[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/08/FB_IMG_1485530728203.jpg” ]شیرنادر شاہی [/author]
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دس دسمبر 1947 کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کی جس کو انسانی حقوق کا عالمی منشور کہا جاتا ہے، اس قرارداد کو دنیا بھر سے تقریباً تمام ممالک کے نمائندوں ، قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے مرتب کیا تھا اور اس قرارداد کا مقصد دنیا بھر میں انسانی حقوق کا تحفظ کرنا، تمام انسانوں کے لئے حدود و قیود متعین کرنا، دنیا بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنا اور اقوامِ متحدہ کے تمام ممبر ممالک کو انسانی حقوق کے حوالے سے باور کرانا تھا تاکہ ہر ملک اپنے شہریوں کو برابری کے تعلیمی، سیاسی، جمہوری، بنیادی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی حقوق دیں اور یہ بھی باور کرایا گیا تھا کہ جو لوگ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کریں تو ان کی بات سنی جائے اور ان کو پابند سلاسل، جلاوطن، جسمانی یا ذہنی تشدد کرنے کے بجائے ان کو ان کے تمام حقوق فراہم کئے جائیں تاکہ مساوات اور برابری پر مبنی پرامن سماج کا قیام عمل میں لایا جاسکے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہے، فرد کی ذاتی آزادی سے لے کر اجتماعی آزدی وحقوق کی حد تک پامالی ہو رہی ہے، بلوچستان سے لے کر سند ھ تک اور سندھ سے گلگت بلتستان تک عوام نہ صرف بنیادی حقوق سے محروم ہیں بلکہ انسانی و بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں ہزاروں کی تعداد میں پرامن لوگ جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جبری طور پر غائب کرایا جاچکا ہے اور ماورائے عدالت قتل و غارت گری کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔
گلگت بلتستان دنیا کا وہ بدقسمت خطہ ہے جو گزشتہ ستر سالوں سے بنیادی، انسانی، جمہوری، سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم ہے ایک طرف حکومت پاکستان نے اس خطے کے عوام کو تمام تر بنیادی حقوق سے متنازعہ ہونے محروم رکھا ہوا ہے تو دوسری طرف یہاں کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے اور بدلے میں مقامی نوجوانوں کو اپنے حقوق کے لئے پرامن آواز اٹھانے کی پاداش میں جیل کےسلاخوں کے پیچھے ڈال کر خاموش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت انیس سے زائد پرامن سیاسی ورکرز، صحافی، طلبہ، ہیومن رائٹس ورکرز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں جبکہ سینکڑوں قوم پرست سیاسی ورکرز اور صحافی نیشنل ایکشن پلان کے تحت مسلط کردہ انسدادِ دہشتگردی ایکٹ اور شیڈول فور سمیت کئی بے بنیاد مقدمات بھگتنے پر مجبور ہیں اور عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں اور کئی بے قصور ورکرز روپوشی کی زندگی گزرانے پر مجبورہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن ، پاکستان کی رپورٹ:
3 مارچ 2017 کو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کیا جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی پامالی عروج پر ہے ، پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والے سینکڑوں کارکنوں کو انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے جیلوں میں قید کیا جارہا ہے ، ان پر جسمانی اور ذہنی تشدد کی جاتی ہے اور بیس بائیس سال کے نوجوانوں کو حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ڈرا دھمکا کر حقوق کے لئے آواز اٹھانے سے روکتی ہے
”” جب بیس بائیس برس کے نوجوان واچ لسٹ پر ہوں گے تو اس سے خوف کی فضا تو پیدا ہو گی۔ اگر کوئی ذرا سی بھی تنقید کرے ایجنسیاں انہیں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فوراً گرفتار کر لیتی ہیں“ اس رپورٹ میں مزید بتایاگیا ہے کہ گلگت بلتستان کے سیاسی اداروں کے پاس کوئی اختیار نہیں ہیں، عدالتوں میں غیر مقامی ججز کو تعینات کیا جاتا ہے اور حکومت مقامی لوگوں کی زمینوں پر جبری طور پر قبضہ کرتی ہے رپورٹ میں کہا گیاہے کہ ”گلگت بلتستان چھوٹا سا علاقہ ہے اور اسے مقامی لوگوں کے پاس ہی رہنے دیں۔ اور اگر سی پیک لوگوں سے زمینیں لی گئی ہیں تو انھیں اس کا معاوضہ دیا جائے۔ علاقے میں جو ترقیاتی کام ہے وہ حکومت پاکستان کرے، نہ کہ کوئی دوسرا ملک آکر کرے“
