ہنزہ نیوز اردو

چائلڈ لیبرنگ

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

 جون ,12 2020 کو دنیا بھر میں آج کے دن چائلڈ لیبرنگ کے خلاف عالمی دن کے طور منایا جارہا ہے اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ ، کمسن بچوں جن کی عمریں 18 سے کم ہیں ان کو جسمانی سخت محنت ومشقت سے نجات دلانا ہے ، ویسے تو چائلڈ لیبر کو جسمانی سخت محنت ومشقت کے ساتھ ذہنی طور پر بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نہ صرف چائلڈ لیبر کا مسلہ پاکستان میں ہے بلکہ پاکستان کے علاؤہ دیگر ممالک بھی چائلڈ لیبرنگ کی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے جن میں ہمارا پڑوسی ملک بھارت ، بنگلہ دیش ، سری لنکا اور بھی بہت سے نام شامل ہیں دنیا بھر میں تقریباً 2016 کے نجی سروئے کے مطابق (168 ملین ) بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں اور پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ ہے آج سے دو سال قبل ایک نجی سروے کے مطابق یہ تعداد معلوم ہوئی۔ یہ بچے سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بدلے یہ کمسن بچے ، سخت محنت ومشقت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ، جن کی تعلیم حاصل کرنے کی عمر ہوتی ہے وہ بچہ ورکشاپ پر کام کررہا ہوتا ہے یا کسی ہوٹل پر برتن دھو رہا ہوتا ہے ،اگر گلگت کی بات کی جائے تو گلگت شہر کی سڑکوں پر یہ بچے غبارے بیجھتے ملیں گے یا سڑک کنارے ممتو فروخت یا مچھلی فروخت کرتے اکثر ملیں گے یا وہ بچی جس کی عمر تعلیم حاصل کرنے کی اور اپنے والدین کی محبت کی طلب گار ہوتی ہے افسوس وہ کسی امیر شخص کے گھر میں ملازمہ ہوتی ہے جو ان کے گھر میں صفائی اور بچوں کو سنبھالنے کا کام کرتی ہے ۔ میرے مطابق اگر دیکھا جائے چائلڈ لیبر تین قسم کے ہوتے ہیں مطب تین گروپ میں ہم تقسیم بھی کہہ سکتے ہیں ، پہلے وہ بچے چائلڈ لیبرنگ کو اختیار کرتے ہیں جن کے گھر میں کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہو ، جیسا کہ کسی کا باپ اس دنیا میں موجود نہیں ہوتا ہے اور ماں بیمار ہوتی ہے اور بھائی بہن چھوٹے ہوں ، ذریعے معاش کا کوئی دوسرا راستہ نہ ہو ، ظاہر ہے ان حالات میں گھر میں بڑے بیٹے کو کچھ کرنا پڑتا ہے کچھ کمانا پڑتا ہے تاکہ کم سے کم گھر کا چولہا اور ماں کی دوائی تو لے سکے ، چاہے گھر میں بڑے بچے کی عمر 15 ہی کیوں نہ ہو وہ مجبوری کی حالت میں کام کی تلاش میں شہر کی ان گلیوں میں دیوانا ور گھومتا ہے اور کہی جاکر کسی ہوٹل ، ورکشاپ میں اس بچے کو اپنے پاس رکھتا ہے اور یوں مشکل سے وہ کمسن بچہ ناچاہتے ہوئے بھی تعلیم کو جاری نہیں رک سکتا ہے اور یوں چائلڈ لیبر بن جاتا ہے ، نہ کوئی حکومت ایسے بچوں کی مدد کرتی ہے نہ تو متعلقہ ادارہ اور نہ عام عوام ۔ اب دوسرے نمبر وہ بچے جن کے والدین تو اس دنیا میں موجود ہوتے ہیں لیکن گھر کے حالت کا رونا رو کر وہ اپنے بچوں کو سکول میں داخلہ نہیں کرواتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ مزدوری پر لے کر جاتے ہیں جب کوئی ان کے والدین سے بچوں کو سکول میں داخلہ کا کہتے ہیں وہ اپنی مجبوریوں کے نہ ختم ہونے والی کہانیاں سناتے ہیں ، ہاں ان کی بات اگر دیکھا جائے تو درست ہے تعلیم حاصل کرنا آج کے دور میں بہت مشکل ہے غریب کا بچہ اس مہنگائی کے دور میں تعلیم کیسے حاصل کرئے ؟ نجی تعلیمی اداروں میں فیس غریب کے لیے ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ، اور اکثر والدین اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں بیجھتے ہیں ، اور کوئی خاص توجہ نہیں دیتے وہ نہیں دیکھتے کہ بچہ سکول بھی جاتا ہے یا نہیں وقت پر گھر آتا ہے یا بریک میں سکول سے بھاک کر آتا ہے ، گھر میں پڑہتا ہے بھی یا نہیں ، والدین کی عدم توجہ سے ان کا بچہ دن با دن تعلیم سے دور جانے لگتا ہے اور ایک دن ایسا آتا ہے وہ بچہ سکول جانا پسند نہیں کرتا اور تعلیم کو خیر باد کہتا ہے پھر وہ بچہ اپنے والد کے ساتھ کام پر جاتا ہے اور وہ بچہ کام کر جانے سے انکار بھی نہیں کرتا ۔تیسری قسم کی چائیلڈ لیبرنگ بھی دوسری قسم کی طرح ہی ہے ، والدین اور اساتذہ کی عدم توجہ اور سکول میں جسمانی تشدد سے تنگ آکر بچہ سکول کو خیر آباد کہتا ہے اور تعلیم حاصل کرنا پسند نہیں کرتا ، یہ میں کوئی اپنے سے نہیں کہہ رہی ہوں بلکہ وہ کہہ رہی ہوں جو آج کل ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے جو نظر آرہا ہے جس سے ہمیں انکار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس مثالوں کو حل کرنا ہے اور چائیلڈ لیبرنگ کے خاتمے کے لیے حکومت سے لے عام عوام تک سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہے ، ویسے تو آئین پاکستان کے آرٹیکل ( نمبر 25 A ) میں یہ تحریر ہے کہ پاکستان میں 5 سال سے لے کر 16 سال کے بچوں کی تعلیم کی زمہ داری حکومت پاکستان پر عائد ہوتی ہے ، وہ ہر 5 سے لے کر 16 سال کے بچوں کی تعلیم کو یقینی بنائیں کہ وہ چائلڈ لیبر کو طالب علم میں تبدیل کرئے ، جس سے اس بچے کا مستقبل سنوار جاتا ہے ، آج سے کچھ وقت قبل ملک کے نامی گرامی نیوز چینل جیو نیوز پر یہ اکثر دیکھنے اور سننے کو ملتا تھا کہ ، ا ، ب ، پ پر یقین کرنا ہے ، بے شک جب تک ہم ا ب پ پر یقین نہیں رکھتے ہیں تعلیم کو امیر اور غریب دونوں کے لیے برابر اور عام نہیں کرتے ہیں تو ہمارا ملک کبھی ترقی نہیں کرئے گا اور اگر جب ہم نے بچوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی تو ہمیں کوئی ترقی سے نہیں روک سکتا بے شک تعلیم پر کی جانے والی سرمایہ کاری کبھی نقصان نہیں دیتی ہے ایک تعلیم یافتہ فرد ایک ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے ، اور جب تک ہماری بنیاد مظبوط نہیں ہوگئی پھر ہر وقت خطرہ ہمارے سروں پر منڈلتا رہے گا جو کہ کسی بھی ملک کے لیے تشویش سے کم نہیں ۔

Image may contain: one or more people

مزید دریافت کریں۔