ہنزہ میں نوجوان سرکار کے سوتیلے سلوک سے مایوس ہوکر اپنی مدد آپ پی سی آر مشین خریدنے کے لئے چندہ اکٹھا کرنے لگے ہیں۔ 22 اپریل کو لئے گئے نمونوں کی رپورٹ 13 دن بعد بھی نہ ملنے سے عوام میں بالعموم اور نمونے لئے گئے دکانداروں میں تشویش کی لہر اضطراب میں بدل رہی ہے۔ زرائع کے مطابق گلگت میں روزانہ 200 سے زیادہ ٹیسٹنگ کی گنجائش ہے واضح رہے یہ یہ ٹیسٹ چار پانچ گھنٹے کا کیمائی عمل ہے۔ گلگت میں رہائش پزیر ایک غیر مقامی شخص جس کا نمونہ کل 3 مئی کو لیا گیا تھا اسکی رپورٹ آج آگئی ہے جس میں وائرس موجود پایا گیا ہے۔ ہنزہ کی رپورٹوں کا دو ہفتے بعد آج آنے کو محکمہ صحت کی نا اہلی یا لاپرواہی کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے ۔ ہنزہ کے مجبور عوام مشینیں تو خرید لیں گے لیکن مشینوں کو چلانے والا تربیت یافتہ عملہ کہاں سے آئے گا۔ بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چاہے سیوریج ہو یا آبپاشی کا بیگار۔ پی سی آر مشین ہو یا کوارنٹین سینٹر ہر کام ہنزہ والے خود کیوں کریں ۔ حکومت یہی تو چاہتی ہے۔ ہنزہ میں نہ سکریننگ ہے نہ ٹیسٹنگ نہ مناسب کوارنٹین سینٹر نہ آئیسولیشن سینٹر۔ پی ٹی ڈی سی ہوٹل میں قائم چھوٹا سا کوارنٹین سینٹر پہلے ہی بھر چکا ہے اس کی حالت قابل رحم ہے جبکہ آسیب زدہ سول ہسپتال کریم آباد میں آئسولیشن سینٹر نہیں بھوت بنگلہ نظر آتا ہے جہاں تازہ انسان دن کو بھی جانے سے کتراتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کورٹر ہسپتال کہلانے والا علی آباد ہسپتال بند ہوچکا ہے۔ ایک ساتھی ملازم کا ٹیسٹ پازیٹیو آنے کے بعد ہسپتال کا تمام عملہ اور چار میں سے تین میڈیکل آفیسر کوارنٹین میں ہیں۔جبکہ ہسپتال کے منظور شدہ پانچ پوسٹوں کے اسپیشلسٹ تو کبھی ہنزہ میں تعینات ہی نہیں ہوئے۔ یہ نہیں کہ ڈاکٹر نہیں ملتےاور یہ پوسٹیں خالی ہوں بلکہ ان پوسٹوں پر لگے اسپیشلسٹوں کو ڈیوٹی دوسرے علاقوں میں دی گئی ہے۔حتی کہ ہسپتال کا میڈیکل سپرنٹنڈنٹ بھی کبھی وہاں نہیں گیا ہے۔ ہنزہ میں بے بسی اور محرومی کا عالم یہ ہے کہ بے سر و سامان بوائز اسکاوٹس رضاکارانہ طور پر ہر محلے کی نکڑ پر کھڑے لاک ڈاون چلا رہے ہیں۔ سماجی ادارے کوارنٹین سینٹر بنا رہے ہیں۔ عوام اب پی سی آر مشینین خریدنے کےلئے چندہ اکٹھا کرنے لگے ہیں۔ مقامی انتظامیہ عوام کو یہ بتارہی ہے کہ اپنے لیے خود انتظامات کریں حکومت کے پاس وسائل نہیں ۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا ہنزہ کے عوام ان انتظامات کے حقدار نہیں جو دوسرے ضلعوں میں کئے گئے ہیں۔ ہنزہ کوئی اضافی مراعات نہیں صرف گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع کے مساوی سلوک اور برتاو کا مطالبہ کررہا ہے۔ معاملہ صرف کووڈ ۔19 کی وبا سے بچاو کی حد تک نہیں زندگی کے دوسرےشعبوں میں بھی ایسے ہی سوتیلے سلوک کا ایک تسلسل ہے۔ ہنزہ کو پہلے ہی اچھا خاصا دیوار سے لگایا گیا ہے۔ گلگت بلتستان کے دیگر حلقوں سے دگنے سائز کے باوجود ہنزہ کو 1994 سے آبادی اور رقبے کےحجم کے مطابق اسمبلی کی سیٹوں سے محروم رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے ہنزہ ترقیاتی فنڈ سے محروم ہے اور سماجی ترقی کا گراف الٹے سمت گامزن ہے۔ حد یہ ہوگئی ہے کہ ایک سوچے سمجھے ڈرامے کے تحت واحد سیٹ کے دھاندلی اور حکومتی سپورٹ سے لائے گئے اکلوتے نمائندے کو بھی باہمی محلاتی رقابت میں نااہل کرکے ضلعے کوحق نمائندگی سے یکسر محروم کردیا گیا ہے عوام کلورٹ اور نالیوں کی اسکیموں کے لئے بھی آفسر شاہی کے آگے محتاج ہیں۔ سماجی ترقی اتنی دی گئی ہے کہ عوام بیس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کا عزاب پچلے کئی عشروں سے جھیل رہے ہیں۔ عطا آباد جھیل پر 32 میگاواٹ کے منصوبے کو تبدیلی سرکار نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اس کے لئے کسی غیر ملکی ادارے سے خیرات مانگیں۔ ضلعی ہیڈکواٹر علی آباد کا آدھا علاقہ دو سال پہلےچینل ٹوٹ جانے کے بعد بنجر ہوچکا ہے۔ حکومت کو کوئی پروا نہیں۔ حق مانگنے اور احتجاج کے جمہوری حق کو استعمال کرنے کی سزا میں 14 فرزندان ہنزہ 80 سال کی سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ ایسی سزائیں تو نسل پرستوں نے جنوبی افریقہ میں بھی نہیں دی تھیں۔ ہنزہ کا تعلیم یافتہ باشعور نوجوان اس حالت زار کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔علاقے میں بظاہر نظر آنے والی خاموشی اور سیاسی جمود کسی سیلاب کا پیشخیمہ بھی ہوسکتا ہے۔
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