ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ عورت کم عقل اور کم دین ہے، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ یہ الفاظ بظاہر عورت کے عزت و احترام کے خلاف محسوس ہوتے ہیں، لیکن دراصل ان کا ایک خاص پس منظر اور مقصد ہے، جو عورتوں کی تذلیل کے بجائے تربیت، تزکیہ اور انذار و تذکیر کے لئے ہے۔
اس حدیث کو سمجھنے کے لیے ہم دو تین نکتے عرض کریں گے تاہم اس سے پہلے ایک بدیہی بات جاننا ضروری ہے۔ رسول اللہ صرف مردوں کا نبی نہیں بلکہ عورتوں کا بھی نبی ہے. تربیت و تزکیہ اور تذکیر و انذار صرف مردوں کی نہیں عورتوں کی بھی ضرورت ہے۔
رسول اللہ نے مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے بشیر اور نذیر کا کردار ادا کیا ہے۔ یہی رسول اللہ کی ذمہ داری بھی تھی۔ سیرت و حدیث کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جتنی انذار و تذکیر مردوں کی، کی ہے اس کا عشرعشیر بھی عورتوں کی نہیں کی، تاہم کچھ مواقع پر عورتوں کو بھی اصلاح اور ترتیب و تزکیہ کے لیے کچھ وعیدیں سنائی ہیں۔ان اقوال کا پہلا اور آخری مقصد تذکیہ و اصلاح تھا نہ کہ تضحیک و تذلیل۔
عورت کی عقل اور دین کی کمی کے بارے میں حدیث کا پس منظر اور تشریح درست منہج پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اسی تناظر میں فہم حدیث ہوگی تو بات بنے گی ورنا ہمارے لبرل اور دیندار بھائی دونوں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے۔
حدیث پر کچھ اہم نکتے ملاحظہ ہوں۔
پہلا نکتہ: حدیث کی وضاحت
اس حدیث میں جس جملے کو قابلِ اعتراض سمجھا جا رہا ہے، اسی حدیث میں اس کی وضاحت بھی موجود ہے۔ نبی کریم ﷺ نے عورت کی عقل کی کمی کو بعض معاملات میں عورت کی گواہی کا نصف ہونا بیان فرمایا، جو قرآنِ مجید میں بھی مذکور ہے:
“وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنْ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى” (البقرة: 282)
ترجمہ: اور اپنے مردوں میں سے دو گواہوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں، اس لیے کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔
نبی کریم ﷺ نے عورت کی دین کی کمی کو بھی واضح کیا کہ یہ اس کے ایامِ ماہواری میں نماز اور روزے کی کمی کی وجہ سے ہے۔ یہ بھی بے دینی کی بات نہیں بلکہ فرضی اور نفلی عبادات میں چھٹکارے کی بات ہے جو دراصل عورتوں کا اعزاز اور اسپیشل اسٹیٹس ہے. یار لوگ اس کو بھی کسی اور کھاتے میں ڈالنے کی کوشش فرما رہے ہیں
دوسرا نکتہ: عورت کی گواہی
عورت کی گواہی کے بارے میں جو ذکر کیا گیا ہے، وہ مالی معاملات میں گواہی کے حوالے سے ہے۔ جیسے خرید و فروخت، وکالت، ضمانت وغیرہ۔ لیکن دوسرے معاملات، جن میں انسانی جذبات کا عمل دخل کم ہو اور معاملے کا انحصار محض ذہانت اور حافظے پر ہو، ان میں عورت کی گواہی مرد کی طرح ہی ہے۔ اور بعض معاملات میں صرف عورتوں کی گواہی ہی معتبر ہے۔
غور کریں تو ان مالی معاملات کے جھنجھٹ سے عورتوں کو نکال کر اللہ اور رسول اللہ نے عورتوں پر احسان عظیم کیا ہے ورنا آج پاکستان کی عدالتوں میں تو عورتیں گواہی کے نام پر برباد ہوجاتیں۔
تیسرا نکتہ: عورت کی عزت اور احترام
اسلام نے عورت کو عزت دی اور اسے مناسب مقام عطا کیا۔ مرد و عورت کے احکام و مسائل میں بہت کم فرق ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ النساء (خواتین) کے نام سے ایک پوری سورت نازل ہوئی اور عورتوں کو ماں، بیوی اور بیٹی کے روپ میں عزت و احترام کا اونچا مقام دیا۔
نتیجہ کلام
یہ حدیث عورتوں کی تذلیل یا تضحیک کے لئے نہیں اور نہ ہی انہیں کم عقل اور بے دین بنانے کے لیے ہے بلکہ ایک خاص پس منظر اور مقصد کے تحت بیان کی گئی ہے۔ اس کا مقصد عورتوں کو ان کی ذمہ داریوں اور معاشرتی کردار کے حوالے سے آگاہ کرنا ہے۔ اسلام میں عورت کو ہمیشہ عزت و احترام دیا گیا ہے اور اس کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔
ویسے مردوں کے لئے تخویف و تذکیر اور تربیت و تزکیہ پر مبنی، بیان کی گئی احادیث و احکام جمع کیے جائیں تو ہم سب مردوں کو منہ دکھانے کے جگہ نہیں ملے گی۔ لہذا بہتری اسی میں ہے کہ نہ عورتوں کے پیچھے پڑیں اور نہ ہی حدیث کو غلط طور پر پیش کرنے کی کوشش کریں۔