اس تفصیلی رپورٹ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے قراردادوں کے تحت متنازعہ خطہ گلگت بلتستان کے عوام خاص کر حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والوں پر کس طرح ظلم کیا جاتا ہے اور عوام کو بنیادی سہولیات سے دور رکھنے کے لئے کیسے کیسے مظالم روا رکھے جاتے ہیں۔
اظہارِ رائے /پریس پر پابندی:
انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل ۱۹ کے تحت ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کریں اور اپنی سوچ ،فکر و نظریات پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارے۔ ریاست کے ہر فرد اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے معاشرے میں ہونے والی ظلم و زیادتی اور جبر و استبداد کے خلاف قلمی جدوجہد کو اپنا شعار بنا سکتا ہے اور اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے گزشتہ کئی سالوں سے گلگت بلتستان میں اظہارِ رائے کی آزادی پر حکومت اور طاغونی قوتوں نے شب خون مارا ہے یہاں انفرادی تحریر و تقریر سے لے کر اجتماعی حقوق کے لئے تحریر و تقریر کے ذریعے آواز بلند کرنے تک پابندی ہے اور جو شخص حقوق کے لئے پرامن جدوجہد کرتے ہیں اس کے خلاف حکومت اور ریاستی ادارے حرکت میں آجاتی ہے اور ایسے پرامن سیاسی، سماجی اور صحافیوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے جاتے ہیں اور ان کا نام شیڈول فور جیسے کالے قانون میں ڈال کر ان کو ہراساں کیا جاتا ہے
صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم Comitee to Protect Journalist (CPJ) نے 4 اکتوبر 2018 کو جاری کردہ اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں گلگت بلتستان کے صحافیوں کے ساتھ حکومت کی طرف سے انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت دائر مقدمات اور صحافی شبیر سہام کو ہراساں کرنے کے حوالے سے لکھا ہے :
“Authorities in Pakistan should drop charges against journalist Shabbir Siham, the Committee to Protect Journalists said today. An anti-terrorism court in Pakistan’s northern Gilgit-Baltistan region summoned Siham for a hearing on October 7 on accusations of fabrication and extorting a regional minister in violation of Pakistan’s Anti-Terrorism Act, according to news reports and to Saeed Ahmed, the manager of the Islamabad-based Journalist Safety Hub, which provides support and training to at-risk journalists. He also faces charges of defamation under the Pakistan Penal Code, the reports said.”
(Cpj.org 24 oct 2017)
صحافیوں کے تحفظ کی اسی تنظیم نے 12 ستمبر کو جاری اپنی ایک اور تفصیلی رپورٹ میں حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے روزنامہ بانگِ سحر اور ہفت روزہ بانگ کے چیف ایڈیٹر ڈی جے مٹھل اور ماہنامہ بالاورستان ٹائمزاور ماہنامہ کرگل انٹرنیشنل کے ایڈیٹر شیر نادر شاہی (راقم) کے خلاف انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کرکے ان کو گرفتار کرنے اور ان کے نام شیڈول فور میں شامل کرنے کے حوالے سے لکھا ہے :
“Pakistani authorities charged two journalists with publishing and distributing anti-state material on September 20, 2016, according to a member of a local nongovernmental organization who is familiar with the case but did not want to be named for fear of retribution. Authorities in the northwest Gilgit-Baltistan region arrested Daulat Jan Mathal, the editor-in-chief of three local news outlets, on October 24, 2016, according to the NGO worker.Sher Nadir Shahi, a writer and editor for several regional publications, including one of Mathal’s, told CPJ he went into hiding to avoid arrest.”
