ہنزہ نیوز اردو

کرونا وائرس

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

 
کرونا وائرس کی وجہ سے پورے دنیا میں کہرام مچ گیا ہے- چار سو بے چینی کی فضا پیدا ہوگئی ہے- ہر مخلوق پر ہڑ بڑی، بے سکونی کی حالت طاری ہوگئی ہے- ایک مخلوق کو دوسرے مخلوق کی خبر نہیں ہے- ہر انسان اپنے لئے فکرمند ہے- بقول انسان کے ہی جن جگہوں کے وہ زینت تھے اب وہ مقامات ویران ہیں- چاروں اطراف سے شوروغل ، گریہ و زاری کی صدائیں بلند ہوتی نظر آرہی ہیں- یقیناً عذابِ الٰہی سے انسان ہل کر رہ گیا ہے- کوئی شک نہیں کہ وہ دن بھی آئے گا جس کا خدا نے وعدہ کر رکھا ہے- لیکن اِس وقت اگر اِس خطرناک وائرس یعنی کرونا وائرس پر نظرثانی کریں تو علم ہوتا ہے کہ کرونا وائرس ایک ایسا وائرس ہے جس کی نصف درجن سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں- جب اسے خردبین سے دیکھا گیا تو نیم گول واٸرس کے کناروں پر ایسے ابھار نظر آئے جو عموماً تاج یعنی کراٶن جیسی شکل بناتے ہیں- اسی بنا پر انہیں کرونا وائرس کا نام دیا گیا ہے کیونکہ لاطینی زبان میں تاج کو کرونا کہا جاتا ہے ۔1960 میں کرونا وائرس کا نام دنیا نے سنا اور اب تک اس کی کٸی تبدیل شدہ اقسام تقریباً 13 سامنے آچکی ہیں- جن میں سے سات انسانوں میں منتقل ہوکر انہیں متاثر کرسکتی ہیں اور کر بھی رہی ہیں اس سال چین کے شہر ووہان میں دریافت ہونے والی وائرس کی نئی قسم کو کووڈ 2019 اور کرونا وائرس کا نام دیا گیا ہے- عالمی ادارہ صحت نے تاحال اسے عالمی وبائی مرض تو قرار نہیں دیا لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جس تیزی سے یہ وائرس دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیل چکا ہے خدشہ یہی ہے کہ ڈبلیو ایچ او اسے وبائی مرض قرار دے سکتا ہے -اس وائرس نے اب تک تقریباً 197 ممالک کو اپنے شکنجے میں دبایا ہوا ہے- چین میں اس وائرس سے متاثر پہلا شخص اسی سال سامنے آیا تھا اب چین  کے اس وائرس کو شکست دینے کے بعد بہت سے ممالک اس وائرس کا شکار ہو گئے ہیں- ماہرین کے مطابق جن افراد کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے انہیں یہ وائرس زیادہ متاثر کرسکتا ہے البتہ یہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور اس وائرس سے اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہونے کے خدشات ہیں- صحت مند افراد جب کرونا وائرس کے مریض سے ہاتھ ملاتے ہیں یا گلے ملتے ہیں تو یہ وائرس ہاتھ اور سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے- طبی ماہرین کے مطابق اس وائرس کے مختلف علامات ہیں جن سے تقریباً ہم سب ہی واقف ہیں کروناواٸرس کی علامات عام فلو کی طرح ہی ہیں- ماہرینِ صحت کے مطابق بخار ،کھانسی، زکام، سر درد، سانس لینے میں دشواری کرونا وائرس کی ابتدائی علامات ہوسکتی ہیں- لیکن ضروری نہیں کہ ایسی تمام علامات رکھنے والا مریض کرونا وائرس کا ہی شکار ہو- البتہ متاثرہ ممالک سے آنے والے مسافروں یا مشتبہ مریضوں سے میل جول رکھنے والے افراد میں اس واٸرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے -ماہرینِ صحت کے مطابق انفیکشن سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک 14 روز لگ سکتے ہیں -لہذا ایسے مریضوں میں وائرس کی تصدیق کے لیے انہیں الگ تھلگ رکھا جاتا ہے -اسی لئے اس وائرس میں مبتلا مریضوں کا علاج کرنے والے طبی عملے کو بھی انتہائی سخت حفاظتی اقدامات کرنا پڑتے ہیں-اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کرونا وائرس قابل علاج ہے ؟