ہنزہ نیوز اردو

پروٹوکول نفسیاتی بیماری یا سیاسی ضرورت؟

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

خود کشیوں کی دھرتی اور سرزمین بے آئین گلگت بلتستان میں صدر پاکستان اپنے لاؤ لشکر سمت قدم  رنجہ فرما چکے ہیں۔
پروٹوکول کی آڑ میں عوام  کو ایک بار پھر اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہونا پڑا ۔
بے حس  حکمران  اور ان کے رشتے دار پروٹوکول کے مزے لوٹ رہے ہیں اور غریب عوام دال سبزی سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔  زندگی کی تلخیاں چائے کی چسکیوں  میں اڑاتے تھے۔اب  سررکا کی جانب  سے   ہدایات جاری کردئیے گئے ہیں کہ عوام چائے کا استعمال کم کردیں۔
اگر یہی حالات رہے تو ایک دن حکم صادر ہوگا  عوام  سانس لینا چھوڑ دیں ۔
پروٹوکول  احساس برتری ،دوسروں سے خود کو نمایاں کرنے اور  خود پسندی کی علامت ہے۔جسے  نفسیات کی زبان میں نرگسیت بھی کہا جاتا ہے ۔ 
پروٹوکول کے ذریعے زبردستی عوام میں کسی شخصیت کی دھاک بٹھائی جاتی ہے۔عوام کے لیے چونکہ وہ غیر اہم ہوتا ہے۔ اس لیے عوام کی نظروں میں ایک غیر اہم چیز کو نمایاں کرنے کے لیے پروٹوکول کا سہارا لیا جاتاہے ۔ ہم اسے کسی شخصیت کو نمایاں اور ممتاز کرنے کی ایک نفسیاتی کوششش کہ سکتے ہیں۔
پروٹوکول کی آڑ میں معاملات زندگی کو متاثر کرنا، عوام کے لیے مشکلات میں اضافہ کرنا اگر اس کے سیاسی مقاصد دیکھے جائے تو اس کے بنیادی مقاصد دو ہیں۔
کہ ملک میں امن و امان کی حالت ٹھیک نہیں یا جس شخصیت کو پروٹوکول دی جاتی ہے   عوام اس سے مطمئن نہیں یا عوام کے لیے یہ ناپسندیدہ شخصیت ہے۔
پروٹوکول ایک غریب ملک کی شاہ خرچی اور عوام کے ساتھ بے رحمی کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
پروٹوکول   اور وی آئی پی کلچر  شاہی دور کی پیداوار ہے۔ یہ دور غلامی کی یاد گار ہے۔  ہماری ثقافت میں یہ مغربی ثقافت کی اندھی تقلید  کا نتیجہ ہے ۔ جسے  آج  مغرب والوں نے تو چھوڑ دیا ہے لکین ہم نے  ایک وفادار غلام کی طرح اس روایت کو  سینے سے لگائے رکھا ہے۔
فرعون کی سلطنت میں امرا کو جو پروٹوکول دی جاتی تھی یا انقلاب فرانس سے پہلے معاشرے میں بالادست طبقے کو جو   پروٹوکول دی جاتی تھی۔عوام سے خود کو نمایاں کرنے کی جس  خبط کا وہ شکار تھے  ۔ یہی غرور ، شان و شوکت اور جاہ و جلال    ان کے  زوال کا باعث بنا۔ 
آج امرا کی یہ شاہ خرچاں قومی زوال کا باعث بن رہا ہے۔
آج  اللّٰہ کی مخلوق دو وقت کی روٹی سے محروم ، انہیں عزت کی زندگی نصیب نہیں اور معاشرے کے بالادست طبقے کے قدموں میں سرخ قالین  بچھ رہے ہیں اور وہ بھی قومی  سرمائے اور وسائل سے ۔
 ایسا صرف اس وقت  ممکن ہوتا ہے جہاں عوام پر عقل وشعور کے دروازے بند کر دیے گئے ہو ۔ جہاں عوام  اپنے بنیادی  انسانی اور  آئینی حقوق سے محروم  جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہو۔جہاں اظہار رائے پر قدغنیں لگائے گئے ہو۔
دنیا کے سب سے ماڈرن اور روشن دین  ، دین اسلام  میں پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کا کہی ذکر نہیں ملتا ہے ۔
محسن انسانیت،رحتمہ اللعالمین ،سرور کونین ،ساقی کوثر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی میں   لوگوں کے  درمیان  اور عام لوگوں کے ساتھ  گھل مل کر رہنے  کی روایت موجود ہے ۔گھر میں خود جھاڈو لگاتے ، بکریوں کا دودھ دھوتے ،مسجد نبوی کی تعمیر میں ایک عام  مزدور کی طرح پیٹ پر پتھر باندھ کر حصہ لیا۔