(cpj.org 12 sept, 2017)
صحافیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور پریس پر ریاستی وغیر ریاستی اداروں اور حکومت کی طرف سے دباؤ کی درجنوں مثالیں موجود ہیں اور ایسے کئی قلمکار، صحافی اور رپورٹرز موجود ہیں جن کو انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت ہراساں کیا گیا اور ان کا نام صحافتی کام کی وج سے شیڈول فور میں ڈالا گیا۔ روزنامہ بانگِ سحر کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اور ماہنامہ بالاورستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر شاہد حسین، ماہنامہ بالاورستان ٹائمز کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر آفاق بالاور، بیوروچیف آصف علی اشرف اور بانگِ سحر کے رپورٹر ثاقب عمر کا نام شیڈول فور میں شامل ہیں جبکہ شاہد حسین اور آفاق بالاور کے خلاف جھوٹے مقدمات بنا کر انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کیا گیا اور تاحال ان کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد سے شائع گلگت بلتستان کی پرانی زبان بروشاسکی کے حوالے سے لکھی گئی کتاب ”یسنِ بروشاسکی“ ، گلگت بلتستان کی لیڈینگ نیوز پیپر روزنامہ بانگِ سحر ، ہفت روزہ بانگ، ماہنامہ بالاورستان ٹائمز پر پابندی لگائی گئی اور کتب و میگزینز کو راولپنڈی سے گلگت بھیجنے پر طالب علم ثناء اللہ اور گاہکوچ میں کتب و رسائل کو وصول کرنے پر سیاسی ورکر عنایت کریم کو بھی ایف آئی آر میں شامل کر کے گرفتار کیا گیا جو ایک سال سے تاحال گلگت جیل میں ناکردہ گناہوں کی سزابھگت رہے ہیں اور بالاورستان ٹائمز کے رسالوں سمیت بروشاسکی کتابیں اب تک پولیس کے تحویل میں ہیں۔
گلگت بلتستان میں الیکٹرانک میڈیا کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ پرنٹ میڈیا مکمل طور پر ریاستی اداروں اور حکومتی سرپرستی میں کام کرنے پر مجبور ہے جس کی وجہ سے عوام کی بنیادی سیاسی قانونی اور انسانی حقوق کے حوالے سے مقامی تحریکوں اور عوام کی آواز مہذب دنیا تک نہیں پہنچ پاتی۔ مقامی اخبارات حکومتی اشتہارات کے بل بوتے پر چلتے ہیں اور حکومتی آشرباد سے چلنے والے اخبارات مکمل طور پر حکومت کےساتھ مل کر عوامی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے پرامن قوم پرست وترقی پسند تحریکوں کے خلاف لکھتی ہے اور ان کے ہر جائز آواز کو بھی حکومتی ایما پر دباتی ہے جبکہ حکومت اور ایجنسیوں کی ہر ناجائز کام پر بھی پردہ ڈال دیتی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ سوائے ایک دو نڈر اخباری مالکان یا صحافیوں کے کسی نے بھی میڈیا میں حقوق کے لئے پرامن آواز اٹھانے والے قوم پرستوں اور ترقی پسندوں کو کبھی جائز جگہ نہیں دی اور حکومتی ایما پر ان قوم پرستوں کے خلاف جھوٹی خبریں لیڈ اور سپر لیڈ میں شائع ہوتے ہیں جبکہ ان کی تردید کے لئے مقامی پارٹیوں کے لوگوں کو ایک کالمی خبر کی بھی جگہ نہیں ملتی۔
سیاسی سرگرمیوں پر پابندی:
گلگت بلتستان آئینی و قانونی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں تاہم گورننس آرڈر ۲۰۰۹ کے تحت گلگت بلتستان کو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے پاکستان کا پانچواں صوبہ بنا دیا تا کہ مقامی عوام اور عالمی برادری کو بےو قوف بنایا جاسکے۔ اس گورننس آرڈر کے تحت گلگت بلتستان میں ایک نام نہاد اسمبلی تشکیل دی گئی جس کو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا نام دیا گیا جس کی کوئی آئینی و قانونی اہمیت نہیں اور نہ اس اسمبلی کے ممبران کے پاس کوئی اختیارات ہیں اس اسمبلی کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کونسل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا اور اس کونسل کے چئیرمین پاکستان کے وزیر اعظم ہے یعنی برائے نام کونسل کو بھی لیڈ پاکستانی وزیر اعظم کرتا ہے اور مقامی نمائندوں کی کوئی حیثیت نہیں، اس کونسل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالیہ دنوں اس کونسل کے ممبران جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کرنے گئے تو انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ گلگت بلتستان کونسل نام کی کوئی ادارہ بھی موجود ہے مجھے اس کا علم نہیں۔
