چوہدری محمد اشرف گوجر
جناب اسد عمر! میں قوم کا قرض اُتارنے کو تیار ہوں
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مقروض افرادعزت، ادارے سندِ قبولیت، جبکہ قومیں آزادی کھو بیٹھتی ہیں کیونکہ قرض آزادی سلب کرلیتا ہے۔ قرض دینے والے ادارے اور ممالک قرضوں کیساتھ کچھ کڑی شرائط بھی عائد کردیتے ہیں جنکے تحت یقیناًملکی سلامتی گروی رکھی جاتی ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور دیگر ممالک یا اداروں سے جو قرض لئے اُنکے عوض پاکستان کے ائرپورٹس، پاکستان ٹیلیویژن اور ریڈیو پاکستان کی عمارتیں نیز کم و بیش پاکستان کی تمام موٹر ویز اور ہائی ویز رہن رکھی جا چکی ہیں۔ ماضی میں ہمارے ناعاقبت اندیش اور نااہل حکمران، بلا سوچے سمجھے نیز ترجیحات کا تعین کئے بغیر قرض پر قرض لیتے رہے اور پاکستان کی خودمختاری کا سودا کرتے رہے۔ ایک لمحے کو تصور کیجئے کہ خدا نخواستہ کوئی آفت آجائے یا جنگ مسلط کردیجائے اور پاکستان بروقت یہ قرضے ادا نہ کرسکے تو ملک کا کیا حشر ہوگا؟ جی ہاں! قرض اور رہن کی دستاویزات کے تحت قرض دینے والا ملک یا ادارہ فوری طور پر رہن رکھے گئے تمام اثاثہ جات کا مالک بن جائیگا۔ آپ خود، چشمِ تصور سے اندازہ لگا ئیے کہ ایسی صورت میں ملکی سلامتی کس نوعیت کی بحرانی کیفیت کا شکار ہوسکتی ہے۔ اقتصادی حوالہ سے ملکی تاریخ میں گزشتہ دس سالوں کے دوران حکومتوں کی کارکردگی نہایت غیر تسلی بخش اور بیحد افسوسناک رہی ہے۔ درآمدات کی بھرمار۔ برآمدات ختم ہوکر رہ گئیں۔ بیرونی قرضوں کے انبار تلے دبی ہوئی ملکی معیشت کومصنوعی تنفس پر منتقل کردیا گیا۔ بدترین طرزِ حکمرانی، شاہ خرچیوں، منی لانڈرنگ، لوٹ مار، کرپشن اور کمیشن کے تمام عالمی ریکارڈ توڑ ڈالے گئے۔
قیامِ پاکستان کے بعد قرض لینے کا سلسلہ 1948ء میں شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔ وطنِ عزیز کی تاریخ میں شائد ہی کوئی ایسا ماہ و سال گزرا ہو جس میں ہم نے بیرونی قرضہ حاصل نہ کیا ہو۔یہ قرضہ جات بجٹ سپورٹ، گورننس ریفارمز، ترقیاتی سکیموں اور پُرانے قرضوں کی ادائیگی کے نام پر لئے جاتے رہے۔ آپ یقیناًحیران ہونگے کہ 1948ء تا 2005ء کے دوران تو17.15 بلین ڈالر قرضہ جات لیئے گئے لیکن صرف نواز شریف کے آخری چار سالہ دورِ حکومت میں یعنی2013ء تا 2017ء کے دوران 35 بلین ڈالر قرضے حاصل کیئے گئے جو پاکستان کے تمام ادوار میں لئے جانیوالے قرضوں سے مجموعی طور پر زیادہ تھے۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران نااہل حکومتیں قرضوں کے حصول میں کی سنگین خلاف ورزی کی مرتکب ہوئیں۔ قواعد کے تحت بیرونی قرضے ملک کے جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زیادہ نہیں لئے جاسکتے تھے۔ جی ڈی پی کی پیمائش قومی بچتوں، سرمایہ کاری اور برآمدات کی بنیاد پر کیجاتی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں صرف دو مرتبہ ایسا ہوا کہ نہایت نامساعد اور ناگزیر حالات کے پیشِ نظر قرض لینا پڑا۔ پہلی مرتبہ 1948ء میں قائداعظم محمد علی جناح کو دو بلین ڈالر امریکہ سے قرض لینا پڑا۔ جس کا پس منظر ظاہر ہے کہ غیر منصفانہ تقسیم ہند کے ذریعے پاکستان کو بیشتر اثاثہ جات سے محروم کردیا گیا تھا نیز دنیا کی سب سے بڑی مہاجرت کے باعث بھارت سے مسلمانوں کے لامتناہی قافلوں کی آمد جاری تھی۔اتنی کثیر تعداد میں مہاجروں کی کفالت کے سبب نوزائیدہ مملکت کی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہو گئی تھی۔ ابھی انڈیا سے مہاجر قافلوں کی جوق در جوق آمد جاری تھی کہ بھارت نے جموں و کشمیر میں فوجیں داخل کردیں لہٰذا جہادِ کشمیر شروع ہوجانے کے سبب جموں و کشمیر سے بھی مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا لہٰذا بیرونی قرضہ حاصل کرنیکے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ دوسری مرتبہ ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے آجکل عمران خان حکومت کو اپنے دوست ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، چین اور آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کیلئے رابطہ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ گزشتہ دس سالوں کے دوران ہمارے حکمرانوں نے ملکی معیشت کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ بدترین طرزِ حکمرانی، شاہ خرچیوں، منی لانڈرنگ، لوٹ مار، کرپشن اور کمیشن مافیا نے ملکی سلامتی کیلئے نہایت اہمیت کے حامل اثاثہ جات کو گروی رکھ کر ملک کو کھربوں روپے کا مقروض کردیا ہے۔ ماضی کی دو حکومتوں کی جانب سے لئے گئے بھاری بھرکم قرضوں کی قسطیں واجب الادہ ہیں، بروقت ادائیگیاں نہ ہونیکی صورت میں پاکستان کے ڈیفالٹ کر جانیکا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ ڈیفالٹ کر جانیکی صورت میں رھن رکھے گئے پاکستان کے ائیر پورٹس، پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان اور دیگر عمارتوں کے علاوہ تقریباً تمام موٹر ویز اور ہائی ویزقرض دینے والے اداروں یا ملکوں کی تحویل میں چلے جانے کا خدشہ درپیش ہے۔ یہ ہے وہ پریشانی اور مشکل جو موجودہ حکومت کی اقتصادی ٹیم کو درپیش ہے۔ میری دانست میں ہر محب وطن اور صاحب حیثیت شہری بھی اِس بحرانی کیفیت میں ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان مجھ سمیت ہر شہری کو اپنا قومی فریضہ ادا کرنے کیلئے پُکار رہا ہے۔ میرے پیارے وطن کی یہ صدائیں ہر وقت میری سماعتوں میں گونجتی رہتی ہیں۔
جناب اسد عمر! یہ درست ہے کہ آج پوری قوم بیرونی قرضوں کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔سابق حکمرانوں کی بدترین طرزِ حکمرانی، شاہ خرچیوں، منی لانڈرنگ اور کرپشن کے سبب آج ہر نوزائیدہ بچہ ایک لاکھ بیس ہزار روپے کا مقروض بن کر ماں کی گود میں آنکھ کھولنے پر مجبور ہے۔ میں بھی مقروض ہوں۔ پوری قوم کی طرح میرے خاندان کا ہر فرد بھی مقروض ہے۔ میں قرضوں سے نجات چاہتا ہوں۔ پاکستانی قوم بھی قرضوں کا طوق اُتار پھینکنے کو پُرعزم ہے۔ جناب اسد عمر! میں ایک لاکھ بیس ہزار روپے فی کس کے حساب سے اپنا، اپنی والدہ، اہلیہ، بیٹوں، بیٹی ، بھائیوں اور بہنوں کے حصے کا قومی قرض اُتارنا چاہتا ہوں۔ میں ایک سیاسی و سماجی کارکن ہوں۔ میں نے درجنوں احباب سے اِس موضوع پر بات چیت کی ہے ، وہ سب بھی اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے حصے کا قومی قرض ادا کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ جناب اسد عمر ! تمام بینکوں میں ایک اکاؤنٹ کھولیئے تاکہ ماں دھرتی کا ہر بیٹا اور ہر بیٹی اپنے اور اپنے پیاروں کے حصے کا قومی قرض جمع کروا سکے لیکن ایک کام ضرور کیجئے کہ نہایت کڑے اور بے رحم احتساب کے ذریعے اِس اَمر کو یقینی بنائیے کہ آئندہ کوئی نام نہاد مسیحا اور رہبر قومی خزانے پر ڈاکہ ڈالنے کی جرأت نہ کر سکے۔

مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