ہنزہ نیوز اردو

کرونا وائرس

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

چین کے شہر ووہان میں پیدا ہونے والے کرونا وائرس پوری دنیا میں پھیل چکا ہے، کرونا نے نہ صرف چین، ایران، اٹلی بلکہ پوری دنیا میں اس کی مریضوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں ہے اور شروع شروع میں سست روی سے پھیلنے والے وائرس نے اب ایک بڑی آبادی کو متاثر کیا ہے۔ماضی میں کسی بھی موذی و بائی مرض کا اس طرح پھیلنا کوئی نئی بات نہیں البتہ اس دفعہ صرف یہ ہے کہ ایک مخصوص علاقے یا جغرافیے تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے ایسا لگتا ہے کہ پوری دنیا ایک محلہ ہے اور اوپر سے کوئی لاوا یا سیلاب بہہ رہا ہو۔ تو لیجئے دنیا کو گلوبل ویلیج بنانے کا مز!!سائنس بالخصوص میڈیکل سائنس کی ترقیافتہ دنیا سے کرونا چلا چلا کر کہہ رہا ہے اب کرو نا!
محبت و نفرت، خوشی و غم، موت و حیات، تندرستی و بیماری جو سب انسانوں میں قدرے مشترک ہے فطرت و قدرت ہے جبکہ رسم و رواج، قانون و دستور اخلاقیات، عبادات و ریاضات جو الگ الگ ہیں کلچر اور مذہب ہے کرونا بھی بلا تفریق رنگ و نسل علاقہ کسی بھی انسان کو لگ سکتا ہے اور ہم اس میں بھی تفریق کا شکار ہیں اور بعض اوقات سیاسی، سماجی و مذہبی اجتماعات اور انہی سرگرمیوں پر پابندیوں پر چونکتے ہیں اور حیران و پریشان ہیں پھر بھی مذہب و قدرت میں فرق معلوم نہیں تو دیکھ لینا امیر خان کی فلم پی کے کے ایک دفعہ اور۔
دنیا میں بقا و فنا کا ایک حتمی اور اٹل قانون ے جو ازل سے جاری و ساری ہے یہ الگ بات ہے کہ موت انفرادی آتی ہے یا اجتماعی ہمیں عجیب لگ سکتی ہے فطرت کو نہیں اس دنیا میں اگر ایک انسان بھی نہ موجود نہ ہو تو بھی اربوں کھربوں بھری کہکشاؤں والی کائنات کی صحت پر کیا اثر پڑے گا۔
ان ڈاکٹروں، نرسوں، میڈیکل اسٹاف اور سیکورٹی ادارے اور ایسے تمام لوگ جو اس بیماری کی روک تھام میں اپنی جان جوکھوں پر رکھ کر خدمت انجام دے رہے ہیں ان کا کام لائق تحسین ہے لیکن ایک خبر یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ رسک سے کام لے رہے ہیں جو ان ڈاکٹروں کی ہلاکت کا باعث بن رہا ہے،اورسڑک پر چلتے ہوئے رسک لینا شاید صحیح ہو البتہ کسی کرونا کے مریض کا علاج کرتے ہوئے بے احتیاطی سے کام کرنے والے ڈاکٹروں کے بائیو ٹیچر کو انعام جبکہ سوشل سٹڈی والے کو پہلے انعام دے کر پھر ملازمت سے فارغ کرنا چاہئے۔
کرونا نے انسانیت کی ایک بڑی آبادی کو متاثر جبکہ باقی پوری انسانیت کو بیماریوں میں مبتلا کیا۔
میری بیوی گھر کے دروازے کھڑکیاں اسی واسطے بند کر رہی ہے کہ کہیں کوئی کرونا اندر داخل نہ ہونے پائے، کرونا موت کا پروانہ ضرور ہے لیکن یہ پتنگ کی طرح اڑ کر نہیں بلکہ ایک متاثرہ شخص یا چیز سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے اگر یوں ہوا کے ذریعے گھر گھر پہنچ جائے تو نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
ایک صاحب نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا کہ عامل اور پیر کرونا سے ڈر کر بھاگ گئے اور فوج ڈٹ گئی، عامل اور پیروں نے پہلے والی بیماریوں کا کونسا علاج دریافت کیا تھا جو اب بھاگ گئے؟
ایک نوجوان قرنطینہ کو کترینہ سمجھ کر خواہش کر رہا تھا کہ اسے بھی وہاں بٹھایا جائے سمجھانے پر ہوش ٹھکانے آگئے۔
کرونا کپڑے میں چھ گھنٹے، سٹیل میں نو گھنٹے اور انسانی جسم میں 15دن بطور مہمان رہنے کے بعد موسم اگر خوشگوار لگے تو مستقل میزبانی کا شرف حاصل کرتا ہے۔
یہ مضمون چونکہ کرونا کے پھیلنے کے ابتدائی دنوں میں لکھا گیا اور اب دنیا میں نئے تجزیے، اندازے اور چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں اور مین میڈ ایک سازش بتایا جا رہا ہے جو بڑے بڑے ممالک اپنے سیاسی و کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ریڈی کے سائنسی قانون کے مطابق ایک زندہ چیز سے پیدا ہوتی ہے کرونا کا پیدا کرنا ناممکن ہے جبکہ جانوروں یا چیز سے دوسرے میں ڈالا جا سکتا ہے۔سائبر جنگ، کلوننگ اور جنیٹک انجینئرنگ کے پیش رفت سے قدرت میں مداخلت کا باعث بنا ہے نظر انداز نہیں کیا جا سکتاخیر جس کا کام اسی کو ساجھے۔۔ یہ دنیا ایک شکارگاہ کی طرح ہے یا شکار کرو یا سو جاؤاب تک کرونا گھات لگا کر شکار پر بیٹھا ہے جب تک اس کو مارنے کی کوئی کارتوس ایجاد نہیں ہوتی ہمیں بچاؤ اور احتیاط پر اکتفا کرنا پڑے گا میرے خیال میں اس کی کارتوس بھی وہی ایجاد کریں گے جس نے نزلہ، زکام سے ملیریا ٹائیفائیڈ اور کینسر تک کی کارتوس ایجاد کی تب تک کرونا کیا گل کھلاتا ہے نہیں معلوم

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