گلگت بلتستان اقوامِ متحدہ کے قراردادوں کے تحت متنازعہ ہونے کی وجہ سے اس کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اس لئے گلگت بلتستان کے محبِ وطن سپوتوں نے پاکستان سے برامد شدہ تنظیموں میں رہ کر عوام کو بیوقوف بنانے کے بجائے مقامی سطح پر تحریکوں کا آغاز کیا تھا، ان مختلف قوم پرست و ترقی پسند تنظیموں کے پلیٹ فارم سے گلگت بلتستان کے عوام اقوام متحدہ کے قراردادوں کے عین مطابق اورگلگت بلتستان پر پاکستان کے موقف کے تحت بنیادی ،سیاسی، جمہوری اور انسانی حقوق کے لئے پرامن جدوجہد کرتے ہیں اور انسانی حقوق کے عالمی منشور کے تحت حقوق کے لئے پرامن جدوجہد تمام افراد کا حق ہے لیکن بدقسمتی سےحکومت اور ریاستی ایجنسیاں گلگت بلتستان کے مقامی سیاسی تنظیموں کو پرامن جدوجہد سے روکنے کے لئے ہر طرح کے پروپیگنڈے استعمال کرتی ہے، گلگت بلتستان کے قوم پرست تحریکوں کو خریدنے، کچلنے اور عوام سے دور رکھنے کے لئے ان کو غدار اور ایجنٹ جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے اور بغیر شواہد و ثبوتوں کے قوم پرستوں کو قید و بند کی سزائیں دی جاتی ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان اور شیڈول فور جیسے کالے قوانین مذہبی انتہا پسندوں اور دہشتگردوں کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے متنازعہ علاقہ گلگت بلتستان کے نہتے قوم پرست و ترقی پسندوں کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں ، اگر دیکھا جائے تو اس خطے میں گزشتہ ۷۰ سالوں سے مارشل لاء نافذ ہے عوامی حقوق اور پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کالے قوانین کا استعمال عروج پر ہے جس کی واضح مثالیں موجود ہیں۔
قوم پرست و ترقی پسند سیاسی اسیران:
2010ء میں گلگت بلتستان کے گاؤں ہنزہ عطاء آباد کے مقام پر قدرتی آفت کی وجہ سے جھیل بنی جس نے سینکڑوں گھروں اور زمینوں کو تباہ کردیا اور سینکڑوں لوگ متاثر ہوئے لیکن حکومت نے مقامی عوام بالخصوص متاثرین کی بحالی کے لئے کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے مجبوراً متاثرین عطاآباد نے اپنے حقوق اور بحالی کے لئے احتجاجی مظاہرہ کیا لیکن اس وقت کی حکومت نے عوام کے مطالبات ماننے کے بجائے مظاہرین پر فائر کر کے باپ بیٹے کو شہید کردیا اور متاثرین سمیت مظاہرین کے خلاف جھوٹے مقدمات بنا کر درجنوں سیاسی کارکنوں کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما کامریڈ بابا جان، قراقرم نیشنل مومنٹ کے رہنما افتخار کربلائی ، اجلال حسین، عرفان کریم و دیگر آج سات سال گزرنے کے باوجود بھی جیلوں میں عمر قید اور انیس انیس سالوں کی سزا بھگت رہے ہیں اور کئی بے گناہ مقدمات کا سامنا کررہے ہیں
بالاورستان نیشنل فرنٹ کے رہنما وسابق امیدوار گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی قیوم خان بالاورستانی کا نام شیڈول فور میں ڈال کر ان کو حراساں کیا گیا اور اپنی دھرتی کی زمین اس پر تنگ کی گئی، اپنی ہی دھرتی شندور گلگت بلتستان میں منعقدہ عالمی فیسٹیول شندور میلے میں جانے کے جرم میں 26 اگست 2016 کو ان کوگرفتار کیا گیا اور تین ہفتوں تک جے آئی ٹی میں رکھ کر جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اپنی حواری میڈیا کے ذریعے ان کے خلاف جھوٹے بیانات چلا کر پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا، اور آج سالوں بعد بھی گلگت جیل میں پابندِ سلاسل ہے، اس کی غلطی صرف یہ تھی کہ انہوں نےسی پیک میں گلگت بلتستان کے حقوق، غیر قانونی ٹیکسز اور گندم سبسڈی بحالی سمیت دیگر حقوق کے ڈیمانڈ پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
