قلم بھی اب ہاتھ سے نکلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے آج سےپانچ سال پہلے ایک مضمون پڑھا تھا جس کو پڑھنے کے بعد میں اپنے آپ سے سوال کرنے لگا تھا کہ کیا ایسا ایک زمانہ آئے گا جس میں نہ کتابیں ہونگی نہ قلم نہ بلیک بورڈ اور نہ ہی کوئی سکول۔آپ اب بھی میری اس بات کو شائد احمقانہ ہی جانے گے اور ممکن ہے کہ اس کو ایک بہکی ہوئی بات بھی ۔ میرا بھی مضمون پڑھنے کے بعد ایسا ہی خیال مضمون نگار کے بارے ابھرا تھا لیکن آج جب میں اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو مجھے مضمون نگار کی دوسری باتوں کا بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورا ہونے کا مکمل یقین آنے لگا ہے ۔چلیں آپ سے ہی پوچھتا ہوں آج سے پہلے قلم کا جو استعمال ہو رہا تھا کیا آج بھی اتنا ہی ہو رہا ہے یا نہیں۔اس کا جواب جاننے کے لئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں اپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیں دفتروں میں لگے ہوئے کمپیوٹرز اور ہاتھوں میں سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ کیا دکھائی دے رہا ہے آپ کو۔قلم یا اور کوئی کچھ۔ اس وقت سڑکوں میں رواں دواں گا ڑیوں میں ٹیوب لیس ٹائر لگے ہوئے ہیں ۔ٹیوب لیس یعنی ٹیوب کے بغیر، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب ہر چیز لیس یعنی کم ہوتی جا رہی یا اس مین جدیدیت آرہی ہے۔قلم کا استعمال اب صرف چھوٹے لیول کے ادارے جہاں کمپیوٹر کی سہولت موجود نہیں یا نچلے کلاسوں کے طلبا یا چھوٹے دکاندار اپنے کھاتہ بہی کے لئے استعمال کرتے ہوئے دکھائی دینگے۔ لگتا ایسا ہی ہے کہ آنے والے وقتوں میں تعلیم کے شعبے میں بھی لیس یعنی بغیر کا لاحقہ کچھ زیادہ ہی استعمال ہوگا جیسے بُک لیس، بلیک بورڈ لیس، سکول لیس، ٹیچر لیس یعنی نہ کتاب ، نہ سکول، اور نہ ہی بلیک بورڈ اور نہ ہی اساتذہ ہونگے۔۔جب یہ سارے نہیں ہونگے تو پھر کیا ہوگا؟اور یقین جانئے کہ اس خاکے کو لکھنے کے لئے میں نے قلم کا سہارا نہیں لیا ہے بس یوں سمجھیں پن لیس۔۔۔
مضامین
جب ناچ اور گانا سرکاری سطح پر ترجیح بن جائے
دنیا کی تاریخ میں قوموں کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہمیشہ ان کی فکری،معاشی، علمی، سائنسی، معاشرتی اور اخلاقی بنیادوں پر رہا ہے۔ وہ