فتح بیت المقدس کے موقع پر جب حضرت عمر فاروق شہر میں داخل ہوئے تو ان کا ملازم اونٹ پر سوار تھا ۔اور حضرت عمر  اونٹ کی نکیل پکڑے آگے آگے چل رہے تھے۔ چونکہ سفر کے لیے اونٹ ایک تھا اس لیے باری باری بیٹھ جاتے ۔شہر میں داخل ہوتے وقت اونٹ پر بیٹھنے کی باری  ملازم کی تھی۔
تیسری دنیا کے حرام خور  ،بے رحم ، جاہل اور وڈیرے نما حکمران عوام کے ٹیکس کے سرمائے  پر اہل وعیال سمیت سرکاری پروٹوکول کے مزے لیتے ہیں ۔ملکی اثاثے گروی رکھ کر عالمی معیشتوں سے قرض لیتے ہیں  اور پھر اسے اپنی شاہ خرچیوں پر  اڑا دیتے ہیں ۔ سری لنکا کی حالت سب کے سامنے ہے۔۔
ان حرام خور وں نے ملک کا نظام ہی ایسا بنایا ہے کہ 
اس نظام میں ایمانداری،سچائی،فرض شناسی ،دیانت داری،رزق حلال  اور حب الوطنی کے راستے پر چلنے والوں کےلئے اس ملک میں زندہ رہنا اور باعزت زندگی گزارنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ 
کبھی ہم  نے دین  اسلام کے سیاسی، ،معاشی ،تعلیمی ،معاشرتی اور تمدنی پہلوں پر نظر ڈالنے کی کوشش ہے  ۔ہمارا  ایمان،عقیدہ تو عورت کے پردے،لباس تک یا ایک دوسرے کو کافر کافر کہنے تک محدود ہے۔
ہماری اسی جہالت ،نااتفاقی اور فرقہ بندی کا فائیدہ  معاشرے کے بالادست اور بااثر طبقے کو ہو رہا ہے۔
یہاں ایک چیز کی وضاحت ضروری ہے کچھ لوگ  بالادست طبقے کے لیے اشرافیہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو سرا سر غلط ہے۔
غریب عوام کا خون چوس کر یہ زندہ رہتے ہیں۔ملکی وسائل ،عدل وانصاف ، معیاری تعلیمی ، صحت  اور دیگر معاشرتی وسائل اور سہولیات پر  صرف ان کا قبضہ ہوتا ہے۔
اس لیے اس طبقے کو اشرافیہ نہیں  بلکہ بدمعاشہ کہہ سکتے ہیں۔
جو تعلمی ادارے یہ عوام کے لیے بناتے ہیں کیا یہ پسند کریں گے ان کے بچے بھی ان اداروں سے تعلیم حاصل کریں ۔کیوں کہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں ان تعلیمی اداروں میں تعلیم کا جو معیار ہے اس سے حاصل کرنے کے بعد انسان موچی ،دھوبی ،سپاہی ،کلرک، چوکیدار ہی بن سکتا ہے ۔سو میں سے پانچ ڈاکٹر ،انجینر بھی بن جاتے ہیں۔
 اعلیٰ اور معیاری تعلیم تک رسائی ایک فلاحی ریاست کے شہریوں کا بنیادی حق ہے ۔تعلیم کا بنیادی مقصد مثبت سمت پر شخصیت کی تعمیر ،متوازن شخصیت سازی اور فرد کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرنا،ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے صحت مند تعمیری ماحول مہیا کرنا ہے ۔
تاکہ انسان اپنی ذات کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تعمیر وترقی میں  بھی حصہ لے سکے۔
تعلیم کا مقصد کاغذ کی ڈگریاں تقسیم کرنا کسی صورت نہیں ہے ۔یا روزگار کے حصول کے لیے دھکے کھانا، نوکری نہ ملنے پر گلی کے نکڑ پر بیٹھ کر سیگریٹ پھونکنا یہ ہے غیر معیاری تعلیم کے ثمرات۔
محترم صدر صاحب !
سکردو اور ہنزہ کی پر فضا مقامات سے باہر گلگت بلتستان میں ایسے خطے بھی موجود ہیں ۔جہاں پر  لوگ بنیادی صحت اور تعلیمی سہولیات سے ہی محروم ہیں۔ لوگ معمولی علاج کے لیئے کوسوں میل کا سفر طے کرتے ہیں ۔ 
غذر ،یاسین روڑ  پر بنے گھڑے اور کھنڈرات کی وجہ سے یہ روڈ اس قابل ہے کہ اسے آثار قدیمہ والوں کے حوالے کیا جائے ۔
جس  طرح  اس روڑ کی خستہ حالی ہے بلکل یہی بدحالی اور کام چوری یہاں کے  سرکاری اداروں میں نظر آئے گی۔غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔
غذر ریجن میں خود کشی کی ایک  بنیادی وجہ یہ کھنڈر نما خستہ حال روڑ بھی ہے۔
پروٹوکول کے مقاصد کچھ بھی ہو پاکستان جیسے ترقی پذیر  اور مقرض ملک کے حکمرانوں کو یہ زیب نہیں دیتا۔
کرے سوار اونٹ پر اپنے غلام کو
پیدل ہی خود چلے جو وہ آقا تلاش کر

مزید دریافت کریں۔