ہنزہ نیوز اردو

کوئی مانے نہ مانے

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

تحریر: سیما کرن
کوئی مانے نہ مانے میر غضنفر علی خان کی خدمات نہ صرف ہنزہ کے لئے بلکہ پورے گلگت بلتستان کے لئے قابل ستائش ہے ۔ کسی بھی معاشرے میں آسمان سے فرشتے حکومت کرنے نہیں اترتے۔ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ انسان خوبیوں اور خامیوں کا امتزاج رکھتا ہے۔ میر غضنفر صاحب ایک دور اندیش سیاستدان ہیں۔ انہوں نے ہر اچھے اور برے وقت میں ہنزہ کے عوام کے ساتھ کبھی نہیں چھوڑا ہے۔ میر صاحب نے جب کبھی الیکشن جیتا ہو یا ہارا ہو برابر کا عوام کا حق ترجمانی ادا کیا ہے۔ اس آرٹیکل میں میر صاحب کے خامیوں کی دفاع کرنا مقصد نہیں ہے۔ میرا مقصد اور میرا ایمان یہی ہے کہ چونکہ معاشرے میں اور انسان کی فطرت میں خوبی اور خامی بھی ہونے کے ناطے عدل و انصاف کا پیمانہ بھی مظبوط ہونا چاہئے۔ عدل و انصاف کے اندر حتی الامکان خامی نہیں ہونا چاہئے۔ میر صاحب اگر کسی طرح سے کرپشن میں ملوث پائے جاتے ہیں تو انکا کڑا احتساب ہونا چاہئے تاکہ لیڈر پاک دامن ہوں۔ اگر اگر سیاسی لحاظ سے میر صاحب کی ساکھ خراب کرنے کی سازش کی بھی گئی ہو تو نیب کے شفاف نظام عدل کے تحت سرخرو ہوکر نکلیں گےتو عوام کے سامنے اور اپنے مخالفین کے سامنے آبرو مند ہونگے۔ اسی طرح اگلے الیکشن میں ان کا ووٹ بنک بہت زیادہ ہوگا۔ میر صاحب اور انکے خاندان کا احتساب قومی مفاد میں ضروری ہے۔ اگر میر صاحب قومی دولت میں خرد برد کے مرتکب پائے جاتے ہیں تو انکو بلا امتیاز قانونی دائرے میں دولت واپس لی جائے اور عام شہری کی طرح میر صاحب کو سزا ملنی چاہئے۔ کیونکہ عوامی مفاد کے اوپر کوئی بڑا نہیں ہے۔ اور میں نہیں چاہتی ہنزہ کے عوام کا ترجمان کرپٹ ہو۔ میں ان لوگوں سے ہوچھنا چاہتی جو حقیقت کا چشمہ اتار کر مفادات کے خاطر بے ضمیری کا مظاہرہ کر کے بلاوجہ میر صاحب کے مبینہ کرپشن کی دفاع کرتے ہیں۔ میر صاحب میرا بھی لیڈر ہے میرا بھی اتنا ہی حق ہے کہ اپنے لیڈر کے بارے میں اپنی رائے رکھ لوں ۔ میں اپنے لیڈر کو صاف و شفاف دیکھنا چاہتی۔ میں چاہتی میر صاحب کو بلا خوف و خطر احتساب کے عمل سے گزرنا چایئے۔ جو لوگ اور جو لیڈر احتساب سے گھبراتے ہیں ان کے بارے میں بڑا تعجب ہوتا ہے کہ ایسا کیوں چاہتے ہیں۔ میں ایسے معاشرے میں بہت عجیب محسوس کرتی ہوں جو لوگ مشکوک ہیں اور عدل و انصاف کے نظام کو للکارتے ہیں۔ اور خود کو احتساب کے پیش کرنے سے گریزاں ہیں۔ معاشرے کے ایسے تمام لوگوں سے امیر و غریب و دیگر امتیاز سے بالا تر ہوکر کڑا احتساب کیا جائے۔ اگر احتساب کے عمل میں خامیاں ہیں تو بھی درست کیا جائے عوامی طاقت کے ذریعے۔ عدل و انصاف اگر ہو تو ہم ایک حقیقی اسلامی معاشرہ کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔ ہم خود ہی اپنے نظام پر تنقید تو کرتے ہیں۔ مگر انفرادی و اجتماعی طور پر سدھارنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ خرابی جڑ سے شروع ہوتی ہے اور علاج کرنا بھی اگر ہو تو جڑوں سے شروع کی جائے۔ نظام تعلیم اور نظام عدل میں وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی اور اصطلاحات لانا بہت ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں مغربی ز ندگی کو عین اسلامی گردانتے ہیں مگر احتساب خود سے شروع کر کے معاشرے میں بہتری کی سوچ پیدا نہیں کر سکتے ۔ اگر تاریخ پہ نظر ڈالی جائے تو پاکستان کے قیام کے بعد فوجی حکمرانی کا طویل دور ہے جس میں اگر ترقیاتی رفتار کا جائزہ لیں تو جمہوری قوتوں کی نسبت فوجی حکومت میں واضح ترقی ہوئی ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آزادی سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ پاکستان کے بعد آزاد ہونے والا ملک چین آج سپر پاور کو دوڑ میں ہے۔ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیا کھیل تماشہ ہو رہا ہے ملک کو بھکاری بنا دیا گیا ہے نسلوں تک قوم کو مقروض بنایا گیا ہے۔ دھیرے دھیرے سے غیر طاقتیں قومی معاشی پالیسیوں پر بلواسطہ یا بلا واسطہ قابض ہوتی نظر آتی ہیں۔ بات وہی سے شروع ہوئی ہے ہنزہ کے معاشرے میں نظام عدل اور تیسری دنیا کے جدید تقاضے سے لیکر اس بیماری کی جڑوں تک جاکر علاج کے لئے نئی سوچ کا فقدان۔ میر غضنفر علی خان صاحب کی تعمیری سوچ کی اگر عکاسی نہ ہو تو نا انصافی ہوگی۔ میرے نظر میں جس قدر ہو سکتا ہے میر صاحب نے ہنزہ کی خدمت میں کسر نہیں رکھا ہے۔ اگر اس نے کچھ نہیں کیا ہے تو سیاسی میدان میں اپنی وجود قائم رکھا ہے۔ ان کے بعد اگر کوئی شخصیت ہے تو بابا جان ہیں جو عوام کے ہر مشکل وقت میں ساتھ رہے ہیں۔ بابا جان صاحب کے بارے میں اگر حکومتی حلقوں میں سٹیٹ کے خلاف مستند اور ٹھوس شواہد موجود ہیں تو انکا دفاع نہیں کرنا چاہتی کیونکہ میں اپنے ملک اور ملکی اداروں پر بھروسہ کرتی ہوں۔ بابا جان کے کردہ اور ناکردہ گناہوں سے قطہ نظر انکی شخصیت کی صرف ایک پہلو کو ذاتی طور پر قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہوں کہ وہ عوام کے ساتھ ریے ہیں۔ ایسے لیڈر صرف چند ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بابا جان کی کمزور پشت کی وجہ سے سیاسی عمل سے بیدخل کیا گیا ہو لیکن عوام کی ایک بھاری اکثریت بابا جان کے ساتھ ہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ میر غضنفر علی خان صاحب اور بابا جان صاحب کے علاوہ موسمی پرندے آجاتے اور غائب ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ اب جبکہ الیکشن کا وقت آرہا ہے دیکھنا یہ یے کہ موسمی پرندے کونسا روپ میں قوم سے ووٹ لینے آجائینگے۔ اس کے اوپر پھر کبھی بحث ہوگی۔ میں نے اپنی حقیر سی کوشش میں ہنزہ کے حقیقی نمائندے ان کے کرتوت اور انکے خامیوں پر سیر بحث جائزہ کے علاوہ انکے مثبت پہلوں کے ساتھ بھی انصاف کرنے کی کوشش کی یے۔ میں نے دونوں پہلو غیر جانب دارانہ طور پر اجاگر کرنا تھا اور اپنی رائے آپ کے سامنے رکھا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی مملکت خدا داد پاکستان کو دن دگنی رات چگنی ترقی دے سلامت تا قیامت رکھے۔ عوام گلگت بلتستان ( ہنزہ) زندہ باد پاکستان پائندہ با

مزید دریافت کریں۔