بالاورستان نیشنل سٹوڈنٹس ارگنائزیشن کے رہنما و طالب علم ثناء اللہ خان کو
کو۴ اکتوبر ۲۰۱۶ کو راولپنڈی سے اچانک غائب کیا گیا اور کئی دنوں تک زندان میں رکھنے کے بعد ۲۴ اکتوبر ۲۰۱۶ کو جوڈیشل ریمانڈ پر دہشتگردی کے جھوٹے مقدمات لگا کر گلگت جیل بھیج دیا گیا اور آج بھی گلگت جیل میں قید ہے اس کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اسلام آباد سے گاہکوچ برشاسکی زبان پر لکھی گئی ادبی و غیر سیاسی کتب بھیجے تھے جبکہ ان کے ساتھ ساتھ بی این ایف کے کارکن عنایت کریم کو بھی گرفتار کر لیا گیا جس کا قصور ان کتابوں اور رسالوں کو وصول کرنا تھا۔
بالاورستان نیشنل فرنٹ یاسین یونٹ کے صدر قوت خان پر جھوٹے مقدمات بنا کر گرفتار کر لیا گیا لیکن بعد میں جرم ثابت نہ ہونے پر دیگر کارکنوں کے ساتھ رہا ہوگئے لیکن ۱۲ اکتوبر ۲۰۱۶ کو دوبارہ
گرفتار کر کے جے آئی ٹی میں رکھا گیا اور
۲۵ اکتوبر ۲۰۱۶ کو جیل بھیج دیا گیا اور اب تک سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
بی این ایف کے بزرگ کارکن حوالدار (ر) مروک کو یاسین سے ۸ اکتوبر ۲۰۱۶ کو گرفتار کر کے اس لئے جیل بھیج دیا گیا کیونکہ اس نے بی این ایف سے مستعفیٰ ہونے سے انکار کر دیا جس کی سزا آج بھی گلگت جیل میں بھگت رہے ہیں۔
بی این ایف کے کارکن مجید اللہ پر ہتھیار رکھنے اور سی پیک کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگاکر ۲ اکتوبر ۲۰۱۶ کو گرفتار کیا گیا اور جے آئی ٹی میں بری طرح ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ۲۵ اکتوبر کو جیل بھیجا گیا، حکومتی اور ریاستی اداروں نے مقامی پولیس کی مدد سے بی این ایف کو بدنام کرنے کے لئے دو چار پرانے بندوق ملنے پر ان کے ساتھ خود سے بھاری ہتھیار ملا کر بی این ایف کے خلاف سازش کی ناکام کوشش کی۔
بی این ایف کے مرکزی رہنما صفدر علی کو ۱۲ اکتوبر ۲۰۱۷ کو گلگت سے بی این ایف کے اسیر رہنما و کارکنوں کی رہائی ، بی این ایف کے خلاف ریاستی پروپیگنڈہ اور بی این ایف پر لگنے والے جھوٹے الزامات کے خلاف پریس کانفرنس کر نے کی پاداش میں پریس کلب کی طرف جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا اور محبوب ایڈوکیٹ کے ساتھ جیل بھیج دیا گیا اور تاحال پابندِ سلاسل ہے۔
۹ اگست ۲۰۱۷ کو گلگت بلتستان کے بنیادی سیاسی و انسانی حقوق کے لئے پرامن جدوجہد کرنے والے سیاسی ورکر و رہنما عوامی ایکشن تحریک حسنین رمل کو گلگت سے گرفتار کیا گیا ، ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان کی عوامی حقوق کے لئے شعور اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اور ظلم و جبر کے خلاف قلمی جدوجہد کی۔ ان کو جے آئی ٹی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور علاج کی سہولت سے بھی محروم رکھا گیا۔
وکلاء جیلوں میں :
حکومت اور ریاستی ادارے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سچے اور نڈر سیاسی لوگوں کو ہراساں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ جس معاشرے میں عوام کو انصاف دلانے والے وکلاء کو بھی ہراساں کیا جارہا ہو وہاں پرامن و غریب سیاسی کارکنوں کی جان و مال کی تحفظ خواب کے سوا کچھ نہیں۔
