ہنزہ نیوز اردو

پاکستان کا دارلامان

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

شرافت حسین استوری

دارلامان سے کیا مراد ہے…! عام طور پر پڑھے لکھے خواتین و حضرات یا وہ لوگ جو عقل وفہم رکھتے ہیں اس کی تعریف اس طرح کرینگے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بے سہارا لوگوں کو سہارا دیا جاتا ہے. مگر یہ لفظ حقیقت سے دوری امن سے عاری سہولیات سے فقدان سے بھرپور خطہ ارض شمال گلگت بلتستان کے لوگوں کی نگاہ میں اس لفظ کے معنی حق تلفی کرنے اور اقتدار کے بھوکے لوگوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے. اب یہ خطہ ارض بین الاقوامی مندوبین اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے اور کچھ نامعلوم اشخاص کا مجموعہ اس کے اصل حقائق کو کو نظر انداز کرکے کبوتر کیطرح اس خطے کے مسائل کو سننے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو رہے ہیں. اور عنقریب یہ اپنی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت اس خطہ ارض سے کھو دینگے ۔۔۔! مگر ان لوگوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ لوگوں میں غم و غصے لہر پیدا پیدا ہو رہی ہے اور پیدا ہو چکی ہے. اور اپنے حقوق اور اپنی پہچان کو جان چکے ہیں اور اپنی حثییت بحال کرنے کے لیے تگ ودو کر رہے ہیں اور انکی اس پیچان کے لیے جہدو جہد کو تخریب کاری اور فساد نما الفاظ سے تشبیہ دی جاتی ہے ابھی یہ بھی کچھ کم نہ تھا کہ اس دھرتی کے لازوال قربانیوں کو نظرانداز کر دیا گیا اور وہاں پہ رہنے والے 25 لاکھ لوگوں کی زخموں پر نمک چھڑکا دی کیونکہ گلگت بلتستان کی محبت کوئی ڈھکی چھپی نہیں اور پورا پاکستان اس پر فخر ضرور کرتا ہے لیکن وہ اس کو اپنانے سے گریز کرتے ہیں. کِیا انکی شہدا کی اوقات کرایے کے کی فوجیو کی مانند تو نہیں کہیں ..! ہمارے وسائل سے لے کر ہماری زمین اور ہمارا پانی استعمال کرنے کے بعد بھی اس خطے کو وہ حقوق نہیں مل سکے جو پاکستان کے دوسرے شہریوں کو نصیب ہوتے ہیں گلگت بلتستان وہ واحد دارلامان ہے جہاں پر گلگت بلتستان کے باسیوں کو وہ سہولیات تو موجود نہیں لیکن وہاں کے باسیوں کو یقننا کسی نہ کسی جنگ میں یا کسی نہ کسی خانہ جنگی میں کرایے کے فوجیو کیطرح استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ وہ مقید حضرات ہیں جنکو گلگت بلتستان میں جو کچھ بھی مل جائے اسی کو لیکر خوش ہوجاتے ہین اور انہی لوگوں میں سے کچھ شعور رکھنے والے جب اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو انہیں غداری اور ایجنٹ کہہ کر جیل کے سلاخوں میں ڈال دیا جاتا ہے یہ وہ واحد دارلامان ہے جہاں پر انہی کے اپنے لوگوں کے وسائل، زمینیں اور لوگوں کا استعمال کیا جاتا ہے اور انہی لوگوں کو اپنانے کے بجائے انکو متنازعہ قرار دے کر انہی لوگوں کے وسائل کو لوٹ کر انکو اپنے حق سے بے دخل کیا جاتا ہے. اسی طرح گلگت بلتستان کے عوام کو ستر سالوں سے بے آئین دارلامان میں رکھا گیا ہے جنکی حثیت کو آج ستر سے قبول نہیں کیا گیا اور پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جوڈیشل سٹیمپ کے ساتھ یہ دارلامان متنازعہ بن گیا اور اب یہ دارالامان پر دو ملکوں کے لوگ دعوی کرینگے اور مجال ہے کسی کی کہ وہ اس خطے کو اپنائے بلکہ قابضیین نے اس کو ہمیشہ سے محروم اور مظلوم رکھنے کی کوشش کی اور کرتے رہینگے. کیونکہ یہ دو ملک کبھی نہیں چائینگے کی متنازعہ حثییت کے علاقے میں تعمیر اور ترقی ہو. افسوس اس بات کہ ہے کہ جس نے گلگت بلتستان کو متنازعہ قرار دیا اسکو متنازعہ حقوق نظر نہیں آئیے. اور متنازعہ خطے کو ایک آرڈر کے زریعے سے چلانے کی کوشش کی اور آپنا دائرہ اختیار دارالمان تک بڑھا دیا تاکہ وہ اپنا بڑھاپہ اس دارلامان میں گزارے . اگر پاکستان کو گلگت بلتستان پر اتنا فخر ہے تو وہاں کے لوگوں کو وہ حقوق بھی دے دیں جو ستر سالوں سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہے اور اس ملک کے لیے اپنی تمام قربانیوں کو نظرانہ پیش کیا اور ہر آنے والے دور میں ہر سیاست دان اس خطے کے لوگوں کو مختلف ایل ایف اوز، آرڈرز اور پیکیجزز کے زریعے سے اس خطے کے مستقبل اور حال کا فیصلہ کرتے رہے اور گلگت بلتستان کے عوام کو ٹرخاتے رہے. گؐگت بلتستان سادہ لوگ بھی گلگت بلتستان کی تاریخ میں دو سے تین بار تاریخ کے اہم موڑ پر آئے لیکن سیاسی قیادت کی بحران کی وجہ سے اس مقام تک نہیں پہنچ سکے . گلگت بلتستان کے تاریخ کا فیصلہ 17 جنوری کو ہوا جہاں پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے گلگت بلتستان کو متنازعہ قرار دیکر آئینی حقوق دینے سے معزرت کرلی اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو اپنی سمت متعین کرنے کی راہ دکھا دی. اس فیصلے کے بعد گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کرکے اپنی متنازعہ حثییت کو قبول کرنے کے لیے کوششیں کر رہیں اور اس بار گلگت بلتستان کے لوگوں کے اندر بلخصوص نوجوان میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے اور اس بار وہ اپنی شناخت کے حوالے سے پرعزم نظر آرہے ہیں اور پاکستان کے مختلف شہروں میں گلگت بلتستان میں اندورونی خودمختاری کے حق میں مظاہرے بھی کیے بس ریاست پاکستان کو چائیے کہ وہ ایک اور بنگلہ دیش نہ بنائے بلکہ انکی متنازعہ حثیت بحال کرکے انکو متنازعہ حقوق دے دیں …… کِیونکہ امیر شہر سے سارا حساب لینگے غرِیب شہر کے بچے جوان ہونے دو امیر شہر کو کہہ دو کہ زرا اپنی فکر کرے غریب شہر کے تیور بدلتے جا رہے امیر شہر سے کہہ دو آئیں دو مجھے ورنہ کسی دن لے کے ڈوبنیگی اسے محرومیاں میری

مزید دریافت کریں۔