ہنزہ نیوز اردو

پاکستان کی خارجہ پالیسی

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2018/01/AirBrush_20180109141446.jpg” ]حسنات احمد کھوکھر[/author]

خارجہ پالیسی سے مراد ایسی حکمت عملی ہے جو کوئی ملک دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے متعین کرتا ہے یا یوں کہیں کہ ہر ریاست اپنے بنیادی مقاصد کے حصول کیلئے اندرونی و بیرونی معاملات میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے استحکام و ترقی کیلئے جو انتظامات کرتی ہے ان میں سب سے اہم ریاست یا مملکت کی خارجہ پالیسی ہوتی ہے۔خارجہ پالیسی کی وضاحت اگر ہم کرنے جائے تو اس کی وضاحت کچھ اسطرح بھی کی جاسکتی ہے کہ کوئی قومی ریاست اپنے مخصوص حالات میں قومی مفادات و مقاصد کے حصول کیلئے دوسری مقتدر ریاستوں سے تعلقات قائم کرنے اور انھیں برقرار رکھنے میں جو ترزِ عمل اختیار کرتی یا اقدامات کرتی ہے انھیں ریاست کی خارجہ پالیسی کہا جاتا ہے۔جب ہم کسی ریاست کی خارجہ پالیسی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کے عوامل کا تجزیہ کرنا پڑتا ہے جو خارجہ پالیسی کے معاملات پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ کہ ہمیں پالیسی کی اہمیت کو سمجھنے میں ان مقاصد کو زیر بحث لانا پڑتا ہے جو اسکا حاصل ہوتے ہیں۔اس طرح وہ تمام عناصر جو جن میں پالیسی کے تحت حاصل ہونے والے مفادات پر روشنی پڑتی ہے۔جسے ریاستوں کا طریقہ کار جو پالیسیوں پر عمل درآمد کے لئے اقدامات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔اور محرکات جو پالیسی میں بنیادی حیثیت رکھتے ہوں سب پر پیشِ نظر رکھتے پڑتے ہیں۔مقتد ریاستوں کے مابین تعلقات آئے دن بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں وقوع پذیرہوتے ہیں اور ترقی پاتے ہیں۔جو ریاستوں کی حکومتوں کے بامقصد طرز عمل سے باہمی تنازعات کے تصفیے کیلئے وعہد ناموں کی شکل میں پروان چڑھتے ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بحث سے قبل یہ جانا جائے کہ پاکستان وہ واحد اسلامی ملک ہے جو نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا۔اس کی اساس اسلامی نظریہ حیات پر رکھی گئی۔لہذا پاکستان کی خارجہ پالیسی میں سب سے پہلے تو اسلامی ممالک کی بقاء اور ملکی سلامتی کا تحفظ شامل ہے اور اس تحفظ اور بقاء کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے اس کو دیگر ممالک خصوصاََ اسلامی ممالک سے اپنے تعلقات اور روابط بنانے کیلئے خارجہ پالیسی دیں۔اہم فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسلم امہ کو درپیش مسائل کے حل کیلئے ممکنہ اور موثر اقدامات کرنا بھی کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔مثلاََ فلسطین و اسرائیل کا جھگڑا بوسنیا پر روسی یلغارو تشدد قبرس کا مسلہ یا کشمیر کا تنازعہ وغیرہ جن پر پاکستان کھل کر مسلم ممالک کی حمایت کرتا ہے اور دہشت گردی کی شدید مذمت کرتا ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے پاکستان نے کبھی اقوام متحدہ تو کبھی کسی اور ادارے یا تنظیم پر صدائے انصاف لگائی ہے۔یہ پاکستان کی اپنی نظریاتی اساس سے وابستگی کا اظہار ہی تو ہے کہ آج تک پاکستان نے اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے قائد اعظم اپنے ایک اخباری انٹر ویو میں فرماتے ہیں۔
“ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول تمام اقوام عالم کیلئے دوستی اور خیر سگالی کا عملی جذبہ ہے۔ہم دنیا کے کسی ملک یا قوم کے خلاف جارہانہ عزائم نہیں رکھتے ہم قومی اور بین الاقوامی معاملات میں برابری اور انصاف کے اصول پر یقین رکھتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان کے فوراََ بعد پاکستان کو کسی قسم کے داخلی اور خارجی خلفشاروں کا سامنا کرنا پڑا۔آغاز میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متعین کیا۔اور روس کی دعوت کو ٹھکرا کر امریکہ کے دورے پر روانہ ہوگئے۔اور ساتھ ہی دفاعی معاہدوں سینٹو اور سیٹوں کی رکنیت حاصل کرلی مگر وقت نے دکھایا کہ ہر مشکل گھڑی میں امریکہ نے طوطا چشم دوست کی طرح آنکھیں پھیر لیں مگر جب1979میں روسی افواج نے افغانستان پر چڑھائی کی تو امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی کو ازسر نو مرتب کرتے ہوئے پاکستان کو بطور مہرہ استعمال کیا اور1991میں سویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔پاکستان کے عوام نے کبھی بھی امریکہ کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا مگر حکومت نے ملکی و بین الاقوامی تناظر کی روشنی میں ہی اپنی خارجہ پالیسی کو ترتیب دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب بھارت نے1998میں ایٹمی دھماکے کئے پاکستان کو اپنی دفاعی طاقت دکھانے کیلئے جواباََ ایٹمی دھماکے کرنے پڑے جس کے نتیجے میں کئی ممالک نے اقتصادی پابندیاں عائد کردی مگر 11ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر امریکہ پر حملہ ہونے والے حملے اور دہشتگردی کے نتیجے میں امریکہ نے جارہانہ رویہ اپناتے ہوئے افغانستان پر اپنے اتحادیوں کے ہمراہ حملہ کردیا اور طالبان حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ایسے میں امریکہ نے پاکستان کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرلی اور نہ صرف پاکستان کا بہت سارا قرضہ معاف کیا بلکہ مزید امداد بھی دی۔دوسری طرف اگرچہ پاکستانی عوام کو امریکہ نواز پالیسی سے شدید نفرت تھی مگر حکومت نے نہایت دانشمندانہ اور حقیقت پسندانہ سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ سے وفاداری دکھاتے ہوئے دہشت گردی کی شدید مزمت کرتے ہوئے امریکہ سے کئی مفادات حاصل کرلئے۔دہشتگردی کی اس کڑی کو پھر امیریکہ نے صدام حسین کے کیمیائی ہتھیاروں سے جوڑتے ہوئے 20مارچ2003کو عراق پر اپنے اتحادیوں کے ہمراہ حملہ کردیا۔اس حملے کے پسِ پشت امریکہ کے عزائم طشت ازبام تھے کہ وہ ان ممالک کے تیل کی دولت پر قبصہ کرنا چاہتا تھا۔دنیا کے کئی ممالک نے اس جارحیت کی مذمت کی مگر پاکستان نے کھل کر اس کا اظہار نہیں کیا اور خود کو غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کی اور پھر5فروری 2003کو روسی صدر کی دعوت پر پاکستانی صدر نے روس کا دورہ کیا۔یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک اور بڑی کامیابی تھی کہ اس دورے سے جہاں امریکہ قدرے چوکنا ہواوہاں اسے پاکستان کے ساتھ اپنے ہمدردانہ جذبات کا اظہار بھی کرنا پڑا اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کو سراہنا پڑا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی کو ترتیب دے اور ایک مضبوط اسلامی پلیٹ فارم کے قیام کی کوشش کرے اور اسکے علاوہ پاکستان کو دوسرے ممالک پر بھروسہ کرنے کی بجائے خود انحصاری رواج رہنا چاہئے کیوکہ
“کوئی ملک نہ تو مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی مستقل دشمن”

مزید دریافت کریں۔