بی این ایف کے مرکزی رہنما ، سابق امید وار گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی و معروف قانون دان محبوب علی ایڈوکیٹ کو پر اپنے سیاسی و نظریاتی ساتھیوں کی رہائی اور تنظیم پر لگنے والے جھوٹے الزامات کے خلاف بی این ایف کے رہنما صفدر علی کے ساتھ گلگت پریس کلب میں پرامن پریس کانفرنس کے لئے جاتے وقت ۱۲ فروری ۲۰۱۷ کو گلگت سے گرفتار کر کے مقامی جیل میں قید رکھا گیا اور تاحال رہائی عمل میں نہ آسکی۔
قراقرم نیشنل مومنٹ کے سابق چیئرمین و معروف قانون دان ممتاز نگری ایڈوکیٹ کو عوامی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے کی پاداش میں ان کا نام انسدادِ دہشتگردی کے تحت کالے قانون شیڈول فور میں رکھا گیا اور ان کی سیاسی جدوجہد پر پابندی لگا دی گئی۔
گلگت بلتستان کے ممتاز قانون دان و قلم کار شکور خان ایڈوکیٹ پر جھوٹے مقدمات لگا کر ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی جس وہ روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ بعد ازاں ان کے بڑے بھائی اور بی این ایف کے جلاوطن چئیرمین عبدالحمید خان کے ساتھ ساتھ شکور خان ایڈوکیٹ کی موروثی جائیداد اور زمینیں بھی مقامی انتظامیہ کی مدد سے ضبط کرکے مقامی نمبرداروں کی تحویل میں دی گئی جس ان کے بچوں اور خاندان دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ بی این ایف کے چئیرمین عبدالحمید خان کے بھائی ہے۔
شیڈول فور کا ناجائز استعمال:
پاکستان میں مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارووائی کرنے کے بجائے حکومت اور ریاستی اداروں نے اس قانون کا اطلاق ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے گلگت بلتستان کے پرامن قوم پرست و ترقی پسند سیاسی ورکرز کے خلاف ہوا تاکہ اس متنازعہ خطے کے نہتے عوام اور پرامن سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکنان ۷۰ سالوں سے اپنے خلاف روا رکھے جانے والے مظالم کے خلاف آواز نہ اٹھا سکے اور خاص کر سی پیک میں اپنے جائز حقوق اور خالصہ سرکار کے نام پر زمینوں پر ناجائز قبضے کے خلاف پرامن سیاسی و قلمی جدوجہد نہ کر سکے یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے نہتے عوام بالخصوص نوجوان، طلباء، قوم پرست و ترقی پسند جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کا نام شیڈول فور میں شامل کیا گیا جن میں کے این ایم کے چئیرمین محمد جاوید، ممتاز نگری ایڈوکیٹ، بی این ایف کے مرکزی رہنما شاہد حسین، صفدر علی، قیوم خان، علی غلام، حفص شاہ، ولی محمد،بی این ایس او کے رہنما شیر نادر شاہی (راقم)، آصف علی اشرف، بی این ایس او کے سابق رہنما آفاق بالاور، اسلم انقلابی، گلگت بلتستان تھنکرز فورم کے رہنما نادرحسن خان، روزنامہ بانگِ سحر کے چیف ایڈیٹر ڈی جے مٹھل، صحافی ثاقب عمر، عوامی ایکشن تحریک کے رہنما حسنین رمل، عوامی ایکشن کمیٹی غذر کے رہنما طاہر علی طاہر، پی پی پی کے رہنما ظفر شادم خیل، توصیف حسن اور سینکڑوں دیگر مذہبی و سیاسی رہنماؤں و کارکنان کا نام شیڈول فور میں شامل کیا گیا تاکہ حقوق کے لئے نکلنے والے لوگوں کو روکا جا سکے۔
گزشتہ ستر سالوں سے گلگت بلتستان میں غیر یقینی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ایک طرف بنیادی سیاسی و انسانی حقوق سے یہاں کے عوام کو دور رکھا گیا اور دوسری طرف حقوق کے لئے پرامن جدوجہد کرنے والوں کے خلاف مقدمات بنا کر ان کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت کاروائی کرکے جیلوں میں پابندِ سلاسل کرنے کا سلسلہ جاری ہے، ایسے صورت حال میں گلگت بلتستان کے عوام کی نظریں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، عالمی میڈیا اور پاکستان کے انسان دوست عوام کی طرف مرکوز ہیں تاکہ کوئی تو ہو جو ستر سالہ محرومیوں پر نمک چھڑکنے کے بجائے ان پر مرہم رکھے اور یہاں کے عوام کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