جسے یوں تحریر کروں تو غلط نہ ہوگا کہ ُُخدا کے خانہ قدرت میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہےٗٗ کرونا وائرس کے لیے عالمی سطح پر ویکسین کی تیاری پر کام جاری ہے- کیونکہ یہ نیا واٸرس ہے لہذا فی الحال اس کا علاج روایتی طریقوں سے کیاجارہاہے- ادویات کے ذریعے مریض کے مدافعتی نظام کو فعال رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ مدافعتی نظام ہی وائرس کا مقابلہ کرے اور مریض صحت یاب ہو جائے- البتہ ماہرینِ صحت توقع ظاہر کر رہے ہیں کہ اسی سال کے اختتام سے پہلے اس واٸرس کی اس نٸی قسم کے سد باب کیلیے ویکسين دریافت ہو جا ۓگی تا ہم اس سے قبل اس خطرے سے نمٹنے کے لئے طبی ماہرین روایتی طریقہ علاج کو ہی فوقیت دے رہے ہیں- لیکن طبی ماہرین نے اس وائرس سے متعلق حفاظتی  تدابیر سے آگاہی بھی فراہم کیے ہیں جن میں باقاعدگی سے ہاتھ دھونا، ماسک کا استعمال، کھانسی اور چھینک کے وقت ٹشو پیپر یا رومال کا استعمال یا عدم دستیابی کی صورت میں کہنی سے ناک کو ڈھانپ لینا اس وائرس سے انسان کو محفوظ بناتا ہے- ماہرینِ طب کے مطابق گوشت اور انڈوں کو اچھی طرح پکانا بھی حفاظتی تدابیر میں شامل ہے- نزلہ اور زکام کی صورت میں ہجوم مقامات پر جانے سے اجتناب اور ڈاکٹرسے تفصیلی طبی معائنہ  کروانا بھی اس مرض سے بچاؤ کے لیے فائدہ مند ہے- اب وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم سب اس واٸرس کے خلاف جنگ لڑیں جتنا ہوسکے احتیاطی تدابیر ر پر عمل پیرا ہوں – ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق قدم بڑھائیں چونکہ اس وقت بچہ بچہ اس خطرناک وائرس سے واقف ہے پھر بھی اگر ہم احتیاط نہ کریں تو یقیناً ہم خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے والوں میں سے ہونگے- بے شک زندگی اور موت رب العزت خداوندِ متعال کے ہاتھ میں ہی ہے لیکن سچ تو یہ بھی ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے- یہاں پر ذمہ داریوں کی بات کریں تو حکومتی سطح پر بھی اقدامات ہونے ضروری ہیں -کیونکہ ہر قوم کی حالت کے ذمہ دار وہاں کی حکومت ہی ہوتی ہے- حکومتی سطح پر ایسے خطرناک وائرس کو شکست دینے کی صلاحیت ہونی چاہیے اگر یہ ممکن نہیں ہے تو ایسے وائرس کو قابو میں رکھنے کی قابلیت موجود ہو جس سے عوام کی جانوں پر بات نہ آئے -حکومت کو ہر ممکن کوشش کرنا ہوگا کہ جس سے عوام کی جانیں محفوظ رہیں اس کے لیے اگر وقتی طور پر سختی دکھانا یا اٹھانا پڑے تو بھی کوئی غم نہ ہوگا کیونکہ کچھ دیر کی سختی ہمیشہ کے لئے سکون کا باعث بنتی ہے- اگر حکومت اس وقت بھی اپنی سیاست چمکانے اور اپنے کارنامے گنوانے میں مگن رہے تو قوم کے لئے اس سے بڑی بدبختی اور کچھ نہ ہوگی- یہاں عوام کو بھی اپنی جگہ اپنے عقل کو استعمال میں لاتے ہوئے خیر عمل بجا لانے کی ضرورت ہے نہ کہ یہ سمجھ کر کہ یہی وقت ہے جب سب مصیبت حال میں ہیں تو اپنے لالچ کی ہوس کو پورا کریں- جس کی مثال اس وقت صرف ایک ماسک  سے دوں تو بجا ہے- جو ماسک پندرہ روپے میں فروخت ہوتا رہا اب جب سب کو اس کی طلب ہے تو اس کی قیمت دگنا کر کے فروخت کر کے اپنی ہوس کو پورا کیا جا رہا ہے- کم از کم یہ تو سوچیں کہ کیا پتا اب وقت آخر  آنے کو ہے- تاریخ میں جس طرح پوری دنیا کی صفائی ہورہی ہے شاید کسی بڑے مہمان کی آمد آنے کو ہے- وہ وعدہ جس کا خدا نے قرآن میں  ذکر کیا ہے وہ پورا ہونے کو ہے- اب غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کا وقت آگیا ہے- اپنے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے کا وقت آگیا ہے- اس لئے جتنا ہوسکے عبادات میں اپنا وقت صَرف کریں، خدا سے لو لگائیں اور اسی سے مدد طلب کریں- بے شک وہ بہترین مدد کرنے والا ہے- جتنا ہوسکے ایک دوسرے سے حسنِ اخلاق سے پیش آئیں اوراس خطرے سے لڑنے کی ہمت اور طاقت کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں اور مضبوط قوم ہونے کا ثبوت دیں۔
 
 
 

مزید دریافت کریں۔