ہنزہ نیوز اردو

کورونا وائرس کا دو طرفہ وار

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

کورونا وائرس نے دنیا بھر میں صحت کے ساتھ ساتھ معاشی مشکلات میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کی جی ڈی پی میں کی شرح نمو بھی منفی عدد کی طرف جا سکتی ہے اور یہ وائرس دنیا بھر کے معاشی نظام کو غیر معمولی حد تک متاثر کرسکتا ہے۔ اس مشکل معاشی صورت حال میں پاکستان جیسے ممالک کے لیے صحت عامہ کے ساتھ معاشی استحکام بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ ایشین ڈیولپمنٹ بنک کی جمعہ کو شائع ہونی والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی روح سال جی۔ڈی پی۔ کی شرح نمو %3.3 سے گر کر %2.6 تک ہو سکتی ہے جبکہ افراط زر جو کے سال 2019 میں %6.8 تھا اس سال 2020 میں %11.5 تک جا سکتا ہے
حکومت اس مشکل معاشی صورت سے مقابلہ کرنے کے لیے مختلف معاشی پیکیجز کا علان کر رہی ہے۔ اسٹیٹ بنک کی طرف سے شرح سود میں کمی (%11.00) کر دی گی ہے۔ گھر، گاڑی اور کریڈٹ کارڈز کے قرضوں کی وصولی پہ صارفین کو وقت کی رعایت دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے تعمیراتی صنعت کو ٹیکس کی رعایت اور روزگار کو بچانے کے لیے کاروباری صنعتوں کو آسان شرائط اور کم سود پہ قرضے دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔۔
کاروبار زندگی بند ہونے سے مزدور طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔یوں کہیں تو بہتر ہوگا کہ آج لاکھوں مزدوروں پہ کورونا وائرس حملہ کر چکا ہے۔۔ حکومت کی اس حوالے سے راشن تقسیم کی سکیم کس حد تک ان سب تک پہنچ پائیے گی یہ بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔۔
میں دو چار اہم باتیں گلگت بلتستان کے تناظر میں بھی کرنا ضروری سمجھتا ہوں میں نے اپنے پچھلے تحریر میں اس بات کا ذکر کر چکا ہوں کہ گلگت بلتستان کی با ہمت قوم اس وباء کا مقابلہ کر سکتی ہے اور ہم یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔۔۔
آج گلگت بلتستان کے تمام ادراے مل کے اس وباء کا مقابلہ کر ہے ہیں۔۔ ہماری دھرتی کے نہائت قابل اور پر عزم ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل مجاہدوں نے اس عالمی وباء کا مقابلہ کرنے اپنی کمر کس لی ہے اور دن رات عوام کی خدمات میں مصروف ہیں، آج سماجی، سیاسی مذہبی اور فلاحی ادارے حکومت کی قوت بن چکے ہیں۔ اور انتظامیہ دن رات عوامی خدمات میں مصروف ہے۔۔۔۔
ان سب کی یہ قربانیاں نا قابل فراموش ہیں مگر ہم علاقے کے چھوٹے کاروباری اور دوکان دار طبقہ کی قربانی اور ان کے مسائل فراموش کر دے تو یہ انصاف نہ ہوگا۔۔۔ حکومت نے بھی ان کو فراموش کر دیا ہے ان کے لیے کسی ریلیف پیکج کا اعلان نہ ہو سکا۔ ان کا کاروبار بند ہے۔۔ ان لوگوں نے بھی مختلف بنکوں سے قرضے لئے ہیں۔۔ چھوٹے اور درمیانی کاروبار کا ملک کی جی ڈی پی میں بڑا حصہ ہوتا ہے۔ پاکستان کی جی ڈی پی میں % 40 حصہ ایس ایم ای کا ہے جبکہ %80 ملازمت کے مواقع بھی اس سے منسلک ہیں۔ اور ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی بہت سارے افراد کا روزگار ان چھوٹے کاروبار سے منسلک ہے۔۔
مرکزی حکومت اور اسٹیٹ بنک کی طرف سے ابھی تک
اس ایم ای
سیکٹر کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ معاشی لحاظ سے بہت بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ سیاحت کا شعبہ بھی اس وقت سخت متاثر ہوا ہے اور آگے کیا ہوگا ابھئ کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔

مزید دریافت کریں۔