقوق اور عزت و تکریم کا دفاع کریں نہ کہ اپنے ذاتی مقاصد اور پروٹوکول سے بس وقت گزاریں۔
وسلام۔عدنان احمد ستون